"جب حکومتی حامیوں نے طاہرعباس تارڑ کو رحیم افغانی بناکر پیش کیا"

aai1h1h1i23.jpg

ڈی چوک احتجاج کے دوران رینجرز کی جانب سے ایک شخص کو نماز پڑھتے کنٹینر سے پھینکنے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جسے نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی شئیر کیا اور اس پر خوب تبصرے ہوئے

اس شخص کے بارے میں مختلف دعوے کئے گئے، جتنی بلندی سے انہیں نیچے پھینکا گیا، خیال یہ تھا کہ یہ شخص زندہ نہیں رہے گا اور کچھ پی ٹی آئی سپورٹرز نے اسے شہید ڈیکلئیر کردیا مگر وہ شخص زندہ تھالیکن وہ شخص کون تھا کسی کو معلوم نہیں تھا۔

اس پر ن لیگ سوشل میڈیا سپورٹرز ایک ویڈیو سامنے لے آئے اور کہا کہ یہ شخص رحیم افغانی ہے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ رحیم افغانی دوستوں سے شرط لگا کر کنٹینر پر ٹک ٹاک بنانے کیلئے چڑھا تھا اور اب تک زندہ بھی ہے۔ یہ ویڈیو زنجم ولی خان، رضی دادا جیسے صحافیوں اور حکومتی عہدیدار اور سابق صوبائی وزیر رانا مشہود نے شئیر کی تھیں۔

مگر اسی اثناء میں ساجد تارڑ نامی ایک تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر اس شخص کی تفصیلات سامنے لے آئے جو اصل میں رحیم افغانی نہیں تھا بلکہ منڈی بہاؤالدین کا طاہر عباس تارڑ تھا، اسکے بعد ن لیگی سپورٹرز کا یہ پروپیگنڈا جھوٹا ثابت ہوا۔

صحافی ادیب یوسفزئی نے "جب طاہر عباس تارڑ رحیم افغانی بنے" کے نام سے کالم لکھا اور اس شخص کی تمام تفصیلات بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کارکنان پر کریک ڈاؤن ہوا جس میں کئی رپورٹس کے مطابق براہ راست فائرنگ بھی ہوئی تاہم حکومت اس کی تردید کر رہی ہے۔ اس دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کارکن کنٹینر پر نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا کہ رینجرز اہلکار اس کے قریب پہنچے۔ مختصر وقفے کے بعد رینجرز اہلکاروں نے اس کارکن کا ایک دھکا دیا لیکن وہ کنٹینر کے ساتھ لٹک گیا تاہم رینجرز اہلکاروں کے دوسرے دھکے سے وہ گر پڑا۔

انکے مطابق یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔ پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے بغیر تصدیق کیے اسے 'شہید' قرار دیا اور اپنا پراپیگنڈا جاری رکھا۔ کئی صارفین نے اس پر تنقید کی تو متعدد صارفین ایسے بھی تھے جو کنٹینر پر نماز کی ادائیگی سے متعلق سوالات اٹھا رہے تھے۔ اس ویڈیو پر بھی کام شروع کیا تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہیں ملا۔ ابھی تک اس کارکن کو 'شہید' قرار دیا جا چکا تھا۔
https://twitter.com/x/status/1864364177877287015
ادیوب یوسفزئی نے انکشاف کیا کہا کہ اچانک کسی طرح میں طارق محمود ساہی صاحب سے جڑا جو منڈی بہاؤالدین سے سابقہ ایم پی اے ہیں۔ ان کی اہلیہ زرناب شیر گزشتہ عام انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوئیں ہیں۔ ان کی جیت پر میں نے سٹوری کی تھی اس لیے ان سے رابطہ با آسانی ہوگیا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں باسمہ ریاض چوہدری(منڈی بہاؤالدین ) سے بھی ملاقاتیں ہوچکی ہیں تو ان سے بھی رابطے کی کوشش کی۔ طارق محمود ساہی صاحب سے معلوم ہوا کہ کمٹینر سے گرائے جانے والے کارکن کا تعلق منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ گاؤں پنڈی کالو سے ہے اور ان کا نام طاہر عباس تارڑ عرف بابا ہے۔ اب تک یہ دعوے سوشل میڈیا پر بھی گردش کرنے لگے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت تک طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے کسی نے رابطہ نہیں کیا تھا کہ اچانک پنجاب حکومت کے ترجمان اور سابق صحافی کوثر کاظمی کی ٹویٹ نظر سے گزری جس میں انہوں نے ایک شخص کی 'با پردہ' ویڈیو لگائی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ کنٹینر سے گرائے جانے والے کارکن زندہ ہیں۔ اس شخص کا لہجہ پشتونوں والا تھا تاہم مجھے شک گزرا۔ اس کے بعد پی ٹی وی کے نجم ولی خان اور رضوان رضی نے بھی یہ ویڈیو لگائی۔ ان دونوں صحافیوں نے دعوٰی کیا کہ یہ رحیم افغانی ہیں جو کہ ٹک ٹاکر ہیں اور انہوں نے کنٹینر پر نماز ادا کرنے کے لئے دوستوں کے ساتھ شرط لگائی تھی۔

ادیب یوسفزئی کے مطابق طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے رابطہ جب سرکاری صحافیوں کی جانب سے افغانیوں اور پشتونوں کے خلاف پراپیگنڈا سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو میں نے طاہر عباس تارڑ کی فیملی سے رابطہ کیا۔ ان کی فیملی میں کئی افراد سے بات ہوئی اور انہوں نے پوری کہانی بتائی لیکن ساتھ ہی اسے میڈیا پر نہ لانے کی شرط رکھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ان سے کسی نے رابطہ نہیں کیا لیکن مجھے یقین دہانی کروائی کہ کل وہ طاہر عباس سے ویڈیو کال کے ذریعے میرا رابطہ کروائیں گے۔ میں نے طاہر عباس تارڑ کے نمبر پر بھی رابطہ کیا۔ ان کو میرے میسجز پہنچے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ادیب یوسفزئی نے مزید کہا کہ صبح جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ طاہر عباس کہیں غائب ہوگئے ہیں اور ان کے والد، چچا اور بہنوئی کو پولیس کے ایک اعلیٰ افسر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ طاہر عباس تارڑ کا نمبر بھی اس دن سے آج تک بند ہے۔ سلامت تارڑ(فرضی نام) جو کہ ان کے بھتیجے ہیں، نے مزید بتایا کہ ان کی فیملی کو خطرہ ہے اس لیے اب آپ اس پر ہماری مدد کریں لیکن پولیس کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ پراپیگنڈا، پراپیگنڈا اس دوران کئی پراپیگنڈا ہوئے۔ ایک طرف حکومت نے طاہر عباس تارڑ کو ٹک ٹاکر کہا جو کہ وہ نہیں تھے۔

صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ کیا ’رحیم افغانی‘ والی فیک نیوز پھیلانے، پشتون قوم کیخلاف پراپیگنڈا پر رانا مشہود (آپ کا ویژن ہے سر والے)، رضوان رضی، نجم ولی وغیرہ کو جیل/جرمانہ ہو گا؟ یا یہ صرف مخالفین کیلئے ہے؟
https://twitter.com/x/status/1864325476216385547
مسرت چیمہ نے سکرین شاٹس شئیر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت کی جانب سے نوازے جانے والے صحافی و پی ٹی وی کے ملازم رضی دادا اور نجم ولی خان کے خلاف جھوٹ پھیلانے اور پراپیگنڈا کرنے پر کوئی کاروائی ہوگی یا تمام قوانین صرف مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہونے ہیں؟
https://twitter.com/x/status/1864535995414143348
حکومتی صحافیوں اور حکومت کی جانب سے پھیلائی جانیوالی خبروں پر عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ یوٹیوبرز سے زیادہ حکومت کو درست حقائق پیش کرنے، مبالغہ آرائی سے گریز اور غیرذمہ دارنہ و سنسی خیز بیانات سے پرہیز کی ضرورت ہے۔
https://twitter.com/x/status/1865320540158017909
 
Last edited:

Back
Top