Noman Alam
Politcal Worker (100+ posts)
جب تک
By Noman Alam
By Noman Alam
جب تک نسیم حجازی کی کتابوں سے پاکستان کے گلی محلوں کی لائبریریاں آباد رہیں گی ، جب تک ہمیں زید زماں حامد ٹی وی چینلوں پر من گھڑت غزوہ ہند پر اول فول لیکچر دیتا
رہے گا ، جب تک اوریا مقبول جان جیسے " سکالر " اس سر زمین کو جس نے امت مسلمہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ " کازبین " یعنی کہ " پیغمبریت کے دعوے دار " پیدا کیے ہوں ، کو مدینہ ثانی جیسے ناموں سے نوازتے رہیں گے اور جب تک بی اے ، ایم اے پاس جاہل آپکو جیو ، دنیا ، سما اور دوسرے چینلوں پر اپنے اپنے نمبر بڑھانے کے لئے چیختے نظر آتے رہیں گے اس وقت تک پاکستان کی ترقی کا خواب دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا –
دراصل مندرجہ بالا تمام خواتین و حضرات انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی سے پہلے کے حالات سے یا تو ناواقف ہیں ، یا پھر اچھی طرح جانتے ہیں ، یہ وہ سچ بولنے کی ہمت تو رکھتے ہیں ، لیکن بولتے اس لیے نہی ہیں کیونکہ انکی ساری کی ساری شھرت پر پانی پھرنے کا خدشہ ہے – انکو پاکستانی ایجنسیوں نے کچھ اسی طرح سے ڈیوٹیوں پر لگا رکھا ہے جیسا کہ انڈیا میں را اور دوسری ایجنسیوں نے ہندو پرست پنڈتوں اور ایم اے پاس جاہل ہندوستانی ٹی وی اینکرز کو ڈیوٹی سونپ رکھی ہے ، یہ ڈرامہ ایک ہی ہے بس اسکی دو ریلیں ہیں ، ایک یہاں پر چلتی ہے اور ایک وہاں پر –
آرمی اور کشمیر پر کچھ الفاظ پڑھنے سے پہلے ایک مصرع لکھ دوں
سرحدوں کی نہ تم نے نگہبانی کی
ہم سے ہی داد لی جوانی کی
میں نے کوئی سترہ کشمیریوں سے ( مظفر آبادیوں سے ) اور کم و بیش بارہ یا پندرہ کشمیریوں سے ( سری نگریوں سے ) پچھلے سات سال میں تفصیلاً ملاقات صرف اس لیے کی ہے کہ مجھے اصل کہانی کا پتا چل سکے – مجھے الله کی ذات اقدس غارت کرے اگر میں اپنی جانب سے کچھ لکھوں ، حال تو یہ ہے کہ ادھر والے کشمیری اور ادھر والے کشمیری بڑے ذوق و شوق سے ایک دوسرے کو بغلگیر ہوتے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں ، یہ وہ زمینی حقائق ہیں جو کہ نہ تو کوئی پاکستانی نہ ہی ہندوستانی ٹی وی چینل دکھاۓ گا ، نہ ہی کوئی جنگ یا ہندوستان ٹائمز لکھے گا ، کشمیر دراصل پاکستان اور انڈین آرمی کی جنت نظیر ہے ، یہ وہ انڈا ہے جس کہ حصول کے لیے آپ اور میں اور ہر ہندوستانی اپنی جیب سے ہر ماہ کوئی اکتیس روپے بلاواسطہ یا بلواسطہ ادا کرتے ہیں ، یہ وہ جگا ٹیکس ہے جسکا آدھا ان مونچھوں اور بڑی توندوں والے جرنیلوں کے پیٹ میں جاتا ہے ، اور باقی کے آدھے سے یہ دونوں فوجیں غوری ، پرتھوی ، شاہین اور نہ جانے کون کون سی چوسنیاں دے کر ہمیں بہلاتے ہیں ، یہ فوجی جرنیل ہوں یا کہ اوریا مقبول جان ، زاید حامد ہوں کہ بال ٹھاکرے یا انکے جان نشین ، سب آپکو ، مجھے اور ہم سب کو بدھو اور الو بنا کر خود کو عقل مند ہونے کے دلاسے دیتے ہیں –
ہمارے ہاں سب کچھ ہے ، اگر نہیں تو شعور ، یہی وہ ملعون ہیں جو آپکو علامہ اقبال کے وہ اشعار تو پڑھ کر سنا دیتے ہیں جہاں اسلام اور مسلمانیت کا ذکر آتا ہے ، لیکن وہ سطریں پڑھ کر نہیں سناتے جس میں اقبال نے لکھا تھا " میں نے یورپ میں اسلام دیکھا ہے ، مسلمان نہیں دیکھے ، یہاں مسلمان دیکھے ہیں ، اسلام نہیں دیکھا " – یہ وہ لوگ ہیں جو کہ ہمیں گمراہ کرنے میں پیش پیش ہیں ، جب ان مولویوں میں سے کسی کو چھوٹی عمر کی لڑکی پسند آ جاتی ہے تو یہ آقاے دو جہاں کے بی بی عایشہ کے ساتھ کم عمری کے نکاح کی مثالیں دیتے ہیں تاکہ اپنی خباثت اور جنسی تسکین کی خاطر اس لڑکی سے شادی رچا سکیں ، اس وقت انکو آقاے دوجہاں کی ایک بیوہ کے ساتھ شادی بلکل یاد نہیں آتی ، اسی محلے میں دس بیوائیں اپنے سہاگ کا پھر سے انتظار کرتے کرتے بوڑھی ہو جاتی ہیں لیکن ان خبیثوں کو وہی سنت یاد آتی ہے جو انکے اپنے حق میں جاتی ہو ، بلکل اسی طرح میرا ، آپکا چاۓ پیتے پیتے انکی خباثت بھری تقریروں کو سنتے اور سر ہلانے میں ہی انکا فائدہ ہے –
شعور ناپید ہے ، سونے سے بھی زیادہ ، میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ جو میں نے لکھنا ہے ، وہ پاکستانی کٹھ پتلی اخبارات چھاپنے سے عاری ہیں اور جو وہ چھاپنے کے لائق ہیں ، اور پاکستانی بہن بھائی پڑھنے کے عادی ہیں ، وہ مجھ سے لکھ نہیں ہوتا ، مجھے آج سے ٹھیک ایک سال پہلے پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صدر قاسم خان سوری کے الفاظ بہت یاد آ رہے ہیں " نعمان بھائی آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ، کچھ ہمارے لیے بھی لکھا کریں " لیکن اس سے بھی بڑھ کر اپنے باپ کے الفاظ یاد ہیں " جو صحیح ہے وہ صحیح ہے ، جو غلط ہے وہ غلط ہے ، اور میں نے اسی صحیح کے چکر میں سترہ محکمے بدلے ہیں لیکن کیا اور کہا وہی ہے جو حق تھا "
مجھے اگر زندگی کے جھنجھٹ سے ایک موقع ملا تو یہی سچ پاکستان کی سڑکوں ، گلیوں اور بازاروں پر کہنے کی سعادت حاصل کرونگا انشا الله ، پاکستان زندہ آباد