
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 18 مئی سے مذاکرات دوحہ میں شروع ہونے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف سے بات چیت میں پیشرفت کے لیے حکومت کو پٹرول اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنا ہوگی۔
حکومت پٹرولیم مصنوعات پر ماہانہ 65 ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے سبسڈی مرحلہ وار ختم کرنے کی یقین دہانی کرائے جانے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف سے منظوری کے بعد ایک ارب ڈالر فنڈز کے اجرا میں مدد ملے گی۔ جولائی 2019 میں آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر پیکج کی منظوری دی تھی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت پاکستان کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کیلیے 3دوست ملکوں سے فوری بیل آؤٹ پیکیج ملنے کی امید فوری نظر نہیں آرہی۔ اگر حکومت پاکستان عالمی ادارے کی شرائط پوری کردیتی ہے تو وہ 8 ارب ڈالر کے پروگرام کی بحالی پر تیار ہوگا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے وزارت خزانہ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک بار پھر آئی ایم ایف سے درخواست کریں کہ وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی شرط میں جزوی طورپر نرمی کرے ،پاکستان چین کے 2.3 ارب ڈالر کمرشل قرضہ کو مؤخرکیے جانے کا بھی انتظار کررہا ہے۔پاکستان نے چین کے اس قرضہ میں ایک ارب ڈالر اسی ماہ ادا کرنا ہیں۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اس کے 6 ارب ڈالر قرضہ پروگرام کی مدت جوستمبر2022ء میں ختم ہورہی ہے میں ایک سال توسیع اور قرضہ کا حجم بھی6 سے بڑھا کر8 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی تھی۔پاکستان کو اس قرضہ کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس اس وقت 10.5ارب ڈالر موجود ہیں ان میں بھی4 ارب ڈالر چین، 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 2.5 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات کے ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے پاکستانی روپے کوسہارا دینے کیلئے اربوں ڈالر ایکسچینج مارکیٹ میں جھونکے لیکن وہ زرمبادلہ کو مستحکم رکھنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/shehbaz-sgarif-and%20imf.jpg