ہارون رشید کا مشہور فقرہ جو اکثر ہارون رشید نے عمران خان کوکہا ہے کہ انسان غلطیوں سے تباہ نہیں ہوتا، غلطیوں پر اصرار کرنے سے تباہ ہوتا ہے۔ غلطی ہر انسان کرتا ہے لیکن غلطیوں سے سبق سیکھنے والے کو عقلمندکہتے ہیں ۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ غلطیوں پر اصرار کرتے ہیں،سیکھتے نہیں ہیں۔ ایک غلطی ہوجائے تو اسے دوبارہ دہرانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ عمران خان نے 30 اکتوبر کے بعد عروج حاصل کرنے کے بعد کون کونسی غلطیاں کیں؟
عمران خان نے 30 اکتوبر 2011 کے بعد سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ دوسری جماعتوں کیلئے لوگوں کیلئے تحریک انصاف کے سارے دروازے کھول دئیے جس کی وجہ سےتحریک انصاف تنقید کی زد میں آگئی اور جو لوگ تبدیلی چاہتے تھے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے۔خاص طور پر شاہ محمود قریشی ، جہانگیرترین، لغاری برادران، جاوید ہاشمی کو لینا بہت بڑی غلطی تھی۔دوسری طرف تحریک انصاف نے ایک کام یہ کردیا کہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے پارٹی کے ٹاپ کے عہدے دیدئیے۔
عمران خان جس تنقید کی وجہ سے آج بھی زد میں ہیں وہ جہانگیرترین کا طیارہ ہے۔ عمران خان پر تنقید ہوتی رہی لیکن عمران خان نے کوئی پرواہ نہیں کی ۔ حالانکہ 30 اکتوبر سے پہلے عمران خان کا کام جہانگیرترین کے طیارے کے بغیر بھی چل رہا تھا۔
عمران خان نے تیسری غلطی یہ کی کہ جلسے جلوسوں کو اپنی پارٹی کی مقبولیت سمجھ لیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ تنظیم سازی کرتے، کارکنوں کو متحرک کرتے۔مختلف حلقوں میں جاکر عوامی رابطہ مہم شرو ع کرتے مگر عمران خان کی نظر میں مقبولیت کا پیمانہ صرف جلسے تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف حلقوں کی سیاست میں کمزور رہی۔
عمران خان نے ایک غلطی یہ کرڈالی کہ الیکشن سے ایک سال پہلے ہی پارٹی الیکشن کا اعلان کردیا اور پارٹی الیکشن فروری2013 تک لٹکادئیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف جنرل الیکشن کی تیاری نہ کرسکی۔
تحریک انصاف کی ایک سب سےبڑی غلطی جس پر تحریک انصاف نے لاپرواہی برتی وہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم تھی۔ عمران خان نے جاوید ہاشمی کو پارلیمانی بورڈ کا چئیرمین بنادیا جس کی وجہ سے جاوید ہاشمی نے ایسے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیدئیے جو یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے تھے ۔جاوید ہاشمی اور اعجازچوہدری پر تو کارکنوں نے ٹکٹ بیچنے کے الزامات بھی لگائے۔
عمران خان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں اگر کوئی لائن پڑھا دے تو وہ اسی لائن کو گھسیٹتے رہتے ہیں۔مثال کے طور پر عمران خان نے ہر جلسے میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں ایک گیند پر دو وکٹیں لوں گا۔یہاں تک کہ لوگ عمران خان کے اس تکیہ کلام سے تنگ آگئے۔
عمران خان نے جلسے جلوسوں میں نوازشریف کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنا شروع کردی جس کی وجہ سے ایسا ووٹر جو عمران خان کے ساتھ ساتھ نوازشریف کو بھی پسند کرتا تھا وہ عمران خان سے دور ہوتا رہا اور عمران خان کی زبان کی وجہ سے یہ ووٹر نوازشریف کی طرف واپس چلا گیا۔ کم از کم اگر عمران خان نوازشریف کے خلاف سخت زبان استعمال نہ کرتے اور اپنی تقریر میں عوامی مسائل کو فوکس کرتے تو تحریک انصاف کا ووٹ بنک نہ ٹوٹتا اور تحریک انصاف ایک کروڑ کے لگ بھگ ووٹ لے جاتی۔
الیکشن میں دھاندلی ہوئی اس سے کوئی انکار نہیں مگر تحریک انصاف نے الیکشن کے بعد اپنی غلطیوں پر غور وفکر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک تجزیہ کرتے کہ تحریک انصاف سے الیکشن کے دوران کیا کیا غلطیاں ہوئیں؟ کس کس کو غلط ٹکٹ دیا؟ کس کس امیدوار کو اگنور کیا جو الیکشن جیت سکتا تھا مگر تحریک انصاف نے یہ کرنے کی بجائے دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیا جس کی وجہ سے غلط ٹکٹ دینے والوں سے دھیان اٹھ گیا اوران کا کوئی احتساب نہ ہوا اور وہ بعد میں بھی پارٹی کو کمزور کرتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان اعجازچوہدری، علیم خان، نادراکمل، جاوید ہاشمی، قریشی سے حساب لیتے ، ٹکٹ ہولڈرز کو بلا کر پوچھتے کہ وہ کیوں ہارے لیکن عمران خان نے یہ سب اگنور کردیا اور انہی لوگوں نے بعد میں من مانیاں کرکے پارٹی کو مزید کمزور کردیا۔
تحریک انصاف میں دھڑے بندی ہوتی رہی۔ علیم خان نے اپنا دھڑا بنایا، میاں محمود الرشید نے اپنا دھڑا بنالیا۔ایک دھڑے کی سرپرستی جاوید ہاشمی نے کی ، دوسرے کی شاہ محمود قریشی نے کی،دونوں آپس میں لڑتے رہے۔عمران خان کے نوٹس نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 5 دھڑے بن گئے۔ لاہور سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور ہر ضلع میں پھیل گیا۔جس سے کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوئی،کارکن تقسیم ہوگئے۔
عمران خان کا طالبا ن پر موقف غلط تھا۔ طالبان خودکش حملے کرکے بے گناہوں کو مارتے رہے اور عمران خان طالبان سے مذاکرات پر اصرار کرتے رہے جس پر لوگوں نےکہنا شروع کردیا کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے ایک طرف طالبان ہمیں ماررہے ہیں اور یہ انہی سے بات چیت کا کہہ رہا ہے۔ عمران خان کے اس موقف کے نتیجے میں لبرل ووٹ عمران خان سے دور ہوگیا اور اسی لبرل ووٹر عمران خان کو سب سے زیادہ لتاڑا۔
عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں اور جو بھی کان میں کچھ کہہ دے فورا بول دیتے ہیں۔ عمران خان کو مروانے والے اسکے ہی قریبی ساتھی ہیں۔ کبھی عمران خان شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، جہانگیرترین، نعیم الحق کے بارے میں سوچے تو سہی کہ انہوں نے کون کونسے مشورے دئیے اور کس کس موقع پر عمران خان سے کیا کیا کہلوایا؟
الیکشن کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان سیاست سے زیادہ خیبرپختونخوا حکومت پر توجہ دیتے اور دو سال میں خیبرپختونخوا کو رول ماڈل بنادیتے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم، صحت، پولیس، بلدیاتی نظام، سڑکوں، گلی نالی، سیوریج پر توجہ دیتے اور ایک ماڈل بناکر باقی لوگوں کو دکھاتے اور اگلے الیکشن کی کمپین چلاتے مگر عمران خان نے یہ سب چھوڑچھاڑ کر آزادی مارچ کا اعلان کردیا اور اسی آزادی مارچ کا پھل آج کل عمران خان کو کھانے کو مل رہا ہے۔
عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بولنے سے پہلے سوچتے نہیں ہیں کہ وہ کیا بات کررہے ہیں۔ ایک ہی بات کو بار بار دہرانا، بندہ اکتاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر پشاور میں چرچ پر حملہ ہوا، 88 لوگ مرے عمران خان کو اس وقت بھی مذاکرات یاد آرہے تھے۔الیکشن سے پہلے عمران خان نے ایک گیند پر دو وکٹیں گرانے کی گردان کی۔شیر گیدڑوں کی قیادت کرسکتا ہے گیدڑ شیر کی نہیں یعنی اپنے ہی لوگوں کو گیدڑ بنادیا۔ کس موقع پر کیا بولنا ہے اس کی عمران خان نے کبھی پرواہ نہیں کی۔
جب عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اس وقت ن لیگ حکومت کو آئے ہوئے 15 ماہ ہوئے تھے۔ عمران خان نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی اور آزادی مارچ کا اعلان کردیا اور اس آزادی مارچ کی وجہ سے آج عمران خان کو بہت کچھ بھگتنا پڑرہا ہے۔
عمران خان نے جوڈیشل کمیشن پر غلطی یہ کی کہ منظم دھاندلی کے لفظ پر متفق ہوگئے اور وکیل ایسے شخص کو کرلیا جو کریمنل لائر نہیں جس نےمختلف مواقع پر مختلف چیزیں نکلواکر کیس کو ہی کمزور کرکے رکھ دیا ۔
عمران خان نے اپنی میڈیا ٹیم، میڈیا سیل پر کوئی توجہ نہیں دی اور نعیم الحق، شیریں مزاری جیسے بیکار لوگوں کو اہم عہدے دیدئیے جو عمران خان کا دفاع نہیں کرتے تھے بلکہ الٹا عمران خان کو ان کا دفاع کرنا پڑتا تھا۔ جبکہ یہ لوگ فیصل جاوید، احمد جواد جیسے ٹیلنٹڈ لوگوں کو آگے آنے نہیں دیتے تھے ۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی، جہانگیرترین بھی عمران خان کے دفاع کی بجائے اپنے حال میں مست رہتے جس کی وجہ سے عمران خان کو اپنا دفاع خود کرنے میڈیا پر آنا پڑتا۔
عمران خان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ خو داحتسابی پر یقین نہیں رکھتے۔ پورے دن میں کیا غلطیاں کیں کبھی اسکا جائزہ لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کبھی عمران خان نے اس پر توجہ نہیں دی کہ وہ کیا غلط بول گئے ہیں، انہوں نے کیا غلطی کردی ہے بلکہ الٹا اپنی غلطیوں کو جسٹی فائی کرنے اور غلطیوں پر اصرار کرنے پر ہی مصر رہے۔