وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ۲۵.سورہ المعارج اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی
أُولَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَمُونَ ۳۵.سورہ المعارج وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے
لَن تَنَالُواٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۹۲.سورۃ آل عمران تم اسوقت تک نیکی اور بھلائی نہیں پاسکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت177)، قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)
سورہ القلم میں اھل باغ کا واقعہ ھے.. واقعہ اس طرح ھے کہ ایک شخص بہت صالح تھا.. اللہ تعالی نے اس شخص کو بہت سے مال و متاع سے نواز رکھا تھا.. اس شخص کی ایک عادت تھی کہ جب اس کے کھیتوں میں فصل پک کر تیار ھوجاتی یا باغوں میں پھلدار درختوں پر پھل تیار ھوجاتا تو تمام غرباء اور مساکین اس کے کھیتوں اور باغوں میں پہنچ جاتے.. وہ اللہ کا بندہ ان میں سب کچھ تقسیم کر دیتا اور یوں ان کے حالات اچھے ھوجاتے..
وقت گزرتا رھا اور یہ سلسلہ چلتا رھا.. ایک روز وہ شخص اپنے خالق حقیقی سے جا ملا.. اس کے تمام باغات اور زمینیں اس کے بیٹوں کو وراثت میں مل گئے.. ان کے باپ کی وفات کے بعد جب پہلے کی طرح کھیت فصلوں سے لہلہانے لگے ' باغات پھلوں سے بھر گئے تو سب نے سر جوڑ کر صلاح کی اور کہنے لگے کہ ان کا باپ ایک بےوقوف انسان تھا جو اپنی محنت کی کمائی غریبوں میں بانٹ دیا کرتا تھا.. وہ ایسا ھرگز نہیں کریں گے ۔
انہوں نے طے کیا کہ وہ دن کی بجائے رات کی تاریکی میں فصلوں کی کٹائی کرائیں گے.. اسی طرح باغوں کے پھل بھی رات کو ھی اتروا لیں گے.. اس طرح نہ ھی غرباء و مساکین کو پتہ چلے گا اور نہ ھی انہیں کچھ دینا پڑے گا.. یہ پروگرام طے کرنے کے بعد وہ رات کا انتظار کرنے لگے ۔
ادھر جونہی رات ھوئی ' اللہ تعالی کے حکم سے ان کے کھیتوں اور باغات میں ایک ایسی تیز گرم ھوا چلی جس نے ان کی فصلوں اور باغات کو راکھ کرکے رکھ دیا.. کافی دیر بعد جب وہ خود اور ان کے ساتھ کٹائی کرنے والے لوگ وھاں پہنچے تو باغات اور فصلوں کی جگہ صاف میدان نظر آیا ۔
کافی دیر تک تو وہ یہی سمجھتے رھے کہ وہ بھٹک کر کسی اور طرف آ نکلے ھیں لیکن جب اردگرد کے نشانات سے اندازہ ھوا کہ یہ انہی کے کھیت تھے اور ان کو خاک کر دیا گیا ھے تو تب ان کو اپنے بخل اور بےایمانی کا اندازہ ھوا.. تب وہ پچھتانے اور رونے پیٹنے لگے لیکن اب کیا ھوسکتا تھا.. انہوں نے لالچ میں آ کر رزق کو اپنے تک محدود کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اللہ کو ان کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور وہ عذاب الہی کا شکار ھوگئے ۔
اللہ کریم صدقات کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں برکت عطا فرماتے ہیں ۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃً البقرۃ:۲۴۵ ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ ٢٦١.سورۃ البقرۃ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے مال کے ثواب کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دانہ ہو؛ اس سے سات بالیاں اُگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں ۔
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ۲۵.سورہ المعارج اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی
أُولَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَمُونَ ۳۵.سورہ المعارج وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے
لَن تَنَالُواٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۹۲.سورۃ آل عمران تم اسوقت تک نیکی اور بھلائی نہیں پاسکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت177)، قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)
سورہ القلم میں اھل باغ کا واقعہ ھے.. واقعہ اس طرح ھے کہ ایک شخص بہت صالح تھا.. اللہ تعالی نے اس شخص کو بہت سے مال و متاع سے نواز رکھا تھا.. اس شخص کی ایک عادت تھی کہ جب اس کے کھیتوں میں فصل پک کر تیار ھوجاتی یا باغوں میں پھلدار درختوں پر پھل تیار ھوجاتا تو تمام غرباء اور مساکین اس کے کھیتوں اور باغوں میں پہنچ جاتے.. وہ اللہ کا بندہ ان میں سب کچھ تقسیم کر دیتا اور یوں ان کے حالات اچھے ھوجاتے..
وقت گزرتا رھا اور یہ سلسلہ چلتا رھا.. ایک روز وہ شخص اپنے خالق حقیقی سے جا ملا.. اس کے تمام باغات اور زمینیں اس کے بیٹوں کو وراثت میں مل گئے.. ان کے باپ کی وفات کے بعد جب پہلے کی طرح کھیت فصلوں سے لہلہانے لگے ' باغات پھلوں سے بھر گئے تو سب نے سر جوڑ کر صلاح کی اور کہنے لگے کہ ان کا باپ ایک بےوقوف انسان تھا جو اپنی محنت کی کمائی غریبوں میں بانٹ دیا کرتا تھا.. وہ ایسا ھرگز نہیں کریں گے ۔
انہوں نے طے کیا کہ وہ دن کی بجائے رات کی تاریکی میں فصلوں کی کٹائی کرائیں گے.. اسی طرح باغوں کے پھل بھی رات کو ھی اتروا لیں گے.. اس طرح نہ ھی غرباء و مساکین کو پتہ چلے گا اور نہ ھی انہیں کچھ دینا پڑے گا.. یہ پروگرام طے کرنے کے بعد وہ رات کا انتظار کرنے لگے ۔
ادھر جونہی رات ھوئی ' اللہ تعالی کے حکم سے ان کے کھیتوں اور باغات میں ایک ایسی تیز گرم ھوا چلی جس نے ان کی فصلوں اور باغات کو راکھ کرکے رکھ دیا.. کافی دیر بعد جب وہ خود اور ان کے ساتھ کٹائی کرنے والے لوگ وھاں پہنچے تو باغات اور فصلوں کی جگہ صاف میدان نظر آیا ۔
کافی دیر تک تو وہ یہی سمجھتے رھے کہ وہ بھٹک کر کسی اور طرف آ نکلے ھیں لیکن جب اردگرد کے نشانات سے اندازہ ھوا کہ یہ انہی کے کھیت تھے اور ان کو خاک کر دیا گیا ھے تو تب ان کو اپنے بخل اور بےایمانی کا اندازہ ھوا.. تب وہ پچھتانے اور رونے پیٹنے لگے لیکن اب کیا ھوسکتا تھا.. انہوں نے لالچ میں آ کر رزق کو اپنے تک محدود کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اللہ کو ان کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور وہ عذاب الہی کا شکار ھوگئے ۔
اللہ کریم صدقات کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں برکت عطا فرماتے ہیں ۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃً البقرۃ:۲۴۵ ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ ٢٦١.سورۃ البقرۃ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے مال کے ثواب کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دانہ ہو؛ اس سے سات بالیاں اُگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں ۔
وَٱلَّذِينَ فِىٓ أَمْوَٰلِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّآئِلِ وَٱلْمَحْرُومِ ۲۵.سورہ المعارج اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی
أُولَـٰٓئِكَ فِى جَنَّـٰتٍ مُّكْرَمُونَ ۳۵.سورہ المعارج وہی لوگ جنت کے باغوں میں عزت و اکرام کے ساتھ رہیں گے
لَن تَنَالُواٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۹۲.سورۃ آل عمران تم اسوقت تک نیکی اور بھلائی نہیں پاسکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت177)، قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے” (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ ( سورة البقرہ آیت 215)
سورہ القلم میں اھل باغ کا واقعہ ھے.. واقعہ اس طرح ھے کہ ایک شخص بہت صالح تھا.. اللہ تعالی نے اس شخص کو بہت سے مال و متاع سے نواز رکھا تھا.. اس شخص کی ایک عادت تھی کہ جب اس کے کھیتوں میں فصل پک کر تیار ھوجاتی یا باغوں میں پھلدار درختوں پر پھل تیار ھوجاتا تو تمام غرباء اور مساکین اس کے کھیتوں اور باغوں میں پہنچ جاتے.. وہ اللہ کا بندہ ان میں سب کچھ تقسیم کر دیتا اور یوں ان کے حالات اچھے ھوجاتے..
وقت گزرتا رھا اور یہ سلسلہ چلتا رھا.. ایک روز وہ شخص اپنے خالق حقیقی سے جا ملا.. اس کے تمام باغات اور زمینیں اس کے بیٹوں کو وراثت میں مل گئے.. ان کے باپ کی وفات کے بعد جب پہلے کی طرح کھیت فصلوں سے لہلہانے لگے ' باغات پھلوں سے بھر گئے تو سب نے سر جوڑ کر صلاح کی اور کہنے لگے کہ ان کا باپ ایک بےوقوف انسان تھا جو اپنی محنت کی کمائی غریبوں میں بانٹ دیا کرتا تھا.. وہ ایسا ھرگز نہیں کریں گے ۔
انہوں نے طے کیا کہ وہ دن کی بجائے رات کی تاریکی میں فصلوں کی کٹائی کرائیں گے.. اسی طرح باغوں کے پھل بھی رات کو ھی اتروا لیں گے.. اس طرح نہ ھی غرباء و مساکین کو پتہ چلے گا اور نہ ھی انہیں کچھ دینا پڑے گا.. یہ پروگرام طے کرنے کے بعد وہ رات کا انتظار کرنے لگے ۔
ادھر جونہی رات ھوئی ' اللہ تعالی کے حکم سے ان کے کھیتوں اور باغات میں ایک ایسی تیز گرم ھوا چلی جس نے ان کی فصلوں اور باغات کو راکھ کرکے رکھ دیا.. کافی دیر بعد جب وہ خود اور ان کے ساتھ کٹائی کرنے والے لوگ وھاں پہنچے تو باغات اور فصلوں کی جگہ صاف میدان نظر آیا ۔
کافی دیر تک تو وہ یہی سمجھتے رھے کہ وہ بھٹک کر کسی اور طرف آ نکلے ھیں لیکن جب اردگرد کے نشانات سے اندازہ ھوا کہ یہ انہی کے کھیت تھے اور ان کو خاک کر دیا گیا ھے تو تب ان کو اپنے بخل اور بےایمانی کا اندازہ ھوا.. تب وہ پچھتانے اور رونے پیٹنے لگے لیکن اب کیا ھوسکتا تھا.. انہوں نے لالچ میں آ کر رزق کو اپنے تک محدود کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اللہ کو ان کی یہ حرکت پسند نہ آئی اور وہ عذاب الہی کا شکار ھوگئے ۔
اللہ کریم صدقات کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں برکت عطا فرماتے ہیں ۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃً البقرۃ:۲۴۵ ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے۔
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ ٢٦١.سورۃ البقرۃ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے مال کے ثواب کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دانہ ہو؛ اس سے سات بالیاں اُگیں اور ہر ایک بالی میں سو سو دانے ہوں ۔
JazakAllah dear ….
This verse of Surah Al Imran ‘Lan tanalul birra’ always fascinated me into thinking can I give my most loved asset/property/jewellery/car to someone just out of love for Allah SWT ??
When this verse was revealed, the companion of Prophet PBUH , Hazrat Abu Talha RA , owner of Bir Ha garden, the best of gardens in Madina with best well and date trees gave it away to his cousins who were rivals to him exactly due to this garden ( in Pashto word tarboors describe such people aptly) ……
Such was the faith and love of Allah SWT and Prophet PBUH …..
And I have kept this ayah as my perimeter of my own judgment to where I stand …..
JazakAllah again for reminding…..