
رضوانہ کی طبیعت ناساز، آئندہ 72گھنٹے اہم قرار
اسلام آباد میں سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑ گئی، ملازمہ کا جنرل اسپتال لاہور میں علاج جاری ہے، ڈاکٹر نے زخموں سے چور رضوانہ کی صحت سے متعلق 2 سے 3 دن اہم قرار دے دیئے۔
پروفیسر الفرید کے مطابق رضوانہ کی پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے طبیعت خراب ہو رہی ہے،جبکہ اس کی دورانِ علاج بھرپور نگرانی کی جا رہی ہے،بچی کا آکسیجن ہٹاتے ہیں تو سانس کا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس سے پہلے گھریلو ملازمہ کی صحت سے متعلق میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر جودت سلیم نے بتایا تھا کہ رضوانہ کی طبیعت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں تاہم اسے نمونیا ہو گیا ہے اور آکسیجن بھی تاحال لگی ہوئی ہے۔
پروفیسر جودت سلیم کے مطابق رضوانہ اب خود بھوک کی شکایت کرتی ہے اور کھانے کو مانگتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رضوانہ نے آج صبح ناشتہ بھی کیا ہے، اسے گزشتہ روز خون کی تیسری بوتل بھی لگائی گئی۔
گھریلو ملازمہ پر سول جج کی اہلیہ کی جانب سے بدترین تشدد کا معاملہ 24 جولائی کو سامنے آيا تھا۔ متاثرہ کی ماں نے جج کی اہلیہ پر تشدد کا الزام لگایا تھا۔ جب بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کيڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے رپورٹ طلب کرلی ہے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچی کی زندگی بچانے اور صحتیابی کے لیے پوری کوشش کی جائے، مظلوم بچی کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا تھا ملزم کون ہے اسے خاطر میں نہ لایا جائے بلکہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے، قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے ظالم اور قانون شکن رعایت کے مستحق نہیں۔
وزیراعظم نے کہا پولیس کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر قانون پر سختی سے عمل کرے، معاشرہ ایسی اندھیرنگری اور ظلم و جبر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے متاثرہ بچی کے والدین کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی تھی۔
بی بی سی سے گفتگو میں رضوانہ کی والدہ نے بیٹی کی دردناک کہانی سنادی، والدہ کے مطابق چند روز قبل جب وہ رضوانہ کو اسلام آباد سے واپس سرگودھا لا رہی تھیں تو بچی کے سر کے ان زخموں میں کیڑے موجود تھے۔
’اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی انگلیاں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے جسم پر ہاتھ لگانے سے اس کی چیخیں نکل جاتی تھیں،شمیم بی بی کہتی ہیں کہ واپسی کے سفر پر بس میں بیٹھے ان کی بچی صرف رو رہی تھی اور انھیں بتا رہی تھی کہ گذشتہ سات مہینے میں اس کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے۔
شمیم بی بی اور ان کے شوہر ماہنگا خان اور خاندان کے چند دوسرے افراد لاہور جنرل ہسپتال کے سرجیکل وارڈ کے ایک پرائیویٹ کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اوپر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں سرگودھا سے تعلق رکھنے والی رضوانہ ادویات کے زیرِ اثر بے سدھ پڑی ہیں۔
ان کے جسم کے ساتھ جڑی ایک مشین پر وہاں موجود نرسوں کی خاص نظر ہے۔ یہ مشین بتاتی ہے کہ ان کے جسم میں آکسیجن کا لیول کتنا ہے۔