
کردستان ورکرز پارٹی PKK اور شامی کرد YPG ملیشیا جس کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی کا ہی ایک ونگ ہے استقلال ایونیو پر بم دھماکے کا ذمہ دار ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترک وزیر داخلہ سلیمان سویلیو نے استنبول کے استقلال چوک میں بم دھماکے پر امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ تعزیتی پیغام کو مسترد کرتے ہوئے امریکی تعزیتی پیغام کو ” جائے وقوعہ پر پہنچنے والے پہلے قاتل“ سے تشبیہہ دے دی۔
اس سے قبل سلیمان سویلو نے کہا کہ کردستان ورکرز پارٹی PKK اور شامی کرد YPG ملیشیا جس کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی کا ہی ایک ونگ ہے استقلال ایونیو پر بم دھماکے کا ذمہ دار ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اس سے پہلے واشنگٹن پر شمالی شام میں کرد جنگجوﺅں کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں جنہیں انقرہ دہشت گرد کہتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1592113130280456192
ترک وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بم دھماکے کا حکم کوبانی میں دیا گیا اور بمبار عفرین سے گزرا اور یہ دونوں شہر شمالی شام میں موجود ہیں جہاں ترک افواج نے شامی کردوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔
ترک کی طرف سے شمالی شام میں وائے پی جیکے خلاف تین دفعہ کارروائی کی گئی جس میں 2019ءمیں ایک کارروائی میں سینکڑوں کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا گیا جبکہ رواں سال کے شروع میں صدر طیب اردگان نے کہا تھا کہ ایک اور آپریشن کیا جائے گا جبکہ امریکہ نے شام سے تنازعے میں وائے پی جی کی حمایت کی تھی اور نیٹو کے ساتھی رکن ترکی کے ساتھ تنازعہ کھڑا کر دیا تھا! امریکہ، یورپی یونین، مصر، یوکرین اور یونان سمیت متعدد ممالک کی طرف سے حملے کی مذمت کی گئی اور متاثرین کے لیے تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے۔
واشنگٹن ودیگر ملکوں کی طرف سے وائے پی جی کی حمایت کو بم دھماکے سے جوڑتے ہوئے ایوان صدر کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر فرحتین التون نے کہا کہ اس طرح کے حملے "کچھ ممالک کی طرف سے دہشت گرد تنظیموں کو دی جانے والی حمایت کے براہ راست اور بالواسطہ نتائج ہیں۔" 1984ءسے کردستان ورکرز پارٹی ترک ریاست کے خلاف بغاوت کی قیادت کر رہی ہے اور ان جھڑپوں میں 40,000 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، اسے ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
پی کے کے کی ایک شاخ نے دسمبر 2016ءمیں استنبول کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم کے باہر دو بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 38 افراد ہلاک اور 155 زخمی ہوئے تھے۔
استنبول پولیس کے مطابق بم دھماکے کے بعد 46 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں شامی نژاد خاتون احلام البشیر بھی شامل تھی اور ابتدائی پوچھ گچھ میں خاتون نے بتایا کہ اسے شام میں کرد عسکریت پسندوں نے تربیت دی اور وہ شمال مغربی شام کے عفرین علاقے سے ہوتی ہوئی ترکی میں داخل ہوئی تھی جبکہ اس بم دھماکے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جون 2023ءمیں ہونے والے انتخابات سے قبل ترکی کو ایسے مزید واقعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سے پہلے آخری بڑا حملہ 2017ءکے نئے سال کے موقع پر استنبول کے نائٹ کلب میں ہوا تھا جس میں 39 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/13turkeyrejctusucookance.jpg