
بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے جان چھڑوانے کے دعوے کرنے والی برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے دعوئوں کے باوجود پاکستان اب بھی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جس کے باعث ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور عوام کے لیے مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہتی ہیں۔
آئندہ مالی سال 2024-25ء کا وفاقی بجٹ کل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے جس میں سود وقرضوں کی ادائیگیوں کا تخمینہ 9.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس استثنیٰ ختم ہونے کے ساتھ اضافی ٹیکسز کا بوجھ ڈالے جانے کا بھی امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق قرضوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی حکومت کی طرف سے آئندہ مالی سال 2024-25ء کے وفاقی بجٹ میں ایک بار پھر سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 932 ارب روپے کا قرض لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق مرکزی حکومت 316 ارب روپے کا قرضہ حاصل کرے گی جبکہ ملک کے چاروں صوبے مختلف غیرملکی مالیاتی اداروں سے مجموعی طور پر 616 ارب روپے کا قرضہ حاصل کریں گے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق حکومت سندھ کی طرف سے سب سے زیادہ 334 ارب روپے کا بیرونی قرضہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بعد دوسرے نمبر پر خیبرپختونخوا حکومت 131 ارب روپے کا بیرونی قرضہ حاصل کرے گی۔ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے 123 ارب روپے کا بیرونی قرضہ حاسل کرنے جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 29 ارب روپے کے بیرونی قرضے حاصل کرے گی۔
علاوہ ازیں ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2024ء تک پاکستان کا مجموعی قرض 67 ہزار 525 ارب تک پہنچ چکا ہے، مقامی قرض کا حجم 43 ہزار 432 روپے جبکہ بیرونی قرض کا حجم 24 ہزار 93 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطالبہ پر ملک میں مقامی وسائل سے ہونے والی سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی شیئر کی گئی ہیں، مختلف محکمے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنے وسائل سے 196 ارب 89 کروڑ روپے خرچ کریں گے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/qarzkskskh.png