
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ضرور ہے مگر یہ جمہوری روایات کے خلاف قدم ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام "رپورٹ کارڈ " سہیل وڑائچ سےسوال کیا گیا کہ کیا یہ وہی کھیل ہے جو صدیوں سے چلا رہا ہے ، صرف چہرے بدل گئے ہیں اور اب اپوزیشن اس کھیل کو آگے بڑھا رہی ہے کیا یہ ایک غیر جمہوری عمل ہے؟
سینئر تجزیہ کار نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک آئینی طریقہ ہے، آئین میں درج ہے کہ اگر کسی حکومت کو گھر بھیجنا ہے ، جب آپ کسی حکومت سے تنگ آجائیں یا حکومت عوام و عوامی نمائندوں کی خواہشات کے مطابق نہ چل رہی ہو تو اسے گھر بھیجنے کیلئے عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے، یہ عمل غیر آئینی یا غیر جمہوری نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہاں حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے اگر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ استعمال کیا جائے تو وہ غلط اور غیر آئینی ہے مگر عدم اعتماد ایک سیاسی عمل ہے جو ایک طرح کا انتخاب ہے جیسے وزیراعظم کے چناؤ کیلئے انتخاب ہوتا ہے ویسے ہی وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے بھی ایک انتخاب ہے۔
سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگر وزیراعظم یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تووہ ملک کے وزیراعظم رہیں گے اگر ہار جاتے ہیں تو پھر ایک نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چاہے یہ عمل آئینی و قانونی یا جمہوری ہےو مگر یہ جمہوری روایات کے خلاف عمل ہے، ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو توڑ کر حکومتوں کو گرایا جاتا ، جب نواز شریف کی حکومت کو گرایا گیا تھا تو ان کی پارٹی کو بھی توڑا گیا تھا۔
پروگرام میں شریک تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے سہیل وڑائچ سے سوال کیا کہ کیا پارٹیاں توڑ کر حکومتیں گرانا جمہوری عمل ہے؟ اگر نواز شریف کی حکومت کو گرانا ایک غلط اقدام تھا تو آج عمران خان کی پارٹی توڑنا بھی غلط ہوگا؟
اس کے جواب میں سلیم صافی نے کہا کہ کس کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ تحریک انصاف کو توڑ سکے؟ کون ہے جو تحریک انصاف جیسی مضبوط جماعت کو توڑ رہا ہے؟
ارشاد بھٹی نے جواب دیا کہ بقول عمران خان اپوزیشن ان کے لوگوں کو ٹکٹوں کا لالچ دے کر عہدوں کا لالچ دے کر توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/warraich112131.jpg