تحریک انصاف کے ڈرپوک بھگوڑوں کو میری تحریر اتنی کھلتی تھی کہ پہلے سب مل کر روتے تھے کہ بین کرو بین کرو، اور پھر الیکشن سے کچھ روز پہلے واقعی بین کروادیا۔ یعنی کہ بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا دیکھیے۔
بات افسوس کی نہیں، معمولی ہے۔ تحریک انصاف ہار گئی ہے۔ اس کی ساری لمبی لمبی انصاف کی خوش گپیاں، کرپشن کے خلاف لیکچر، اور نئے پاکستان کے خواب سب جعلی ووٹوں اور انتخابات کی دھاندلی کی نظر ہوگئے ہیں۔ صرف پاکستان نہیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی عمران خان اور تحریک انصاف کو آئینہ دکھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان ملٹری والوں کے بوٹ چاٹ چاٹ کر بالآخر برسر روزگار ہو گئے ہیں۔ مگر عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ابھی پارلیمنٹ میں تشریف لائیے، جو عزت افزائی ہوگی اس کو دیکھ کر آپ خود بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملاپائیں گے۔ جس پارلیمنٹ کو گالیاں دیتے تھے، اب اسی پارلیمنٹ کی گالیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ جو حال آپ نے پشاور کا کیا، وہی حال جب اس ملک کا کریں گے تو طول و عرض سے تھو تھو ملے گی۔
سب سے پہلے تو چوری چکاری کے ذریعے حکومت بنالیں۔ چوروں ڈاکوؤں (الیکٹیبلز) کے ذریعے اور چور بازاری کے ذریعے اتنی نشستیں جیت لیں جتنی نہ کبھی اوقات تھی اور نہ ہی آج ہے۔ تانگہ پارٹی کو ایک سیٹ نہ سہی 4 سیٹیں مل جاتیں بڑی بات تھی۔ دعا دیجیے اپنے اباجان کو جنہوں نے آپ کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچادیا۔ 2013 میں دھاندلی کے ذریعے سے 30 سیٹیں مل گئیں اور اب تو اتنی مل گئی ہیں کہ بدہضمی ہونے کو ہے۔ سادہ اکثریت پھر بھی نہ ملی۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے ایک بچہ امتحان میں نقل کرکے، رشوت دے کر یا جعلی ڈگری خرید کر امتحان پاس کرلیتا ہے، لیکن نمایاں پوزیشن حاصل نہیں کرپاتا۔
آپ لوگوں کی چوری چکاری کے باوجود، نون لیگ ایک قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
جو فریبی اور مکار کہتے تھے کہ نواز شریف کا بیانیہ کمزور ہوگیا ہے ان کو شرم کرنی چاہیے۔ نواز اور پیپلز پارٹی کا سویلیئن بالادستی کا بیانیہ مقبول نہ ہوتا تو ان دونوں کو ملا کر تحریک لوٹا یعنی تحریک انصاف سے زیادہ ووٹ نہ ملے ہوتے۔ وردی والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وردی کی دہشت گردی کے باوجود عوامی طاقت کمزور نہیں ہونے پائی۔ تحریک انصاف ابھی تک بھیک مانگ مانگ کر حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ان کا لیڈر جس طرح زلفی اور علیم کی خیرات پر پلا ہے ویسے ہی حکومت بھی مانگ تانگ کر بنائی جارہی ہے۔ ایسے نئے پاکستان میں تم لوگوں کو الٹا لٹکایاجائے گا، وقت کا انتظار کرو۔
قانون سازی میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا کیوں کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے ہوتی ہے۔ سینیٹ میں بھی منہ کالا ہوگا اور قومی اسمبلی میں بھی شیم شیم سن کر زندگی خراب ہوجائے گی۔
بات افسوس کی نہیں، معمولی ہے۔ تحریک انصاف ہار گئی ہے۔ اس کی ساری لمبی لمبی انصاف کی خوش گپیاں، کرپشن کے خلاف لیکچر، اور نئے پاکستان کے خواب سب جعلی ووٹوں اور انتخابات کی دھاندلی کی نظر ہوگئے ہیں۔ صرف پاکستان نہیں غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی عمران خان اور تحریک انصاف کو آئینہ دکھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ عمران خان ملٹری والوں کے بوٹ چاٹ چاٹ کر بالآخر برسر روزگار ہو گئے ہیں۔ مگر عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ابھی پارلیمنٹ میں تشریف لائیے، جو عزت افزائی ہوگی اس کو دیکھ کر آپ خود بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملاپائیں گے۔ جس پارلیمنٹ کو گالیاں دیتے تھے، اب اسی پارلیمنٹ کی گالیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ جو حال آپ نے پشاور کا کیا، وہی حال جب اس ملک کا کریں گے تو طول و عرض سے تھو تھو ملے گی۔
سب سے پہلے تو چوری چکاری کے ذریعے حکومت بنالیں۔ چوروں ڈاکوؤں (الیکٹیبلز) کے ذریعے اور چور بازاری کے ذریعے اتنی نشستیں جیت لیں جتنی نہ کبھی اوقات تھی اور نہ ہی آج ہے۔ تانگہ پارٹی کو ایک سیٹ نہ سہی 4 سیٹیں مل جاتیں بڑی بات تھی۔ دعا دیجیے اپنے اباجان کو جنہوں نے آپ کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچادیا۔ 2013 میں دھاندلی کے ذریعے سے 30 سیٹیں مل گئیں اور اب تو اتنی مل گئی ہیں کہ بدہضمی ہونے کو ہے۔ سادہ اکثریت پھر بھی نہ ملی۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے ایک بچہ امتحان میں نقل کرکے، رشوت دے کر یا جعلی ڈگری خرید کر امتحان پاس کرلیتا ہے، لیکن نمایاں پوزیشن حاصل نہیں کرپاتا۔
آپ لوگوں کی چوری چکاری کے باوجود، نون لیگ ایک قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
جو فریبی اور مکار کہتے تھے کہ نواز شریف کا بیانیہ کمزور ہوگیا ہے ان کو شرم کرنی چاہیے۔ نواز اور پیپلز پارٹی کا سویلیئن بالادستی کا بیانیہ مقبول نہ ہوتا تو ان دونوں کو ملا کر تحریک لوٹا یعنی تحریک انصاف سے زیادہ ووٹ نہ ملے ہوتے۔ وردی والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وردی کی دہشت گردی کے باوجود عوامی طاقت کمزور نہیں ہونے پائی۔ تحریک انصاف ابھی تک بھیک مانگ مانگ کر حکومت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ان کا لیڈر جس طرح زلفی اور علیم کی خیرات پر پلا ہے ویسے ہی حکومت بھی مانگ تانگ کر بنائی جارہی ہے۔ ایسے نئے پاکستان میں تم لوگوں کو الٹا لٹکایاجائے گا، وقت کا انتظار کرو۔
قانون سازی میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا کیوں کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے ہوتی ہے۔ سینیٹ میں بھی منہ کالا ہوگا اور قومی اسمبلی میں بھی شیم شیم سن کر زندگی خراب ہوجائے گی۔
Last edited: