Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
محترم شوکت ترین کے وزیر خزانہ بننے کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انکو ٹیلیویژن اسکرین پر عوام سے براہ راست مخاطب دیکھا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی عندیہ دے دیا گیا کہ پہلے سے اب کیا مختلف ہونے جارہا ہے۔ وہ پہلے ہی عوام کو دماغی طور پر تیّار کرتے نظر آرہے ہیں کہ ہم پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف سے ضرور جھگڑا کریں گے، لیکن نتائج جو بھی نکلیں، اسکا ذمّہ دار حکومت کو نہیں ٹھہرانا۔
یہ ایک اچھا سیف گارڈ ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ باتیں وہ بہت اچھے طریقے سے دبے لفظوں میں سمجھا گئے ہیں، اور یہ بنیادی نقاط غور کرنے کے قابل ہیں۔
۱
اسٹیٹ بینک کی خودمختاری:
دوران پریس کانفرنس، شوکت ترین نے اس بات کا عندیہ دو مرتبہ دیا کہ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری نہیں دی جارہی۔ اسکا پہلا عندیہ یہ تھا کہ جب انھوں نے فرمایا کہ حکومت کی پالیسی میں سب سے اہم ہے پرائس کنٹرول، یعنی قیمتوں پر قابو پانا۔ خیر اس بات سے تمام بات تو واضع نہیں ہوتی، بلکہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے ہی پرائس کنٹرول پر مناسب قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے بعد جب انھوں نے حکومتی پلان کے بارے مین بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو کہا جارہا ہے کہ چھوٹے اور متوسط کاروباروں کے لیئے دیئے جانے والے قرضوں کو ایک لاکھ سے بڑھا کر بیس لاکھ تک تو کم از کم لے کر جاٰٗئیں۔ ساتھ ہی ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ آڑتی برادری کی ناجائز منافع خوری کو ختم کرنے اور کسانوں کے مالی استحصال سے بچنے کے لیئے شارٹ ٹرم پالیسی یہی ہے کہ بنیادی اشیاء خردونوش کے لیئے حکومت اسٹریٹجک ریزرو بنانے جا رہی ہے۔ تو اسکا مطلب ہے کہ حکومت خود ہی پرائس کنٹرول اسٹریٹجی بنا رہی ہے، ورنہ وہ صاف کہہ دیتے کہ اب یہ کام اسٹیٹ بینک کا ہے، جب ہم اسے مکمّل آزاد ادارہ بنا دیں گے، نیب، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی طرح۔
۲۔
نیب کے مسائل سے چھٹکارا:
ایک اور بات جو سامنے آئی وہ ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ نے یہ کوشش کرے ہوئے کہ وہ کسی سیاسی بیان سے پرہیز کریں، ایک سوال کے جواب میں صاف طور پر بتایا کہ وہ نیب کی کاروائی پر بھروسہ نہیں رکھتے اور اسی لیئے وہ اپنی پالیسی مین کہیں بھی نیب کو نہیں دیکھتے۔ انکا خیال یہی رہا کہ نیب جب تک گمشدہ دولت کا سراغ لگائے گا، تب تک پانی سر سے اوپر ہوچکا ہوگا، لہٰذا ہمیں بھی بہ طور قوم، نیب کی طرف دیکھنا بند کردینا چاہیئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ صورتحال میں جہاں احتساب پر اتنا زور دیا گیا، پاکستان کی بیوروکریسی نے ڈر کے مارے کام کرنا بند کردیا ہے۔ لہٰذا اس اثر کو بھی زائل کرنے کی اشہد ضرورت ہے۔
۳۔
سیاسی ہم آہنگی کا اہتمام
عمران خان صاحب کی حکومت کا اب تک یہ خاصہ رہا ہے کہ انھوں نے کسی بھی صورت کسی کرپٹ عناصر کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید کی لیئے ایک انچ جگہہ بھی نہیں چھوڑی۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اور سینیٹ دونوں گزشتہ تین سال سے مچھلی بازار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن شوکت ترین صاحب نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ملک کی بہتر معاشی صورتحال کے لیئے ایک سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب اس بات پر عمران خان کو بھی قائل کرلیا گیا ہے کہ اگر جہانگیر ترین، علیم خان اور پرویز خٹک کے ساتھ مل کر پارٹی چلائی جاسکتی ہے، تو یہ لوگ بھی قریباً اسی قبیلے کے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ کوئی کرپشن کی ڈیل نہ کریں، لیکن ملک میں ایک سیاسی استحکام کی فضاء ضرور قائم کریں، تاکہ ملک میں انویسٹمنٹ آئے۔ پیسہ بہت شرمیلا ہوتا ہے، اور آئے دن کے دھرنے اور احتجاجوں کو دیکھ کر یہ فوراً کسی ڈرپوک چڑیا کی طرح اڑ جاتا ہے۔ بھئ بات یہ ہے کہ احتساب کرنا عدلیہ اور نیب کا کام ہے اور وہ آپ کے نیچے تو ہیں نہیں، نہ ہی آپ کی سنتے ہیں، تو آپ کیوں احتساب کا نعرہ بلند کر کے اپنا سیاسی استحکام مجروح کرتے ہیں؟ آپ صرف ان اداروں میں احتساب کا کام شروع کریں جہاں آپ کے اختیارات ہیں۔ نیب اور عدلیہ کی حرکتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عوام کے سامنے ذلیل مت کروائیں۔ بہرحال، مجھے یہ دلیل قابل فہم لگتی ہے۔
۴۔
تجارتی مافیا پر کریک ڈاوٗن:
شوکت ترین کی پریس کانفرنس میں سب سے بڑا عندیہ مہنگائی پر قابو پانے اور ملک میں معاشی ترقی کو نچلے طبقے تک پہنچانے کے ضمن میں بارہا اس بات کا ذکر آیا کہ آڑتی یعنی مڈل مین کی ناجائز منافع خوری اور کسان کے مالی استحصال کی وجہ سے ہم آج اس جگہہ پر کھڑے ہیں کہ جہاں ہمیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی بنیادی اشیاء خوردونوش کے لیئے درآمدات کرنی پڑ رہی ہیں۔ قیمتیں آسمان پر پہنچ رہی ہیں اور پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں حکومت نے نہ صرف چھوٹے کسانوں کو حکومتی قرضے دینے کا ارادہ کیا ہے، بلکہ اس آڑتی سسٹم کو بھی سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسمیں سب سے پہلے ان کی کمر توڑنے کے لیئے حکومت اسٹریٹجک ریزرو قائم کرے گی کہ جہاں کہیں بھی پاکستان کے شہروں میں یہ بنیادی اشیاء خورد و نوش کو مصنوعی قلّت پیدا کرنے کے لیئے غائب کرنے کی کوشش کریں گے تو حکومت اس جگہہ پر خود پیسہ ڈال کر وہ اشیاء اپنے پاس ذخیرہ کرسکتی ہے اور بعد از جب یہ زیادہ قیمت پر ان اشیاء کو بیچنے کی کوشش کرینگے تو حکومت اپنے ذخیرے میں سے وہی اشیاء مارکیٹ میں سستے داموں چھوڑ دے گی تاکہ ان کی کمر توڑی جاسکے۔ یہ ایک بہت بہتر اسٹریٹجی ہے۔ اس کے بعد حکومت لانگ ٹرم پلاننگ میں کسانوں کے لیئے کولڈ اسٹوریج اور کماڈٹی ایکچینج کا بھی قیام عمل میں لائے گی کہ جہاں پر کوئی بھی کسان کسی آڑتی کے آگے اپنی سڑتی ہوئی فصل بیچنے کے لیئے ایڑیاں نہ رگڑے، بلکہ حکومتی ریٹ کے اوپر کماڈٹی ایکسچینج میں اپنی فصل ایک جائز منافع پر بیچ دے۔ یا پھر مناسب کرائے پر کولڈ اسٹوریج میں رکھوا دے۔
لیکن اس سب سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس آڑتی بزنس، یعنی چیزوں کی مصنوعی قلّت پیدا کرنے والوں پر اب برے دن آنے والے ہیں۔
۵۔
افسر شاہی کا خاتمہ:
پاکستان کے معاشی استحکام کے لیئے اس بات پر بھی توّجہ دی گئی کہ صرف تجارتی خسارہ کم کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ حکومتی خرچے کم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیئے جن سرکاری محکموں کا فعالیت ہی اب نہیں یا انکا جواز نہیں انکو ختم کیا جائے گا۔ ساتھ ہی سرکاری کاروباری اداروں کی نجکاری بھی جلد از جلد ہوجائے گی اور اس مسئلے میں حکومت اب کچھ مزید سننے کو موڈ میں نہیں ہے۔ ان داروں پر ہر سال جو اربوں روپیہ ڈبویا جاتا ہے، اس سے جان چھڑائی جائے گی۔
لیکن اس سب میں جو سب سے اہم بات نوٹ کرنے کی تھی وہ یہ کہ بیوروکریسی میں اب تنخواہوں کا بھی نظام کارکردگی کی بنیاد پر ہوگا۔ جو زیادہ کام کرے گا، اسے زیادہ تنخواہ ملے گی اور جسکے کام کی ضرورت نہیں، اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔اس سلسلے میں شنید یہ ہے کہ ایک سروے پہلے ہی ہوچکا ہے اور ایک پلان تیّار ہے جس میں اسّی ہزار غیر ضروری سرکاری اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کردیا جائے گا، لیکن کرونا کی وجہ سے حکومت اب تک یہ اقدام نہیں لے سکی کہ اس وقت ایسا کرنے سے بیروزگاری کا گراف یکدم بہت اوپر چلا جائے گا۔ اس کے لیئے کسی ایسے موقع کا انتظار کیا جارہا ہے کہ جس پرائیویٹ انڈسٹری چل رہی ہو تاکہ برطرف کیئے گئے ملازمین کو فوری طور پراوئیویٹ سیکٹر میں نوکریاں مل جائیں۔
باقی تمام گپ شپ وہی تھی جو ہم ہر وزیر خزانہ کے منہہ سے سنتے آرہے ہیں۔ لیکن یہ چند نکات ایسے ہیں جن کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک کی معیشت اور خاص کر عام عوام کی مہنگائی سے بڑھتی پریشانی کو کم کیا جاسکے گا۔
کسی بھلے مانس نے کہا تھا کہ خان صاحب، ہماری اسّی فیصد آبادی یہ تجارتی خسارہ، ڈالر کی قیمت، بجلی کی کپیسٹی پیمنٹ اور دیگر اسطرح کی ٹیکنیکل باتوں کو نہیں سمجھتی، یہ صرف روٹی کی قیمت پر حکومت کی کارکردگی کو پرکھتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے۔ جب تک روٹی کی قیمت کم نہیں ہوگی، خان صاحب الٹا بھی لٹک جائیں، یہ قوم نہیں مانے گی کہ معیشت کہیں سے بہتر بھی ہوئی ہے۔
لیکن آخری بات جو شوکت ترین صاحب قوم کو سمجھا گئے ہیں کہ ہم خود لعنت بھیجتے ہیں آئی ایم ایف پر اور ہم پاکستانی عوام کی طرف سے لڑنے جارہے ہیں ان سے، لیکن پھر بھی قوم کسی بھی قسم کی مزید سختیوں کے لیئے تیّار رہے اور موجودہ حکومت کو اسکا ذمّدار نہ ٹھہرائے
یہ ایک اچھا سیف گارڈ ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ باتیں وہ بہت اچھے طریقے سے دبے لفظوں میں سمجھا گئے ہیں، اور یہ بنیادی نقاط غور کرنے کے قابل ہیں۔
۱
اسٹیٹ بینک کی خودمختاری:
دوران پریس کانفرنس، شوکت ترین نے اس بات کا عندیہ دو مرتبہ دیا کہ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری نہیں دی جارہی۔ اسکا پہلا عندیہ یہ تھا کہ جب انھوں نے فرمایا کہ حکومت کی پالیسی میں سب سے اہم ہے پرائس کنٹرول، یعنی قیمتوں پر قابو پانا۔ خیر اس بات سے تمام بات تو واضع نہیں ہوتی، بلکہ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے ہی پرائس کنٹرول پر مناسب قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے بعد جب انھوں نے حکومتی پلان کے بارے مین بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو کہا جارہا ہے کہ چھوٹے اور متوسط کاروباروں کے لیئے دیئے جانے والے قرضوں کو ایک لاکھ سے بڑھا کر بیس لاکھ تک تو کم از کم لے کر جاٰٗئیں۔ ساتھ ہی ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ آڑتی برادری کی ناجائز منافع خوری کو ختم کرنے اور کسانوں کے مالی استحصال سے بچنے کے لیئے شارٹ ٹرم پالیسی یہی ہے کہ بنیادی اشیاء خردونوش کے لیئے حکومت اسٹریٹجک ریزرو بنانے جا رہی ہے۔ تو اسکا مطلب ہے کہ حکومت خود ہی پرائس کنٹرول اسٹریٹجی بنا رہی ہے، ورنہ وہ صاف کہہ دیتے کہ اب یہ کام اسٹیٹ بینک کا ہے، جب ہم اسے مکمّل آزاد ادارہ بنا دیں گے، نیب، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی طرح۔
۲۔
نیب کے مسائل سے چھٹکارا:
ایک اور بات جو سامنے آئی وہ ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ نے یہ کوشش کرے ہوئے کہ وہ کسی سیاسی بیان سے پرہیز کریں، ایک سوال کے جواب میں صاف طور پر بتایا کہ وہ نیب کی کاروائی پر بھروسہ نہیں رکھتے اور اسی لیئے وہ اپنی پالیسی مین کہیں بھی نیب کو نہیں دیکھتے۔ انکا خیال یہی رہا کہ نیب جب تک گمشدہ دولت کا سراغ لگائے گا، تب تک پانی سر سے اوپر ہوچکا ہوگا، لہٰذا ہمیں بھی بہ طور قوم، نیب کی طرف دیکھنا بند کردینا چاہیئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ صورتحال میں جہاں احتساب پر اتنا زور دیا گیا، پاکستان کی بیوروکریسی نے ڈر کے مارے کام کرنا بند کردیا ہے۔ لہٰذا اس اثر کو بھی زائل کرنے کی اشہد ضرورت ہے۔
۳۔
سیاسی ہم آہنگی کا اہتمام
عمران خان صاحب کی حکومت کا اب تک یہ خاصہ رہا ہے کہ انھوں نے کسی بھی صورت کسی کرپٹ عناصر کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید کی لیئے ایک انچ جگہہ بھی نہیں چھوڑی۔ جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اور سینیٹ دونوں گزشتہ تین سال سے مچھلی بازار بنے ہوئے ہیں۔ لیکن شوکت ترین صاحب نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ملک کی بہتر معاشی صورتحال کے لیئے ایک سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب اس بات پر عمران خان کو بھی قائل کرلیا گیا ہے کہ اگر جہانگیر ترین، علیم خان اور پرویز خٹک کے ساتھ مل کر پارٹی چلائی جاسکتی ہے، تو یہ لوگ بھی قریباً اسی قبیلے کے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ کوئی کرپشن کی ڈیل نہ کریں، لیکن ملک میں ایک سیاسی استحکام کی فضاء ضرور قائم کریں، تاکہ ملک میں انویسٹمنٹ آئے۔ پیسہ بہت شرمیلا ہوتا ہے، اور آئے دن کے دھرنے اور احتجاجوں کو دیکھ کر یہ فوراً کسی ڈرپوک چڑیا کی طرح اڑ جاتا ہے۔ بھئ بات یہ ہے کہ احتساب کرنا عدلیہ اور نیب کا کام ہے اور وہ آپ کے نیچے تو ہیں نہیں، نہ ہی آپ کی سنتے ہیں، تو آپ کیوں احتساب کا نعرہ بلند کر کے اپنا سیاسی استحکام مجروح کرتے ہیں؟ آپ صرف ان اداروں میں احتساب کا کام شروع کریں جہاں آپ کے اختیارات ہیں۔ نیب اور عدلیہ کی حرکتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عوام کے سامنے ذلیل مت کروائیں۔ بہرحال، مجھے یہ دلیل قابل فہم لگتی ہے۔
۴۔
تجارتی مافیا پر کریک ڈاوٗن:
شوکت ترین کی پریس کانفرنس میں سب سے بڑا عندیہ مہنگائی پر قابو پانے اور ملک میں معاشی ترقی کو نچلے طبقے تک پہنچانے کے ضمن میں بارہا اس بات کا ذکر آیا کہ آڑتی یعنی مڈل مین کی ناجائز منافع خوری اور کسان کے مالی استحصال کی وجہ سے ہم آج اس جگہہ پر کھڑے ہیں کہ جہاں ہمیں ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی بنیادی اشیاء خوردونوش کے لیئے درآمدات کرنی پڑ رہی ہیں۔ قیمتیں آسمان پر پہنچ رہی ہیں اور پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں حکومت نے نہ صرف چھوٹے کسانوں کو حکومتی قرضے دینے کا ارادہ کیا ہے، بلکہ اس آڑتی سسٹم کو بھی سیدھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسمیں سب سے پہلے ان کی کمر توڑنے کے لیئے حکومت اسٹریٹجک ریزرو قائم کرے گی کہ جہاں کہیں بھی پاکستان کے شہروں میں یہ بنیادی اشیاء خورد و نوش کو مصنوعی قلّت پیدا کرنے کے لیئے غائب کرنے کی کوشش کریں گے تو حکومت اس جگہہ پر خود پیسہ ڈال کر وہ اشیاء اپنے پاس ذخیرہ کرسکتی ہے اور بعد از جب یہ زیادہ قیمت پر ان اشیاء کو بیچنے کی کوشش کرینگے تو حکومت اپنے ذخیرے میں سے وہی اشیاء مارکیٹ میں سستے داموں چھوڑ دے گی تاکہ ان کی کمر توڑی جاسکے۔ یہ ایک بہت بہتر اسٹریٹجی ہے۔ اس کے بعد حکومت لانگ ٹرم پلاننگ میں کسانوں کے لیئے کولڈ اسٹوریج اور کماڈٹی ایکچینج کا بھی قیام عمل میں لائے گی کہ جہاں پر کوئی بھی کسان کسی آڑتی کے آگے اپنی سڑتی ہوئی فصل بیچنے کے لیئے ایڑیاں نہ رگڑے، بلکہ حکومتی ریٹ کے اوپر کماڈٹی ایکسچینج میں اپنی فصل ایک جائز منافع پر بیچ دے۔ یا پھر مناسب کرائے پر کولڈ اسٹوریج میں رکھوا دے۔
لیکن اس سب سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس آڑتی بزنس، یعنی چیزوں کی مصنوعی قلّت پیدا کرنے والوں پر اب برے دن آنے والے ہیں۔
۵۔
افسر شاہی کا خاتمہ:
پاکستان کے معاشی استحکام کے لیئے اس بات پر بھی توّجہ دی گئی کہ صرف تجارتی خسارہ کم کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ حکومتی خرچے کم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیئے جن سرکاری محکموں کا فعالیت ہی اب نہیں یا انکا جواز نہیں انکو ختم کیا جائے گا۔ ساتھ ہی سرکاری کاروباری اداروں کی نجکاری بھی جلد از جلد ہوجائے گی اور اس مسئلے میں حکومت اب کچھ مزید سننے کو موڈ میں نہیں ہے۔ ان داروں پر ہر سال جو اربوں روپیہ ڈبویا جاتا ہے، اس سے جان چھڑائی جائے گی۔
لیکن اس سب میں جو سب سے اہم بات نوٹ کرنے کی تھی وہ یہ کہ بیوروکریسی میں اب تنخواہوں کا بھی نظام کارکردگی کی بنیاد پر ہوگا۔ جو زیادہ کام کرے گا، اسے زیادہ تنخواہ ملے گی اور جسکے کام کی ضرورت نہیں، اسے گھر بھیج دیا جائے گا۔اس سلسلے میں شنید یہ ہے کہ ایک سروے پہلے ہی ہوچکا ہے اور ایک پلان تیّار ہے جس میں اسّی ہزار غیر ضروری سرکاری اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کردیا جائے گا، لیکن کرونا کی وجہ سے حکومت اب تک یہ اقدام نہیں لے سکی کہ اس وقت ایسا کرنے سے بیروزگاری کا گراف یکدم بہت اوپر چلا جائے گا۔ اس کے لیئے کسی ایسے موقع کا انتظار کیا جارہا ہے کہ جس پرائیویٹ انڈسٹری چل رہی ہو تاکہ برطرف کیئے گئے ملازمین کو فوری طور پراوئیویٹ سیکٹر میں نوکریاں مل جائیں۔
باقی تمام گپ شپ وہی تھی جو ہم ہر وزیر خزانہ کے منہہ سے سنتے آرہے ہیں۔ لیکن یہ چند نکات ایسے ہیں جن کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک کی معیشت اور خاص کر عام عوام کی مہنگائی سے بڑھتی پریشانی کو کم کیا جاسکے گا۔
کسی بھلے مانس نے کہا تھا کہ خان صاحب، ہماری اسّی فیصد آبادی یہ تجارتی خسارہ، ڈالر کی قیمت، بجلی کی کپیسٹی پیمنٹ اور دیگر اسطرح کی ٹیکنیکل باتوں کو نہیں سمجھتی، یہ صرف روٹی کی قیمت پر حکومت کی کارکردگی کو پرکھتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے۔ جب تک روٹی کی قیمت کم نہیں ہوگی، خان صاحب الٹا بھی لٹک جائیں، یہ قوم نہیں مانے گی کہ معیشت کہیں سے بہتر بھی ہوئی ہے۔
لیکن آخری بات جو شوکت ترین صاحب قوم کو سمجھا گئے ہیں کہ ہم خود لعنت بھیجتے ہیں آئی ایم ایف پر اور ہم پاکستانی عوام کی طرف سے لڑنے جارہے ہیں ان سے، لیکن پھر بھی قوم کسی بھی قسم کی مزید سختیوں کے لیئے تیّار رہے اور موجودہ حکومت کو اسکا ذمّدار نہ ٹھہرائے
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/ycdEOyj.jpg
Last edited by a moderator: