
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت شروع کی تو برطانیہ سے آیا رانا شمیم کا بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
اس دوران چیف جسٹس نے رانا شمیم کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں لفافہ کھولنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ پہلئ کورئیر ڈلیوری ہے جسے میں نے وصول کیا۔
رانا شمیم نے بند لفافے پر ہاتھ پھیر کر لفافہ عدالتی عملے کو دے دیا اور کہا کہ آپ کھول دیں کہیں مجھے کٹر نہ لگ جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی بتانا ہے کہ کہاں یہ بیان حلفی دیا اور کون کون وہاں تھا، کس نے کس کو لیک کیا۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے طنز کیا کہ مجھے بیان حلفی دکھا دیں، ذرا دیکھ تو لوں کہ اس کا فونٹ بھی کہیں کیلبری والا نہ نکلے۔
اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا معنی خیز جملہ کہا کہ معلوم نہیں اس بند لفافے میں موجود بیان حلفی پر کس کس کے فنگر پرنٹ ہوں؟؟ ؟
اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ بیان حلفی سیل نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم نے جو جواب جمع کرایا اس میں سارا بوجھ انصار عباسی صاحب پر ڈال رہے تھے ، انہوں نے کہا تھا کہ یہ سیل تھا اور کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل اور رانا شمیم آمنے سامنے آگئے۔ اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کو دوٹوک جواب دیا کہ مجھے نہ بتائیں کہ میرا کام کیا ہے؟؟ میں بہتر جانتا ہوں کہ میرا کام اور ذمہ داری کیا ہے؟؟؟
رانا شمیم اور انکے وکیل لطیف آفریدی نے اٹارنی جنرل پر اعتراض اٹھایا تو چیف جسٹس نے رانا شمیم کو روک دیا
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس بیان حلفی کو اب ہم کہاں رکھیں تو اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ اسے اب آپ اپنی ہی تحویل میں رکھیں گے، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم دے دیا۔
دوران سماعت انصار عباسی، عامر غوری اور رانا شمیم کا دفاع اور اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے دلائل دئیے
انصار عباسی نے کہا کہ رانا شمیم کو شاید یاد نا ہو کہ ان سے میری بات خبر شائع ہونے سے پہلے ہوئی تھی ، شاید ان کو یاد نہیں ان سے میری جو بات ہوئی وہ اسٹوری میں بھی موجود ہے، انہوں نے مجھے میسج کے ذریعے کنفرم کیا تھا کہ یہ بیان حلفی درست ہے، رانا شمیم نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہے۔
انصار عباسی نے سارا ملبہ رانا شمیم پر ڈال دیا اور کہا کہ میرا کام بیان حلفی چھاپنا تھا،بیان حلفی میں جو لکھا ہے اس کا دفاع کرنا، ثابت کرنا رانا شمیم کا کام ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا عامر غوری سے سوال کیا کہ میرے بارے میں مہم چلی کہ میں نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت دینے کے عوض لندن میں فلیٹ لیا، اگر کوئی یہی بات کسی بیان حلفی پر لکھ کر دے دیتا تو کیا آپ چھاپ دیتے؟؟؟
چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ اگر اس عدالت میں کوئی ہائی پروفائل کیس چل رہا ہو اور کوئی اس کیس پر اثر انداز ہونے کے لیے جھوٹا بیان حلفی دے دے تو آپ چھاپ دیں گے؟؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی سے سوال کیا کہ کل اگر کلبھوشن یہ بیان حلفی دے دے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کمپرومائزڈ ہے، تو کیا اس بیان حلفی کو درست مان کر اس کا کیس روک دیا جائے گا؟؟؟
لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ غریب (رانا شمیم ) اب سارا دن ٹینشن میں رہتا ہے،اٹارنی جنرل پاکستان کا بھی پریشر ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا رانا شمیم کے بیان حلفی کا بیفشری کون ہے؟؟ جس پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔

وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم نے انصار عباسی کو کال کرنے پر یہی کہا تھا کہ یہ ایک پرائیویٹ ڈاکومنٹ ہے، آپ کو کیسے ملا؟؟
فاضل چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اگر رانا شمیم کے مطابق نوٹری پبلک نے ان کی اجازت کے بغیر بیان حلفی لیک کیا اور انصار عباسی نے بیان حلفی چھاپ کر ان کی پرائیویسی بریچ کی تو انہوں نے نوٹری اور انصار عباسی کے خلاف کیا کارروائی کی؟؟
اس دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل امجد شاہ بھی روسٹرم پر آئے اور اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان پر اعتراض اٹھادیا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے پاکستان بار کونسل کے اس کیس میں کردار پر بھی سوالات اٹھا ئے۔
انہوں نے کہا کہ میرا اور عدالت کا احتساب ہونا چاہئیے، اس عدالت سے جس نےبھی رجوع کیا اس کو ریلیف ملا، اس عدالت کا کنسرن صرف اپنے آپ کے ساتھ ہے، اس عدالت کی آزادی کے لئے آپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
عرفان ہاشمی کی خبر کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا......!
عرفان ہاشمی کی خبر کا معاملہ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹھا دیا حیران کن طور پر کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان جن کا گھر تھا وہ خاموش ہیں، تین دن گزر گئے، تردید نہیں کررہے، اٹارنی جنرل
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/saqib11.jpg
Last edited: