بنو قریظہ کے بچوں کا قتل اور اس کی حقیقت --- اصول درایت کی روشنی میں ایک جائزہ
اصول تحقیق پر روشنی خود قرآن نے ڈالی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا.(سورۃ الحجرات 6(
ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو.
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَٰذَا سُبْحَانَکَ ہَٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیمٌ.( سورۃ النور 61 (
اور کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس بات کو سنا تھا تو کہتے کہ ہمیں ایسی بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے خدایا تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے
ہمارے اس دور میں دو گروہوں نے جنم لے لیا ہے اور دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ ایک نام نہاد مذہبی گروہ قرآن کی آیات اور احادیث کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر اپنے انتقام و غلط مقاصد کیلیئے استعمال کررہا ہے جبکہ دوسرا مذہب سے بیذار آزاد خیال گروہ اس نام نہاد مذہبی گروہ کی پیش کردہ غلط دلائل کو دیکھ کر نعوذ بااللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر انگلیاں اٹھانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔
ہم ان روایات کو ایک جدول (ٹیبل) کی شکل میں لکھ رہے ہیں تاکہ ایک نظر میں آسانی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔
[TABLE="class: grid, width: 718"]
[TR]
[TD="colspan: 7"]راوی
[/TD]
[TD]مکررات
[/TD]
[TD]قسم حدیث
[/TD]
[TD]حدیث نمبر
[/TD]
[TD]جلد
[/TD]
[TD]کتب حدیث
[/TD]
[TD]نمبر
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]بنو قریظ کے دو لڑکوں سے
[/TD]
[TD] حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ
[/TD]
[TD]عمارہ بن خزیمہ،
[/TD]
[TD] ابی جعفر،
[/TD]
[TD]حماد بن سلمہ،
[/TD]
[TD] اسد بن موسی،
[/TD]
[TD]ربیع بن سلیمان،
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]1368
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]1
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 7"]راوی
[/TD]
[TD]مکررات
[/TD]
[TD]قسم حدیث
[/TD]
[TD]حدیث نمبر
[/TD]
[TD]جلد
[/TD]
[TD]کتب حدیث
[/TD]
[TD]نمبر
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] عطیہ سے
[/TD]
[TD] عبدالملک بن عمیر،
[/TD]
[TD] شعبہ،
[/TD]
[TD]خالد،
[/TD]
[TD]اسماعیل بن مسعود،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث موقوف
[/TD]
[TD]1285
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]2
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
[/TD]
[TD]عبدالملک بن عمیر،
[/TD]
[TD] سفیان،
[/TD]
[TD]محمد بن منصور،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث موقوف
[/TD]
[TD]1369
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]3
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]محمد بن کثیر،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD]حدیث مقطوع
[/TD]
[TD]1009
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن ابوداؤد
[/TD]
[TD]4
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر سے یہی حدیث اس فرق کے ساتھ مروی ہے کہ
[/TD]
[TD]ابوعوانہ،
[/TD]
[TD]مسدد،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD]حدیث مقطوع
[/TD]
[TD]1010
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن ابوداؤد
[/TD]
[TD]5
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]نے فرمایا کہ انہوں نے میرا ستر کھولا تو اسے پایا ان کی طرح جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے قیدیوں میں کردیا
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]وکیع،
[/TD]
[TD]ہناد،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]1650
[/TD]
[TD]اول:
[/TD]
[TD]جامع ترمذی:
[/TD]
[TD]6
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]کہتے کہ ہم یوم قریظہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگے تھے اسے قتل کر دیا گیا۔ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہذا مجھے چھوڑ دیا گیا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ احتلام اور عمر کا پتہ نہ چلے تو زیر ناف بالوں کا اگنا بالغ ہونے کی علامت ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]وکیع،
[/TD]
[TD]علی بن محمد،
[/TD]
[TD]ابوبکر بن ابی شیبہ،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]699
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن ابن ماجہ:
[/TD]
[TD]7
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب بنوقریظہ مارے گئے) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD] عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے
[/TD]
[TD] سفیان بن عیینہ،
[/TD]
[TD]محمد بن صباح،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]700
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن ابن ماجہ:
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]کو یہ فرماتے ہوئے سنا دیکھو اب میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں ۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 12 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔
روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0502-Hadith.htm)
موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0503-Hadith.htm)
مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0504-Hadith.htm)
ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔
ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟
ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟
ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔
ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔
ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 3 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں؟
ز- حدیث نمبر 7 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
س-حدیث نمبر 1 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟
ش-حدیث نمبر 1 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔
نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔
کچھ درایت کے اصول کے بارے میں:
قارئین کیلیئے کچھ درایت کے بارے میں اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضہ نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ عنقریب تمھارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایتیں آئینگی جو باہمدگر متناقض ہوں گی۔ تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو تو وہ مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں۔
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 430 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث
خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ "اور ان ان صورتوں میں خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی جب وہ عقل کے فیصلے کے منافی ہو۔ جب وہ قرآن کے محکم حکم کے خلاف ہو۔ جب وہ سنت معلومہ یا اس عمل کے خلاف ہو جو سنت ہی کی طرح معمول بہ ہے۔ اور جب وہ دلیل قطعی کے منافی ہو۔"
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 432 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث
کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم (از مولانا شبلی و مولانا سلیمان ندوی) میں لکھا ہے کہ "اس عبارت کا ماحاصل یہ ہیکہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اسکی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں-
۱۔جو روایت عقل کے خلاف ہو۔
۲۔جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔
۳۔محسوسات اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔
۴۔قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔
۵۔جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۶۔معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔
۷۔وہ روایت رکیک المعنی ہو مثلاً کدو کو بغیر ذبح کئے نہ کھاؤ۔
۸۔جو راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہیکہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔
۹۔جو روایت ایسی ہوکہ تمام لوگوں کو ا س سے واقف ہونے کی ضرورت ہو، با ایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے اس کی روایت نی کی ہو۔
۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔
دیکھیئے صفحہ 40 سے 41 مطبوعہ دار الاشاعت 1985۔
اس جائزے اور تحقیق میں اگر کوئی لغزش ہوگئی ہو تو ضرور مطلع کریں تاکہ اسکی اصلاح ہوسکے۔ اللہ سے دعا ہیکہ اس تحریر میں اگر شر ہو تو اس سے سب کو محفوظ رکھے اور مجھے معاف فرمائے اور اگر اس میں خیر ہو تو ساری امت مسلمہ کو اس سے مستفیذ فرمائے۔ آمین
____________
اصول تحقیق پر روشنی خود قرآن نے ڈالی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا.(سورۃ الحجرات 6(
ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو.
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَٰذَا سُبْحَانَکَ ہَٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیمٌ.( سورۃ النور 61 (
اور کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس بات کو سنا تھا تو کہتے کہ ہمیں ایسی بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے خدایا تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے
ہمارے اس دور میں دو گروہوں نے جنم لے لیا ہے اور دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ ایک نام نہاد مذہبی گروہ قرآن کی آیات اور احادیث کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر اپنے انتقام و غلط مقاصد کیلیئے استعمال کررہا ہے جبکہ دوسرا مذہب سے بیذار آزاد خیال گروہ اس نام نہاد مذہبی گروہ کی پیش کردہ غلط دلائل کو دیکھ کر نعوذ بااللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر انگلیاں اٹھانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔
ہم ان روایات کو ایک جدول (ٹیبل) کی شکل میں لکھ رہے ہیں تاکہ ایک نظر میں آسانی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔
[TABLE="class: grid, width: 718"]
[TR]
[TD="colspan: 7"]راوی
[/TD]
[TD]مکررات
[/TD]
[TD]قسم حدیث
[/TD]
[TD]حدیث نمبر
[/TD]
[TD]جلد
[/TD]
[TD]کتب حدیث
[/TD]
[TD]نمبر
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]بنو قریظ کے دو لڑکوں سے
[/TD]
[TD] حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ
[/TD]
[TD]عمارہ بن خزیمہ،
[/TD]
[TD] ابی جعفر،
[/TD]
[TD]حماد بن سلمہ،
[/TD]
[TD] اسد بن موسی،
[/TD]
[TD]ربیع بن سلیمان،
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]1368
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]1
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 7"]راوی
[/TD]
[TD]مکررات
[/TD]
[TD]قسم حدیث
[/TD]
[TD]حدیث نمبر
[/TD]
[TD]جلد
[/TD]
[TD]کتب حدیث
[/TD]
[TD]نمبر
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] عطیہ سے
[/TD]
[TD] عبدالملک بن عمیر،
[/TD]
[TD] شعبہ،
[/TD]
[TD]خالد،
[/TD]
[TD]اسماعیل بن مسعود،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث موقوف
[/TD]
[TD]1285
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]2
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
[/TD]
[TD]عبدالملک بن عمیر،
[/TD]
[TD] سفیان،
[/TD]
[TD]محمد بن منصور،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث موقوف
[/TD]
[TD]1369
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن نسائی:
[/TD]
[TD]3
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]محمد بن کثیر،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD]حدیث مقطوع
[/TD]
[TD]1009
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن ابوداؤد
[/TD]
[TD]4
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر سے یہی حدیث اس فرق کے ساتھ مروی ہے کہ
[/TD]
[TD]ابوعوانہ،
[/TD]
[TD]مسدد،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD]حدیث مقطوع
[/TD]
[TD]1010
[/TD]
[TD]سوم:
[/TD]
[TD]سنن ابوداؤد
[/TD]
[TD]5
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]نے فرمایا کہ انہوں نے میرا ستر کھولا تو اسے پایا ان کی طرح جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے قیدیوں میں کردیا
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]وکیع،
[/TD]
[TD]ہناد،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]1650
[/TD]
[TD]اول:
[/TD]
[TD]جامع ترمذی:
[/TD]
[TD]6
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]کہتے کہ ہم یوم قریظہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگے تھے اسے قتل کر دیا گیا۔ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہذا مجھے چھوڑ دیا گیا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ احتلام اور عمر کا پتہ نہ چلے تو زیر ناف بالوں کا اگنا بالغ ہونے کی علامت ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD]عبدالمالک بن عمیر،
[/TD]
[TD]سفیان،
[/TD]
[TD]وکیع،
[/TD]
[TD]علی بن محمد،
[/TD]
[TD]ابوبکر بن ابی شیبہ،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]699
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن ابن ماجہ:
[/TD]
[TD]7
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب بنوقریظہ مارے گئے) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD] حضرت عطیہ قرظی
[/TD]
[TD] عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے
[/TD]
[TD] سفیان بن عیینہ،
[/TD]
[TD]محمد بن صباح،
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[TD] حدیث مرفوع
[/TD]
[TD]700
[/TD]
[TD]دوم:
[/TD]
[TD]سنن ابن ماجہ:
[/TD]
[TD]8
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 11"]کو یہ فرماتے ہوئے سنا دیکھو اب میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں ۔
[/TD]
[TD="colspan: 2"]متن حدیث
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 12 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔
روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0502-Hadith.htm)
موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0503-Hadith.htm)
مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0504-Hadith.htm)
ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔
ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟
ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟
ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔
ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔
ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 3 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں؟
ز- حدیث نمبر 7 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
س-حدیث نمبر 1 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟
ش-حدیث نمبر 1 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔
نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔
کچھ درایت کے اصول کے بارے میں:
قارئین کیلیئے کچھ درایت کے بارے میں اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضہ نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ عنقریب تمھارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایتیں آئینگی جو باہمدگر متناقض ہوں گی۔ تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو تو وہ مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں۔
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 430 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث
خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ "اور ان ان صورتوں میں خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی جب وہ عقل کے فیصلے کے منافی ہو۔ جب وہ قرآن کے محکم حکم کے خلاف ہو۔ جب وہ سنت معلومہ یا اس عمل کے خلاف ہو جو سنت ہی کی طرح معمول بہ ہے۔ اور جب وہ دلیل قطعی کے منافی ہو۔"
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 432 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث
کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم (از مولانا شبلی و مولانا سلیمان ندوی) میں لکھا ہے کہ "اس عبارت کا ماحاصل یہ ہیکہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اسکی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں-
۱۔جو روایت عقل کے خلاف ہو۔
۲۔جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔
۳۔محسوسات اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔
۴۔قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔
۵۔جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۶۔معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔
۷۔وہ روایت رکیک المعنی ہو مثلاً کدو کو بغیر ذبح کئے نہ کھاؤ۔
۸۔جو راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہیکہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔
۹۔جو روایت ایسی ہوکہ تمام لوگوں کو ا س سے واقف ہونے کی ضرورت ہو، با ایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے اس کی روایت نی کی ہو۔
۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔
دیکھیئے صفحہ 40 سے 41 مطبوعہ دار الاشاعت 1985۔
اس جائزے اور تحقیق میں اگر کوئی لغزش ہوگئی ہو تو ضرور مطلع کریں تاکہ اسکی اصلاح ہوسکے۔ اللہ سے دعا ہیکہ اس تحریر میں اگر شر ہو تو اس سے سب کو محفوظ رکھے اور مجھے معاف فرمائے اور اگر اس میں خیر ہو تو ساری امت مسلمہ کو اس سے مستفیذ فرمائے۔ آمین
____________
Last edited by a moderator: