
اے آروائی پر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا صارفین تنقید کیوں کررہے ہیں؟ کیا اے آروائی نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی ہے؟
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد اے آروائی نیوز کے 2 صحافی ارشد شریف اور صابرشاکر کھل کر رجیم چینج آپریشن کے خلاف بولتے رہے جس پر ارشد شریف کے خلاف حکومت کی جانب سے قانونی کاروائی بھی سامنے آئی اور ضمانت کروانے کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رابطہ کرنا پڑا۔
صابرشاکر اور ارشد شریف حکومتی کاروائیوں سے تنگ آکر ملک چھوڑ کر چکے ہیں جبکہ اے آروائی بھی حکومت پابندیوں کی زد میں رہا ۔رانا ثناء اللہ نے اے آروائی کا این او سی منسوخ کردیا تھا جس کے بعد کیبل آپریٹرز کے ذریعے اے آروائی کا بلیک آؤٹ کیا گیا۔
حکومت کا الزام تھا کہ اے آروائی تحریک انصاف کی حمایت کرتا ہے اور فوج کا مخالف ہے جبکہ شہبازگل کا بیان آن ائیر ہونے کے بعد اے آروائی پر غداری کے فتوے بھی لگے اور چینل بند کردیا گیا۔سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود اے آروائی کی نشریات بحال نہ ہوئی جس پر انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا رخ کرنا پڑا
لیکن اس سے پہلے اے آروائی کو صابرشاکر کے بعد ارشد شریف اور خاورگھمن کی قربانی دینا پڑی۔ ارشد شریف کو اعلانیہ طور پر اے آروائی نے چینل سے نکال دیا جبکہ خاورگھمن غیراعلانیہ طور پر آف ائیر ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ اے آروائی کو بحال کی ارشدشریف کو نکالنے پر شرط پر کیا گیا اور سلمان اقبال کو ارشدشریف کو نکالنے کا ٹویٹ کرنا پڑا۔سوشل میڈیا صارفین کاکہنا تھا کہ جب کوئی چینل کسی صحافی کو نوکری سے نکالتا ہے تو اسکا اعلان نہیں کرتا۔
اے آروائی کی نشریات بحال ہوئی تو چینل نے محتاط رویہ اپنانا شروع کردیا، عمران خان کی تقاریر کے دوران فوج اور وزیراعظم شہبازشریف سے متعلق الفاظ کو میوٹ کرنا پڑا۔
گزشتہ روز اے آروائی نے ایک خبر دی جس پر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا صارفین میں ہنگامہ برپا ہوگیا، خبر یہ تھی کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان بیک ڈور رابطے ہیں، عمران خان کی اسلام آباد میں ایک اہم حکومتی شخصیت سے ملاقات ہوئی جس میں آئندہ انتخابات اور نگران سیٹ اپ پر بات چیت ہوئی۔
اس خبر پر تحریک انصاف کی طرف سے اتنا سخت ردعمل آیا، تحریک انصاف نے خبر کی تردید کی چینل کو یہ خبر ڈیلیٹ کرنا پڑی جس کے بعد تحریک انصاف کے سپورٹرز کی جانب سے ایک ٹرینڈ #ARY_RIP شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا صارفین اے آروائی پر تنقید کرتے رہے اور باقاعدہ اے آروائی چینلز کو ان سبسکرائب کرنے کا مطالبہ کرتے رہے
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اے آروائی نے بھی حکومتی پریشر کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں، اے آروائی عمران خان کو کوریج نہیں دیتااسلئے اے آروائی کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔
https://twitter.com/x/status/1566443356686876672 https://twitter.com/x/status/1566436528745742339 https://twitter.com/x/status/1566417600552239111
ان کا مزید کہنا ہے کہ کیا اے آروائی نے بھی جیو کو جوائن کرلیا ہے؟اے آروائی کو دن یاد نہیں جس مریم نواز نے اے آر وائی کا مائیک ہٹادیا تھا؟
https://twitter.com/x/status/1566415124147175424 https://twitter.com/x/status/1566399475849068545 https://twitter.com/x/status/1566395747234373635 https://twitter.com/x/status/1566387994386481152
دوسری جانب کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اے آروائی کی مجبوری بھی بتائی کہ انکے چینل کے 4000 ملازمین کا روزگار خطرے میں تھا، اگر چینل مزید بند رہتا انہیں نوکریوں سےفارغ کرنا پڑا۔
https://twitter.com/x/status/1566418699413757955 https://twitter.com/x/status/1566413108033323008 https://twitter.com/x/status/1566402385102135297
فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ شدید ترین مشکل حالات میں اے آروائی نے عوام کا اعتبار حاصل کیا اس کیلئے بہت مشکلات جھیلیں انھیں سنبھلنے کا موقع دیں ابھی تک سلمان اقبال نے جس بہادری سے صورتحال کا مقابلہ کیا مجھے نہیں لگتا وہ پیچھے ہٹیں گے اس گھٹی فضا میں اے آروائی اور بول کا دم غنیمت ہے
https://twitter.com/x/status/1566410514342858754
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/arsh111.jpg