Ch.Tasawar.inayat
Voter (50+ posts)
ایک پاکستانی اور وقت کی پابند جرمن قوم۔۔۔۔
پاکستان میں وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوا ہوتی ہے ۔ہاں مگر یہ الگ بات ہے کہ ایسے عظیم لوگ آپ کو لالٹین لے کر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ فقط یہ ہو سکتی ہے ہمارے پاس ایک ہی چیز کی فراوانی ہے اور وہ ہے وقت ۔
گزشتہ چھے سات برس سے جرمنی میں دھکے ٹھڈے کھا نے کی وجہ سے وقت کی پابندی میری فطرت ثانیہ بن چکی ہے ۔ اب جب کبھی پاکستان چکر لگتا ہے تو مجھے اپنے دماغ کی گھڑی کو پاکستان کے معیاری وقت پر ڈھالنے میں ایک دو ہفتے لگ جاتے ہیں ۔
کیونکہ ہمارے ہاں" پانچ منٹ میں آیا" کا مطلب آدھا گھنٹہ ،پچاس منٹ یا پھر پانچ گھنٹے بھی ہو سکتا ہے ۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم پانچ منٹ میں نہیں پہنچ پائیں گے تو ہم پہلے ہی پہنچنے کا درست وقت کیوں نہیں بتاتے؟
دعوت ولیمہ کے کارڈ میں درج" دو بجے" کا مطلب ہوتا ہے روٹی پانچ بجے کھلے گی ۔ آپ صرف ایک مرتبہ مقررہ وقت ہر روٹی کھول کر دیکھ لیں کھانے والا بندہ ہی موجود نہیں ہو گا ۔
عام عوام کا کیا شکوہ کریں ۔ٹی وی پر اعلان ہوتا ہے آٹھ بجے وزیراعظم قوم سے خطاب فرمائیں گے ۔ہم ساری قوم منہ چک کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ پورے آٹھ بجے اعلان ہوتا ہے کہ نہیں جی آٹھ بجے نہیں نو بجے خطاب نشر ہو گا ۔ آپ کو پورے پاکستان میں کوئی ایک دانشور اس بات پر تنقید کرتا نظر نہیں آئے گا کہ ملک کا وزیراعظم آگر وقت کی پابندی نہیں کر سکتا تو قوم کی کیا حالت ہوگی ۔
جرمنی آنے سے پہلے میں بھی ویسا ہی "وقت کا پابند "تھا جیسے ہم تمام دیسی ہوتے ہیں ـ تاہم جرمن معاشرے میں چھے سات برس گزارنے کے بعد میں بھی ایک" عظیم "انسان بن چکا ہوں ـ مزے کی بات یہ ہے کہ اس عظمت کو پانے میں میرا کوئی "قصور" بھی نہیں ہے بلکہ جرمن کلچر اور معاشرے نے مجھے زبردستی عظیم انسان بنایا ہے ـ
جرمنی میں وقت پر پہنچنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت سے دس پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا ـ نوکری وغیرہ پر تو شاید ساری دنیا ہی وقت کی پابندی کا خیال رکھتی ہے ـمگر یہاں نجی ملاقاتوں میں بھی مقررہ وقت سے پہلے آنا معمول کی بات ہے ـ یہاں وقت کی پابندی کرنے والے افراد کو بلکل بھی عظیم انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ وقت کی پابندی نا کرنے والے افراد کو" عظمت" کے رتبے پر فائز کر کے ان کے سامنے ہاتھ باندھتےہوئے گزارش کی جاتی ہے کہ براہِ مہربانی آپ اپنے ہی جیسے عظیم لوگوں میں اٹھا بیٹھا کریں ۔
آپ کی کسی جرمن باشندے سے ملاقات وقت طے ہو اور ایک منٹ دیر سے پہنچنے صورت میں اس کا موڈ آف ہو چکا ہوگا۔ آپ کے دس بار معذرت کرنے اور دیر سے پہنچنے کی وجوہات بتانے پر شاید اس کا موڈ تو بہتر ہو جائے۔مگر لا شعوری طور پر وہ اپنے دماغ میں آپ کے متعلق غیر ذمہ دار انسان ہونے کی رائے قائم کر چکا ہو گا ۔
فرض کریں آپ کے کام شروع کرنے کا وقت سات بجے ہے اور آپ پورے سات بجے پہنچ بھی گئے ہیں اس کے باوجود آپ کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ کیونکہ یہاں کے معیار کے مطابق آپ دیر سے پہنچے ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ یہاں سو فیصد لوگ ہر روز وقت پر ہی پہنچتے ہیں ۔کئی دفعہ جینوئن وجوہات کی وجہ سے انسان وقت پر نہیں پہنچ پاتا ۔ مگر اس صورت میں آپ مہذب انسانوں کی طرح انتظار کرنے والے کو مقررہ وقت سے پہلے کال یا میسج کر کے معذرت کرتے ہیں دیر ہونے کی وجہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں چار کی بجائے چار بج کر پندرہ منٹ پر پہنچو ں گا ۔
پہلی دفعہ کا ذکر ہے ۔مجھے جرمنی میں قیام پذیر ہوئے ابھی ایک ڈیڑھ برس ہی گزرا تھا ۔میں مکان کی تلاش میں تھا ـ انٹرنیٹ کے ذریعے مکان مالک رابطہ ہوا اور مکان دیکھنے کے لیے شام چار بجے کا وقت طے ہوا ـ رستہ بھٹکنے کی وجہ سے میں صرف تین منٹ دیر سے پہنچاـ
سنو! میرے غیور،باشعور اور عظیم پاکستانیوں سنو ،
صرف تین منٹ دیر سے پہنچنے پر وہ "اوتر دا پُتر" مالک مکان وہاں سے جا چکا تھا ـ وہ نا صرف وہاں سے جا چکا تھا بلکہ اس نے مجھ غریب الوطن" عظیم آدمی" کا دوبارہ فون اٹھانا بھی گوارا نہیں کیا ـ
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نوکری کی تلاش میں تھا ـ اپنے طور پر سی ـ وی بنانے کے بعد اس میں مزید بہتری کے لئے ایک ایکسپرٹ کو دکھانا مناسب سمجھا ـ جیسے کہ آپ کو علم ہی ہے کہ سی وی پر ہم سب اپنی خوبیاں لکھتے وقت مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں ـ میں نے بھی خود میں کائنات کی تمام خوبیاں ٹھونسنے کے ساتھ ساتھ وقت کا پابند ہونا بھی لکھ دیا ۔
خوبیوں کے خانے میں وقت کا پابند ہونا دیکھ کر سی وی ایکسپرٹ بی بی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوۓ کہا "میرا ویر جرمنی میں وقت کا پابند ہونا معمول کی بات ہے لہذا اسے سی وی پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ یہاں سبھی لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں ۔تب مجھے احساس ہوا کہ میں عظیم لوگوں کو چھوڑ کر عام لوگوں میں آ بسا ہوں ۔
آخر میں گذارش یہی ہے کہ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے
اندر سے میں بھی سچا پاکستانی ہو ں ۔ یہاں کا طرز زندگی ایسا ہے کہ وقت کی پابندی کیے بغیر چارہ کوئی نہیں ہے ۔
اگر مجھے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں دو چار ماہ زندگی گزارنے کا موقع مل گیا تو انشاللہ ایک مرتبہ پھر ہم مل جل اپنی" عظیم" پاکستانی روایات کے مطابق" دیر دیر" کھیلا کریں گے ۔
تحریر: علامہ تصور عنایت
FB:Allama Tasawar inayat
پاکستان میں وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوا ہوتی ہے ۔ہاں مگر یہ الگ بات ہے کہ ایسے عظیم لوگ آپ کو لالٹین لے کر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ فقط یہ ہو سکتی ہے ہمارے پاس ایک ہی چیز کی فراوانی ہے اور وہ ہے وقت ۔
گزشتہ چھے سات برس سے جرمنی میں دھکے ٹھڈے کھا نے کی وجہ سے وقت کی پابندی میری فطرت ثانیہ بن چکی ہے ۔ اب جب کبھی پاکستان چکر لگتا ہے تو مجھے اپنے دماغ کی گھڑی کو پاکستان کے معیاری وقت پر ڈھالنے میں ایک دو ہفتے لگ جاتے ہیں ۔
کیونکہ ہمارے ہاں" پانچ منٹ میں آیا" کا مطلب آدھا گھنٹہ ،پچاس منٹ یا پھر پانچ گھنٹے بھی ہو سکتا ہے ۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم پانچ منٹ میں نہیں پہنچ پائیں گے تو ہم پہلے ہی پہنچنے کا درست وقت کیوں نہیں بتاتے؟
دعوت ولیمہ کے کارڈ میں درج" دو بجے" کا مطلب ہوتا ہے روٹی پانچ بجے کھلے گی ۔ آپ صرف ایک مرتبہ مقررہ وقت ہر روٹی کھول کر دیکھ لیں کھانے والا بندہ ہی موجود نہیں ہو گا ۔
عام عوام کا کیا شکوہ کریں ۔ٹی وی پر اعلان ہوتا ہے آٹھ بجے وزیراعظم قوم سے خطاب فرمائیں گے ۔ہم ساری قوم منہ چک کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ پورے آٹھ بجے اعلان ہوتا ہے کہ نہیں جی آٹھ بجے نہیں نو بجے خطاب نشر ہو گا ۔ آپ کو پورے پاکستان میں کوئی ایک دانشور اس بات پر تنقید کرتا نظر نہیں آئے گا کہ ملک کا وزیراعظم آگر وقت کی پابندی نہیں کر سکتا تو قوم کی کیا حالت ہوگی ۔
جرمنی آنے سے پہلے میں بھی ویسا ہی "وقت کا پابند "تھا جیسے ہم تمام دیسی ہوتے ہیں ـ تاہم جرمن معاشرے میں چھے سات برس گزارنے کے بعد میں بھی ایک" عظیم "انسان بن چکا ہوں ـ مزے کی بات یہ ہے کہ اس عظمت کو پانے میں میرا کوئی "قصور" بھی نہیں ہے بلکہ جرمن کلچر اور معاشرے نے مجھے زبردستی عظیم انسان بنایا ہے ـ
جرمنی میں وقت پر پہنچنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقررہ وقت سے دس پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا ـ نوکری وغیرہ پر تو شاید ساری دنیا ہی وقت کی پابندی کا خیال رکھتی ہے ـمگر یہاں نجی ملاقاتوں میں بھی مقررہ وقت سے پہلے آنا معمول کی بات ہے ـ یہاں وقت کی پابندی کرنے والے افراد کو بلکل بھی عظیم انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ وقت کی پابندی نا کرنے والے افراد کو" عظمت" کے رتبے پر فائز کر کے ان کے سامنے ہاتھ باندھتےہوئے گزارش کی جاتی ہے کہ براہِ مہربانی آپ اپنے ہی جیسے عظیم لوگوں میں اٹھا بیٹھا کریں ۔
آپ کی کسی جرمن باشندے سے ملاقات وقت طے ہو اور ایک منٹ دیر سے پہنچنے صورت میں اس کا موڈ آف ہو چکا ہوگا۔ آپ کے دس بار معذرت کرنے اور دیر سے پہنچنے کی وجوہات بتانے پر شاید اس کا موڈ تو بہتر ہو جائے۔مگر لا شعوری طور پر وہ اپنے دماغ میں آپ کے متعلق غیر ذمہ دار انسان ہونے کی رائے قائم کر چکا ہو گا ۔
فرض کریں آپ کے کام شروع کرنے کا وقت سات بجے ہے اور آپ پورے سات بجے پہنچ بھی گئے ہیں اس کے باوجود آپ کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ کیونکہ یہاں کے معیار کے مطابق آپ دیر سے پہنچے ہیں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ یہاں سو فیصد لوگ ہر روز وقت پر ہی پہنچتے ہیں ۔کئی دفعہ جینوئن وجوہات کی وجہ سے انسان وقت پر نہیں پہنچ پاتا ۔ مگر اس صورت میں آپ مہذب انسانوں کی طرح انتظار کرنے والے کو مقررہ وقت سے پہلے کال یا میسج کر کے معذرت کرتے ہیں دیر ہونے کی وجہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں چار کی بجائے چار بج کر پندرہ منٹ پر پہنچو ں گا ۔
پہلی دفعہ کا ذکر ہے ۔مجھے جرمنی میں قیام پذیر ہوئے ابھی ایک ڈیڑھ برس ہی گزرا تھا ۔میں مکان کی تلاش میں تھا ـ انٹرنیٹ کے ذریعے مکان مالک رابطہ ہوا اور مکان دیکھنے کے لیے شام چار بجے کا وقت طے ہوا ـ رستہ بھٹکنے کی وجہ سے میں صرف تین منٹ دیر سے پہنچاـ
سنو! میرے غیور،باشعور اور عظیم پاکستانیوں سنو ،
صرف تین منٹ دیر سے پہنچنے پر وہ "اوتر دا پُتر" مالک مکان وہاں سے جا چکا تھا ـ وہ نا صرف وہاں سے جا چکا تھا بلکہ اس نے مجھ غریب الوطن" عظیم آدمی" کا دوبارہ فون اٹھانا بھی گوارا نہیں کیا ـ
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نوکری کی تلاش میں تھا ـ اپنے طور پر سی ـ وی بنانے کے بعد اس میں مزید بہتری کے لئے ایک ایکسپرٹ کو دکھانا مناسب سمجھا ـ جیسے کہ آپ کو علم ہی ہے کہ سی وی پر ہم سب اپنی خوبیاں لکھتے وقت مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں ـ میں نے بھی خود میں کائنات کی تمام خوبیاں ٹھونسنے کے ساتھ ساتھ وقت کا پابند ہونا بھی لکھ دیا ۔
خوبیوں کے خانے میں وقت کا پابند ہونا دیکھ کر سی وی ایکسپرٹ بی بی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوۓ کہا "میرا ویر جرمنی میں وقت کا پابند ہونا معمول کی بات ہے لہذا اسے سی وی پر لکھنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ یہاں سبھی لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں ۔تب مجھے احساس ہوا کہ میں عظیم لوگوں کو چھوڑ کر عام لوگوں میں آ بسا ہوں ۔
آخر میں گذارش یہی ہے کہ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے
اندر سے میں بھی سچا پاکستانی ہو ں ۔ یہاں کا طرز زندگی ایسا ہے کہ وقت کی پابندی کیے بغیر چارہ کوئی نہیں ہے ۔
اگر مجھے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں دو چار ماہ زندگی گزارنے کا موقع مل گیا تو انشاللہ ایک مرتبہ پھر ہم مل جل اپنی" عظیم" پاکستانی روایات کے مطابق" دیر دیر" کھیلا کریں گے ۔
تحریر: علامہ تصور عنایت
FB:Allama Tasawar inayat
Last edited by a moderator: