ایماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
images

ابو سعد خان


- پاکستان کا سات سو کلومیٹر تک مار کرنے والے حتف 7کروز میزائل کا تجربہ ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت والا یہ میزائل راڈار پر نظر نہ آنے والی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہے۔ ہم 5جون کو ایک اخبار کی ویب سائٹ پر تازہ ترینخبروں میں یہ خبر پڑھنے کے بعد وہاں دی گئی تصویر کو دیر تک دیکھتے رہے اور فلک کی سمت بڑھنے والے اس میزائل کو دیکھ کر ذہن میں عسکری برتری ترقی فخرخودداری آزادی کے مسحورکُن خیالات انگڑائیاں لینے لگے۔ چند لمحوں میں تصورات کی ایک دنیا آباد ہوگئی جس میں پاکستان کی عسکری اورتکنیکی ترقی کے ساتھ پیارے وطن کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوکر قائدانہ کردار ادا کرتے بھی دیکھا۔ ذہن میں ایک پوری فلم چلی لیکن جب تصورات کی دنیا سے باہر نکلے تو اُسی تصویر میں لانچر کی جگہ پر اُٹھتے دھوئیں میں ڈھوبتے جذبوں مرتے جوش بزدلی اور غلامی کی مظہر پاکستانی قوم اور سیاسی اور عسکری قیادت کے گرد آلود چہرے نظر آنے لگے جیسے کسی نے اُن کو دھول چٹادی ہو اور انہوں نے شکست خوردہ چہروں کے ساتھ طاقت ور کی غلامی کو قبول کرلیا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تصورات میں قائم ترقی خوشحالی خودداری اور خوداعتمادی کی عمارت دھڑام سے نیچے آگری۔اس کے ساتھ ہی ذہن میں سوالات کا ایک سیل اُمڈ آیاجس نے خبر سے حاصل ہونے والی خوشی کو نااُمیدی کے سمندرمیں غوطہ لگانے پرمجبورکردیا۔ ذہن میں اُٹھنے والے اس سوال نے تو بہت پریشان کیا کہ اس تمام تر عسکری ترقی کے باوجود ہم بے بسی اور غلامی کی تاریخی تصویر کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اور اگر عسکری ترقی کا مطلب ملک کا دفاع اور عوام کی حفاظت کی قوت حاصل کرنا ہے تو ہم نے طاغوت کا کلمہ کیوں پڑھ رکھا ہے؟ اگر عسکری قوت اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حصول کا مقصد ملکی دفاع ہے تو پھر ملکی دفاع سے دستبرداری کے بعد مزید قوت حاصل کرنے پر وہ پیسہ لگانے کا کیا جواز ہے جو غریب عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوسکتا ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک شیر کی قیادت گیدڑوں کے جتھے کو شیروں کی فوج بنادیتی ہے اور اگر شیروں کی قیادت گیدڑ سے کرائی جائے تو پورا جتھاگیدڑ بن جاتا ہے۔ اس قوم نے جن شیروں کی قیادت میں آزادی حاصل کی تھی بدقسمتی سے وہ ایک عشرے تک بھی ہم میں نہ رہے اور پھر حکمرانی کے اس منصب پر گیدڑوں کو بٹھادیاگیا۔ یہاں تاریخ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں۔ شاید پرویز مشرف کا تذکرہ بھی غیر ضروری ہو جسں نے فوج کا سالار ہونے کے باوجود ایک ایٹمی ملک کو امریکا کی لونڈی بنادیا تھا۔ اور اب اس کے جانشین ملک کو بھارت کی لونڈی بنارہے ہیں۔پرویز مشرف کے بعد حکومت میں شامل قیادت نے اس بزدل کے حقیقی وارث بن کر قوم کو مسلسل ڈرایا کہ کوئی کچھ بھی کرے جو طاقت ور ہے وہ دُرست ہے اور ہمیں اسی کو درست تسلیم کرنا چاہیے۔ جس دن میزائل کا تجربہ کیاجارہا تھا اسی دن موجودہ حکومت کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو میں فرمارہے تھے کہ امریکا کی مرضی پر سپلائی نہیں کھولیں گے تو وہ ناراض ہوگا شہباز شریف قوم پرستی کا نعرہ لگا کر محاذ آرائی چاہتے ہیں۔ محبوب کی ناراضی کی اتنی فکر مگر وہ تو اپنے ان عاشقوں کو دیدار تک کرانے پر راضی نہیں۔ ویسے کائرہ صاحب کی بات غلط بھی نہیں۔ کیوں کہ محاذ آرائی کرنے والے ایسے نہیں ہوتے۔ اگرہم ہوتے تو ضرور یہ یاد دلاتے کہ حضرت جس دن ایٹمی ملک کا حکمران اور سپہ سالار ایک فون کال پر سب کچھ امریکا کے حوالے کررہا تھا پڑوس میں ایک بے آسرا اور ٹیکنالوجی کے ہجّے تک سے ناواقف ایک حکمران نے اسی سپر طاقت کے ساتھ محاذ آرائی مول لے لی تھی۔ اور پھر ثابت کردیاتھا کہ جدیدٹیکنالوجی اگر نہ بھی ہوں تو ایک ٹیکنالوجی ایسی ہے جس سے بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی کو شکست دی جاسکتی ہے اور وہ ٹیکنالوجی ہے ایمان ۔ یہ غیرت دین ہی تھی جس نے امریکا کی آگ اُگلنے والی توپوں کو ٹکڑے ٹکرے کردیا اور جس نے اس کو دھول چٹا دی جس کو اپنی عسکری برتری پر ناز تھا۔ اس کے برعکس جہاں ایمان کی ٹیکنالوجی موجود نہ تھی وہاں اٹیم بم پاس ہونے کے باوجود بھی طوقِِ غلامی گردن میں ڈال کر فرعون وقت کا کلمہ پڑھ لیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سوئیڈن کے ریسرچ ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ یعنی سپری نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ ہتھیار جتنے بھی ہوں جب تک جذبہ ایمانی نہ ہوتو کچھ بھی نہیں۔

http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-06-08
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)

شور ہے ہوگئے دنیا میں مسلمان نابود
؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
! یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیء فوق الادراک

خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی ازخویش شدن صورتِ منیاش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے کیے نشتر تھا
اس کے آئینہء ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
! پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
! پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خودکُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوّت سے گریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کہ حکایت ان کی
! نقش ہے صفحہء ہستی پہ صداقت ان کی

مثلِ انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب سے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کشِ تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا؟ بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری سے، حجابِ رخِ لَیلا نہ رہے

گِلہء جور نہ ہو، شکوہء بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہدِ نَو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا، نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختمِ رُسل شعلہ پہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی

 

Back
Top