
پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے بنائی گئی اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو قائم ہوئے دو سال ہو چکے ہیں، لیکن اب تک اس کے ذریعے ملک میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کے واضح شواہد سامنے نہیں آئے۔
بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ چار دوست ممالک نے ایس آئی ایف سی کے تحت 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جس میں سعودی عرب کے پانچ ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات اور کویت کے دس، دس ارب ڈالر، اور آذربائیجان کے دو ارب ڈالر شامل ہیں۔ ان کے مطابق، سی پیک کی طرح ایس آئی ایف سی بھی پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہوگی۔ تاہم، جب ان سے حالیہ دنوں میں سرمایہ کاری کی تفصیلات پوچھی گئیں تو وہ کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔
دوسری جانب، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے دسمبر 2024 کے دوران پاکستان میں ہونے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اضافے میں ایس آئی ایف سی کا کردار اہم رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے کوئی تفصیلی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کے اصل حجم اور ذرائع پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1898376725106401398
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اگر اپنے موقف کو درست بھی مان لے، تب بھی یہ واضح نہیں کہ وعدہ کی گئی سرمایہ کاری کس شعبے میں خرچ کی جائے گی اور آیا یہ سرمایہ کاری حقیقت میں آئے گی یا محض اعلانات تک محدود رہے گی۔ ان کے مطابق، معیشت کو سرکاری ہدایات کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے بہتر پالیسی سازی اور کاروباری ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
پالیسی انسٹیٹیوٹ ایس ڈی پی آئی کے ماہر معیشت ڈاکٹر ساجد امین جاوید بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بڑے منصوبے کے اثرات دیکھنے میں وقت لگتا ہے، اور ایس آئی ایف سی کو مکمل طور پر جانچنے کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔ تاہم، سرمایہ کاری میں اضافے کے جو دعوے کیے جا رہے ہیں، ان کے حقیقی اثرات کو ثابت کرنے کے لیے مزید شفافیت درکار ہے۔
ایس آئی ایف سی کے حوالے سے سب سے بڑا اعتراض اس میں فوج کے کردار پر کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سویلین معاملات میں فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے فیصلہ سازی کے روایتی اداروں کی جگہ محدود ہو رہی ہے۔
صحافی و تجزیہ کار بینظیر شاہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ہے، جہاں کابینہ فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہونا چاہیے۔ لیکن جب ایس آئی ایف سی جیسے ادارے بنائے جاتے ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ پالیسی سازی میں اصل فیصلہ سازی کون کرے گا؟ ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کی آئینی حیثیت واضح نہیں، جہاں غیر منتخب افراد حکومتی معاملات پر فیصلے کر رہے ہیں، اور اس میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا بجٹ کیا ہے، کتنے افسران کام کر رہے ہیں، اور ان کے اختیارات کیا ہیں۔"
ایس آئی ایف سی کیوں بنائی گئی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟
پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی ایک اہم ملاقات میں قرضوں کے رول اوور پر بات چیت کا آغاز ہوا، لیکن پھر متحدہ عرب امارات کے حکام نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی شکایات کا ذکر چھیڑ دیا۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے گا جو تمام رکاوٹوں کو "ون ونڈو" کے ذریعے دور کرے گا۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا تھا۔
ایس آئی ایف سی کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں حکومت اور فوج دونوں کی شمولیت ہو۔ اس کی قیادت وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں، جبکہ فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے اعلیٰ حکام بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔ ہر شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے الگ الگ کمپنیاں رجسٹر کی گئی ہیں، جن کی قیادت ریٹائرڈ فوجی افسران کر رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ چین اور متحدہ عرب امارات جیسی اہم سرمایہ کار قوتوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد فراہم کیا جا سکے۔ تاہم، کیا یہ منصوبہ واقعی غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب ہو پایا ہے؟
ایس آئی ایف سی نے پانچ بڑے شعبوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے: زراعت و لائیو اسٹاک، معدنیات و توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام، صنعت و نجکاری، اور سیاحت۔ ان تمام شعبوں کے لیے الگ الگ کمپنیاں قائم کی گئیں، جن کی سربراہی زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق پالیسی سازی زیادہ تر سویلین حکومتوں کے تحت رہی، لیکن ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد فوج کا کردار بڑھ گیا ہے، جس پر مختلف حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔"
زراعت میں سرمایہ کاری: پانی کے تنازعے نے نیا بحران کھڑا کر دیا
ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت کے شعبے میں "پاکستان گرین انیشی ایٹیو" متعارف کرایا گیا، جس کے تحت ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ غیر آباد زمین کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ زمین 20 سے 30 سال کی لیز پر دی جائے گی، اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر آبپاشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جن میں چولستان، گریٹر تھل کینال، جلال پور کینال اور گریٹر چولستان کینال شامل ہیں۔ تاہم، سندھ کے کاشتکار اس منصوبے سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ سندھ میں کئی کسان تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے ان نئے نہری منصوبوں کے خلاف احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پنجاب میں زمین آباد کرنے کے لیے سندھ کے پانی کو استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ سندھ پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما محمود نواز کے مطابق، "یہ تو کاغذوں میں بہت اچھا لگتا ہے کہ زمین کو آباد کیا جا رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟" سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے واضح کیا ہے کہ ان کی حکومت "سندھ کے حصے کا ایک گھونٹ پانی بھی نہیں دے گی۔" وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ "کسی صوبے کے وسائل کو دوسرے صوبے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا"، لیکن سندھ حکومت کا اصرار ہے کہ اس مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں حل کیا جائے۔
زراعت اور زمین کی الاٹمنٹ پر سوالات
ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی قائم کی گئی، جسے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین دی گئی ہے تاکہ وہ اسے مزید لیز پر دے سکے۔ ناقدین کے مطابق، حکومت کا کسی نجی کمپنی کو زمین دینا اور پھر منافع میں شراکت داری کرنا ایک غیر معمولی قدم ہے، جس پر شفافیت کے حوالے سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
سیاحت کے فروغ کی کوششیں اور مقامی آبادی کی ناراضی
ایس آئی ایف سی نے سیاحت کے فروغ کے لیے "گرین ٹورازم" کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں سیاحتی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ گرین ٹورازم کے تحت گلگت بلتستان میں 37 ہوٹلز اور سیاحتی مراکز کو گرین ٹورازم کمپنی کے حوالے کیا گیا، جبکہ کالام، ہنزہ، نلتر، کٹاس راج، واہگہ، ننکانہ صاحب، گورکھ ہل سمیت 18 مقامات پر سیاحت کے فروغ کے منصوبے شروع کیے گئے۔ تاہم، گلگت بلتستان کے عوامی حلقے اس منصوبے سے ناخوش ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے صدر ایڈووکیٹ احسان علی نے بی بی سی کو بتایا: "یہ گرین نہیں، بلیک دھندا ہے! مقامی افراد کی زمینیں اور وسائل طاقتور اداروں کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔" نجف علی، جو سکردو میں ایک سیاحتی کارکن ہیں، کہتے ہیں: "گلگت بلتستان کے لوگوں نے پورے پاکستان کو سیاحت سکھائی، اور اب جب یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے تو اس پر بھی قبضہ کیا جا رہا ہے۔" خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ صوبے کے مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے دور میں کیے گئے تمام معاہدے ختم کیے جائیں اور "فوج اپنے کام پر توجہ دے، کاروبار حکومت کے حوالے کرے!"
فوجی قیادت کا مؤقف
فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر سے جب ایس آئی ایف سی کے کردار پر تبصرہ مانگا گیا تو کوئی جواب نہیں ملا، تاہم آرمی چیف پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے حکومتی منصوبوں کی حمایت کرنا فوج کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال بھی یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ فوج ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کر رہی ہے، اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ سوال صرف فوج کی شمولیت کا نہیں، بلکہ فیصلہ سازی کے نظام اور شفافیت کا ہے۔ ون ونڈو آپریشن جیسے اقدامات سویلین ادارے بھی کر سکتے ہیں، تو پھر ایس آئی ایف سی میں فوج کی براہ راست شمولیت کیوں ضروری سمجھی جا رہی ہے؟
کیا ایس آئی ایف سی کامیاب رہی؟
ایس آئی ایف سی کے قیام کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، لیکن اس کے اثرات پر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ فوجی افسران کا مؤقف ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنایا گیا ہے، اور سیاحت و زراعت میں اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت مقامی افراد کے مفادات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے دعوے ابھی تک صرف وعدے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیق کے مطابق، ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد سے کسی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آیا ایس آئی ایف سی واقعی پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، یا یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو مقامی آبادی کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا!
Last edited: