battery low
Chief Minister (5k+ posts)
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک کا کمیشن بنایا جائے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران خواجہ آصف نے مذاکرات کا امکان مسترد نہیں کیا۔
اس سوال کے جواب میں کیا پاکستان اب بھی انڈیا کی جانب سے حملے کی توقع رکھتا ہے؟
وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے دوران ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ’اگر انڈیا ہمیں یا کسی دوسرے ملک پر الزام تراشی کے لیے ایسے دہشت گردی کے واقعات برپا کر سکتا ہے تو بعید نہیں کہ وہ کسی اور قسم کا ایڈوینچر بھی کر سکتے ہیں۔‘
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کے رابطے کے متعلق وزیرِدفاع نے کہا کہ ’ان کے رابطہ کرنے کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور انہوں نے متوازن بات کی ہے۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ گفت و شنید سے حل ہونا چاہیے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے کی مذمت کی ہے اور انٹرنیشنل تحقیقات کی آفر کی ہے جس میں دونوں ملک تعاون کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ، برطانیہ، چین، ایران، روس، ترکی، متحدہ عرب امارات، ایران، یہ تمام ممالک جو اس کشیدگی کے دوران ہم دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں، یہ مل کر اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کریں ہم تعاون کریں گے۔
وزیردفاع نے کہا کہ ’جس کے ہاتھ صاف ہوں وہی ایسی آفر کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم آفر دے رہے ہیں کہ یہ ممالک تین چار کی صورت میں یا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ممبران پر مشتمل کمیشن بنا دیا جائے جو پہلگام واقعے کی تحقیقات کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان تو تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے مگر ’انڈیا تحقیقات کی پیشکش اس لیے قبول نہیں کر رہا کہ کہیں اس کے پیچھے کچھ اور نہ نکل آئے۔‘
خواجہ آصف نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلگام واقعے پر انڈیا کے اندر ہی کریک پڑ گئے ہیں اور مخالف آوازیں اٹھ رہیں ہیں کہ کیسے واقعہ ہونے کے 10 منٹ کے اندر اندر ایف آئی آر درج ہو گئی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو دشمن ملک ہیں مگر انڈیا کے دعوؤں پر انڈیا کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔‘
میزبان کے اس سوال کہ ’کیا ثبوت سامنے نہ رکھنے سے انڈیا کے پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز کمزور نہیں پڑ رہا چونکہ امریکہ کی طرف سے بھی انڈیا کو حمایت نہیں مل رہی؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’وہاں بہت زیادہ ڈیسپریشن پائی جاتی ہے، ایسے واقعات کے پیچھے سیاست اور اقتدار کی بھوک ہوتی ہے۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی بطور مشیرِ قومی سلامتی تقرری کا انڈیا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم مذاکرات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اس سوال کہ کیا آئی ایس آئی چیف کو قومی سلامتی کے مشیر چارج اس لیے دیا گیا ہے کہ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی توقع ہے؟ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ چاہے جتنی بھی کشیدگی ہو بلاخر مذاکرات کا راستہ ہی اپنایا جاتا ہے تاہم آئی ایس آئی کے سربراہ کو مشیر برائے قومی سلامتی کا اضافی چارج دینے کا انڈیا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا ملک جب مشکل صورتحال سے گزر رہا ہو تو کسی سویلین یا سیاستدان کے مقابلے میں ایسے شخص کو قومی سلامتی کا چارج دینا بہتر ہوتا ہے جسے مشکل حالات سے بہتر انداز میں نمٹنے کا پہلے سے ’ہینڈز آن‘ تجربہ ہو۔
Source
https://twitter.com/x/status/1918363975034474817
Last edited by a moderator: