ایئربلو فلائٹ کے دوران ایک جوڑے کے کسنگ کرنے پر الباکستانی بریگیڈ بہت غیض و غضب میں ہے اور جو لوگ اس "سانحے" کو بے ضرر قرار دے رہے ہیں، ان کو کچھ اس طرح کے جوابات دیئے جارہے ہیں کہ آج کسنگ شروع ہوگئی ہے تو کل سرعام سیکس بھی شروع ہوجائے گا، اس لئے اس "بے حیائی" کو روکنا ہوگا۔ ہمارے ہاں لوگوں کو چونکہ ایک ہی سوچ کے ٹیکے لگا لگا کر پروان چڑھایا جاتا ہے، اس لئے وہ ساری عمر گائے کی طرح ایک ہی قسم کی جگالی کرتے کرتے گزار دیتے ہیں۔ یہ سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ سیکس کو پبلک میں کرنا کوئی پسند کیوں نہیں کرتا، اس کی وجہ سیدھی سی ہے کہ سیکس ایک حیوانی جذبہ ہے اور سیکس میں انسان حیوانی حرکات کرتا ہے اور کوئی بھی ذی شعور شخص ایسی حرکات پبلک میں نہیں کرنا چاہتا ۔۔ جبکہ کس کرنا، بغل گیر ہونا وغیرہ خالص انسانی حرکات ہیں، اور محبت کے اظہار کا لطیف طریقہ ہے۔
اگر کوئی لڑکا لڑکی آپس میں بغل گیر ہوتے ہیں یا ایک دوسرے کو کس کرتے ہیں تو وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا رہے، کسی دوسرے کو ہارم نہیں کررہے۔ جان سٹورٹ مل نے ایک بہت ہی زبردست اصول دیا ہے جس کو ہارم پرنسپل کہا جاتا ہے۔ جو اس سوال سے بحث کرتا ہے کہ آخر ایک معاشرے میں فرد کی آزادی کی حد کیا ہے اور ریاست کو کب کسی فرد کی آزادی میں دخیل ہونا چاہئے۔ ہارم پرنسپل کے مطابق ریاست کو کسی شہری کی آزادی میں صرف تب ہی دخیل کرنا چاہئے جب وہ دوسروں کو نقصان پہنچا رہا ہو۔ آج کے مغربی معاشرے اسی اصول پر قائم ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ ذرا الٹا ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچارہے ہوں اور کھلم کھلا پہنچا رہے ہوں ان کی طرف سے تو پورا معاشرہ آنکھ موند لیتا ہے، ہاں مگر جو لوگ کسی کو بھی نقصان نہ پہنچا رہے ہوں، محض ان کے افعال ان کی ذات کی حد تک محدود ہوں ان کے سر پورا معاشرہ چڑھ دوڑتا ہے۔ مثلاً سب کو پتا ہوتا ہے کہ فلاں گوالا دودھ میں ملاوٹ کرتاہے، لوگوں کو زہر بیچتا ہے، فلاں گوشت والا مردہ گوشت بیچتا ہے، فلاں کریانے والا مرچوں اور گھی میں ملاوٹ کرکے لوگوں کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے، مگر اس پر معاشرہ چپ رہے گا، کبھی کوئی سڑکوں پر نہیں نکلے گا، کبھی سوشل میڈیا ٹرینڈز نہیں چلیں گے، کبھی کوئی سراپا احتجاج نہیں ہوگا۔ ان کا احتجاج ہوگا تو اس بات پر کہ فلاں ٹی وی چینل پر فلاں سین بڑا فحش آگیا، فلاں جوڑے نے ایک دوسرے کے ہاتھ کیوں پکڑ لئے، او ہو، یہ تو بڑا جرم ہوگیا۔۔
ہمارے معاشرے کو ہارم پرنسپل کو اپنانے کی ضرورت ہے، اگر کوئی اپنی سپیس میں کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا رہا، تو کسی دوسرے تیسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان پر اعتراض کرے۔۔
اگر کوئی لڑکا لڑکی آپس میں بغل گیر ہوتے ہیں یا ایک دوسرے کو کس کرتے ہیں تو وہ کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا رہے، کسی دوسرے کو ہارم نہیں کررہے۔ جان سٹورٹ مل نے ایک بہت ہی زبردست اصول دیا ہے جس کو ہارم پرنسپل کہا جاتا ہے۔ جو اس سوال سے بحث کرتا ہے کہ آخر ایک معاشرے میں فرد کی آزادی کی حد کیا ہے اور ریاست کو کب کسی فرد کی آزادی میں دخیل ہونا چاہئے۔ ہارم پرنسپل کے مطابق ریاست کو کسی شہری کی آزادی میں صرف تب ہی دخیل کرنا چاہئے جب وہ دوسروں کو نقصان پہنچا رہا ہو۔ آج کے مغربی معاشرے اسی اصول پر قائم ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ ذرا الٹا ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچارہے ہوں اور کھلم کھلا پہنچا رہے ہوں ان کی طرف سے تو پورا معاشرہ آنکھ موند لیتا ہے، ہاں مگر جو لوگ کسی کو بھی نقصان نہ پہنچا رہے ہوں، محض ان کے افعال ان کی ذات کی حد تک محدود ہوں ان کے سر پورا معاشرہ چڑھ دوڑتا ہے۔ مثلاً سب کو پتا ہوتا ہے کہ فلاں گوالا دودھ میں ملاوٹ کرتاہے، لوگوں کو زہر بیچتا ہے، فلاں گوشت والا مردہ گوشت بیچتا ہے، فلاں کریانے والا مرچوں اور گھی میں ملاوٹ کرکے لوگوں کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے، مگر اس پر معاشرہ چپ رہے گا، کبھی کوئی سڑکوں پر نہیں نکلے گا، کبھی سوشل میڈیا ٹرینڈز نہیں چلیں گے، کبھی کوئی سراپا احتجاج نہیں ہوگا۔ ان کا احتجاج ہوگا تو اس بات پر کہ فلاں ٹی وی چینل پر فلاں سین بڑا فحش آگیا، فلاں جوڑے نے ایک دوسرے کے ہاتھ کیوں پکڑ لئے، او ہو، یہ تو بڑا جرم ہوگیا۔۔
ہمارے معاشرے کو ہارم پرنسپل کو اپنانے کی ضرورت ہے، اگر کوئی اپنی سپیس میں کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچا رہا، تو کسی دوسرے تیسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان پر اعتراض کرے۔۔
