
سپریم کورٹ میں نیب ایک کیس کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب کچھ عدلیہ نے کرنا ہے تو مداخلت نہیں ہوگی؟ اگر وزیراعظم ملک نہیں چلاسکتے تو کیا یہ کام عدلیہ کرے گی؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں خصوصی بینچ نے سماعت کی ، دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نیب کی سستی کی وجہ سے سپریم کورٹ نے کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کروائیں، فیک اکاؤنٹس کے معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دے کر تحقیقات کروائیں۔
انہوں نےمزید کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور قانون سازی کا حکم دینا پڑا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر سب کچھ عدلیہ نے کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹو کے اختیارات پر تجاوز نہیں ہوگا؟ کیا اگر ایگزیکٹو ناکام ہوجائےتوعدلیہ سپر رول ادا کرسکتی ہے؟ وزیراعظم کو ملک چلانا نا آئے تو کیا عدلیہ ملک چلائے گی؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ میں اختیارات کی تقسیم کی لکیر عبور کرسکتی ہے؟ کیا کوئی کہے کہ حکومت مشکوک یا وزیراعظم متنازعہ ہیں تو عدلیہ حکومت چلائے؟ اس چیز کو کہیں تو روکنا ہوگا۔
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ ایگزیکٹو کے اختیارات پر تجاوز نہیں کرسکتی، ہاں ایگزیکٹو کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا ضرور کہہ سکتی ہے، ہمیں تو سو موٹو کا اختیار بھی بڑی احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے، اگر بنیادی حقوق سے تصادم ہونے پر نیب ترامیم کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہوسکتا ہے؟
بعدازاں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔