اگر ایبولا پاکستان آگیا

Uncle Q

Minister (2k+ posts)
ایبولا پر ردعمل
54a12bd8322c1.jpg





یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان ایبولا سے نمٹنے کی حکمت عملیوں پر قومی سطح پر عملدرآمد کروائے

امراض پر قابو پانے کی ترجیحات کی اصطلاح میں وبائی امراض تمام ترقی پذیر ممالک کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوتے ہیں۔ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان میں عام صحت کے
چیلنجز میں ملیریا، تپ دق، خسرہ، ہیضہ اور پولیو وغیرہ پر قابو پانا شامل ہیں۔



ہمارے ملک میں وبائی امراض کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ملک میں ایبولا وائرس کے داخلے کو روکے، کیونکہ وہ آگے بڑھ کر مکمل وبا کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔


بدقسمتی سے اس معاملے میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہمارے پاس اب تک ایبولا پر فوکل پرسن سامنے نہیں آسکا ہے، نہ ہی کوئی ایسی ٹیم موجود ہے جو اس جان لیوا مرض کی روک تھام کی سرگرمیاں، مثلاً معیاری ضابطہ کار کے مطابق ذاتی حفاظتی آلات کی فراہمی، عملی تربیت اور قرنطینہ و ایبولا ٹریٹمنٹ یونٹس وغیرہ، کرتی دکھائی دے۔


ہمارے نظامِ صحت میں وبائی امراض پر قابو پانے میں ناکافی اقدامات، عوامی سطح پر فراہمی اور نکاسی آب کا ناقص معیار، کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری ردِ عمل کی سہولیات مثلاً ایمبولینسوں، تربیت یافتہ طبی عملے اور قانون نافذ کرنے والے شراکت داروں کے درمیان تعاون کے مسائل وغیرہ موجود ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے ایبولا سے نمٹنے کی تیاریاں اور منصوبہ بندی پاکستان میں عوامی صحت کے حوالے سے اولین مسئلہ بن چکی ہے۔


یہ وبا رواں برس مارچ میں گنی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اسی ماہ لائبیریا میں بھی ایبولا کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ اپریل 2014 میں ان دونوں ممالک میں اس وائرس کے کیسز مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوئے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اس کے پھیلنے کی وجہ کوئی ایک نہیں۔ جینیاتی جانچ سے ثابت ہوا کہ اس کا گبون اور عوامی جمہوریہ کانگو میں قبل ازیں سامنے آنے والی وبا سے مضبوط تعلق ہے۔


26 اور 29 مئی کو سیرالیون میں ایبولا کے پہلے اور دوسرے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ جولائی 2014 میں لائبیریا سے تعلق رکھنے والا ایک مسافر اس وائرس کو نائیجیرین دارالحکومت لاگوس لے گیا۔ یہ مسافر تو پانچ دن بعد مرگیا مگر اس وقت تک نائیجیریا میں متعدد افراد وائرس کا شکار ہوچکے تھے۔


مجموعی طور پر نائجیریا میں ایبولا کے 19 کیسز کی تصدیق ہوئی جس میں سے بارہ افراد صحت یاب جبکہ سات ہلاک ہوگئے۔ آٹھ اگست کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ایبولا کی حالیہ وبا کو بین الاقوامی سطح کی عوامی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے اس پر مربوط عالمی ردعمل کی ضرورت پر زور دیا۔


اگست میں ہی سینیگال کے شہر ڈاکار میں گنی سے تعلق رکھنے والے فرد میں ایبولا کی تصدیق ہوئی۔ یہ مریض کچھ دنوں بعد ہلاک ہوگیا اور اب تک سینیگال میں مزید کوئی اور کیس سامنے نہیں آیا ہے۔


23 اکتوبر کو مالی میں ایبولا کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آیا اور اس کے بعد 80 سے زیادہ واقعات کی تصدیق ہوچکی ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اکتوبر میں لائبیریا کے ایک رہائشی نے امریکا کا سفر کیا جس کے اندر ایبولا کی تصدیق ہوئی اور وہ اس مرض کے نتیجے میں ہلاک ہوگیا۔ اس مریض کی نگہداشت کرنے والی دو نرسیں بھی اس وائرس کا شکار ہوگئیں تاہم خوش قسمتی سے وہ صحت یاب ہوگئیں۔ عالمی ادارہ صحت نے اکیس روز تک کوئی کیس سامنے نہ آنے پر نائیجریا اور سینیگال کو ایبولا سے پاک قرار دے دیا ہے۔


ایبولا کے شکار افراد میں اموات کی شرح پچاس سے ستر فیصد تک ہونے کے باعث انسانیت کو درپیش ہنگامی صورتحال میں بڑھ چڑھ کر کام کرنے والے بین الاقوامی فلاحی ادارے متاثرہ ممالک کی معاونت کرنے سے قاصر رہے۔ اس کے علاوہ ڈبلیو ایچ او اور صحت کے شعبے کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے دیگر ادارے، جو ویسے ہی محدود آپریشنل صلاحیتیں رکھتے ہیں، کاغذات پر تکنیکی معاونت کی فراہمی سے زیادہ کچھ نہیں کرسکیں گے۔


درحقیقت عالمی ادارہ صحت، جس کا کام عالمی سطح پر طبی خطرات کی نگرانی اور اس پر فوری ردِ عمل دینا ہے، شدید تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی پہلی وجہ ابتدائی مراحل میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا کو نظر انداز کرنا اور دوسری وجہ ادارے کے شائع مضامین میں وبائی کیسز اور اس وبا کے باعث ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے اثرات کو زیادہ اہمیت نہ دینا تھی، جو کہ درست ثابت نہ ہوسکے۔ تیسری وجہ ایبولا پر بروقت قابو پانے کے لیے عالمی برادری کے تعاون سے اقدامات اور منصوبہ بندی میں ناکامی ہے۔


اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کی وزارتِ صحت اور تمام صوبوں کے محکمہ صحت اس موقع پر سامنے آکر ایبولا کی روک تھام اور ردعمل کے لیے قومی حکمت عملیوں کو مرتب کریں اور ان پر عملدرآمد کروائیں۔


جنگوں اور قومی سلامتی کے حوالے سے بائیولاجیکل عوامل کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایبولا کی روک تھام اور ردِ عمل کے قومی پلان میں بائیو ڈیفنس کے پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ امریکی حکومت کی جانب سے اس کے امراض کی روک تھام اور کنٹرول کے مراکز میں ایبولا ٹریٹمنٹ یونٹس میں معیاری ضابطہ کار کے تحت عالمی سطح کی تربیت فراہم کی جارہی ہے۔


ردعمل کا فریم ورک ویسے تو ماہرین طب کی مغربی افریقہ میں تعیناتی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن اسے وسائل سے محروم تمام طبی نظاموں میں وبائی امراض کو کنٹرول کرنے اور سخت عملی تربیت کے لیے اپنایا جاسکتا ہے۔اس مضمون کے مصنف نے بھی اس تربیت میں شرکت کی ہے اور اس کا ماننا ہے کہ یہ پاکستان کے طبی نظام کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔


ایبولا کے حوالے سے تیاریاں اور منصوبہ بندی درحقیقت نہ صرف جان لیوا وبائی امراض سے نمٹنے کے قومی فریم ورک کی تیاری کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگا بلکہ اس سے شہریوں کی صحت اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے دیگر انتہائی خطرناک جراثیموں پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔


Source
 

Back
Top