آشیانہ کیس ٗ قانونی دستاویز نے شہباز اور فواد کیخلاف کیس تباہ کردیا

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
جب جواب بن نہ پڑے تو آئنے پر پتھراؤ کرو ، شاباش

شاہ زیب خانزادہ جیو اور پٹواری زور لگا لگا کر تھک گئے کہ بلیک لسٹ کمپنی کا معاہدہ شہباز شریف نے منسوخ کردیا تو کیا غلط کیا۔۔۔اور اب کہہ رہا ہیں کہ معاہدہ منسوخ نہیں کیا بلکہ باہمی رضامندی سے سب کچھ ہوا۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
جب کوئی ٹھیکہ دیا جاتا ہے تو اس کے لیے ٹھوس شرائط ہوتی ہیں اور جسے ٹھیکہ دیا جائے اس کی مالی حالت اور ساکھ دیکھی جاتی ہے۔ جب ایک بار کسی تو ٹھیکہ مل جائے تو اسے ختم کرنے کے لیے بہت سے قانونی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ محض ’’نا گزیر وجوہات‘‘ کی بنا پر ٹھیکہ منسوخ نہیں ہو سکتا۔ اگر ٹھیکہ دار ٹھیکہ ختم کرنا چاہے تو اسے زر ضمانت کے ساتھ ایک بڑی پینلٹی دینی پڑتی ہے۔ چلیں یہ تو مان لیتے ہیں کہ ٹھیکہ دار ٹھیکہ ختم کرنا چاہتا تھا لیکن حکومت کو کیا مجبوری تھی کہ اس نے باہمی رضا مندی سے ٹھیکہ ختم کر دیا۔ اس نے فریق مخالف کو جرمانہ کیوں نہیں لگایا؟ یہی بات تو ثابت کرتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اگر حکومت خود ٹھیکہ ختم کرتی تو الزام بہت واضح ہوتا اس لیے باہمی رضامندی کا ڈرامہ کھیلا گیا۔ اور یہی طریقہ ہوتا ہے ٹھیکہ منسوخ کروانے کا ۔۔ لیکن یہ بات اب چونکہ ریکارڈ پر آگئی اس لیے دونوں فریقوں کو ان ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کو بھی سامنے لانا پڑے گا اور اصل معاملہ ان ہی ناگزیر وجوہات میں پوشیدہ ہے۔صاف بات ہے یہ معاہدہ بھی ایک نیا قطری خط ہے۔
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
Ds_cwTfXoAEygBj.jpg

Ds_cxCCXoAArihC.jpg
 

Wakeel

MPA (400+ posts)
شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

580487_3668780_08-ashiyana-case_akhbar.jpg


معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں

وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔

شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا،

جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

Jang
یہ گنجے حرامی جعلی ڈوکیومینٹس بنانے میں کمال مہارت حاصل کیے ہوئے ہیں
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)

پہلے آپ یہ بتائیں کہ کسی ٹھیکے کا ٹینڈر ہونے اور ٹینڈر جیتنے کے بعد اسے منسوخ کرنے کا قانونی طریقہ کیا ہےَ یہ کوئی نکاح کا مسئلہ نہیں کہ فریقین کی باہمی رضامندی سے طلاق ہوگئی۔ ٹینڈر منسوخ کرنے کے لیے بھی کچھ رولز فالو کرنے پڑتے ہیں۔ ذرا اس کی وضاحت کریں۔
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
فواد حسن فواد کے مطابق یہ معاہدہ پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود تھا لیکن اس نے اسے چھپائے رکھا


اچھا اسی لئے اتنے دنوں سے -این آر او -این آر او - کی ہواڑیں نکلی جا رہی ہیں خان صاحب اور فواد چودھری سے - ان لوگوں کو پتا چل گیا تھا کہ کیا ہونے لگا ہے - اس لئے پہلے سے ہی ماحول گرما رھے ہیں
 

Educationist

Chief Minister (5k+ posts)
شہباز شریف اور فواد حسن فواد کیخلاف نیب کے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے بنیادی کیس کو ایک قانونی دستاویز نے تباہ کر دیا ہے اور اس سے انکشاف ہوا ہے کہ پروجیکٹ کیلئے لطیف اینڈ سنز کا کنٹریکٹ منسوخ ہوا ہی نہیں تھا بلکہ ٹھیکیدار اور پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایل ڈی سی) کے درمیان باہمی معاہدے کے تحت ختم کیا گیا تھا۔ دی نیوز کے پاس معاہدے کی نقل دستیاب ہے، اور یہ نیب کا کیس خراب کرنے کیلئے کافی ہے۔ نیب نے شریف اور فواد کو یہ پروجیکٹ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر رکھا ہے۔

580487_3668780_08-ashiyana-case_akhbar.jpg


معاہدے کی نقل پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران فواد حسن فواد کے وکیل کی طرف سے پیش کی گئی، اس میں دونوں فریقین، لطیف سنز اور پی ایل ڈی سی، کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ ایک ارب 49؍ کروڑ 52؍ لاکھ 22؍ ہزار 824؍ روپے کے منصوبے پر عمل کیلئے 16؍ فروری 2013ء کو طے پانے والے معاہدے کو فریقین باہمی اتفاق رائے کے ساتھ ختم اور منسوخ کرتے ہیں۔ معاہدے پر 9؍ نومبر 2013ء کو دستخط کیے گئے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فریقین اپنی منشا اور خوشی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر پروجیکٹ پر عمل کا معاہدہ ختم کرتے ہیں اور کسی بھی فریق کا دوسرے فریق پر کوئی دعویٰ یا ہرجانہ نہیں واجب الادا نہیں ہے۔ اس معاہدے کے منظرعام پر آنے کی وجہ سے نیب کے سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق سیکریٹری برائے وزیراعظم کے کیس کو نیا ڈرامائی موڑ مل گیا ہے۔ دونوں نیب کی حراست میں ہیں۔ پیر کے روز لاہور ہائی کورٹ میں معاہدے کی نقل پیش کیے جانے کے بعد نیب کا یہ دعویٰ مسترد ہو جاتا ہے کہ فواد حسن فواد نے غیر قانونی طور پر آشیانہ کا کنٹریکٹ اپنے عہدے (سیکریٹری عملدرآمد برائے وزیراعلیٰ پنجاب) کا غلط استعمال کرتے ہوئے منسوخ کرایا۔ نیب کی جانب سے گرفتاری کیلئے جو وجوہات عدالت میں پیش کی گئی تھیں

وہ یہ تھیں کہ مارچ 2013ء کے دوران ملزم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری فواد حسن فواد (اس وقت کے سیکریٹری عملدرآمد) نے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اس میں بدنیتی شامل تھی، انہوں نے پی ایل ڈی سی، بورڈ، کے اختیارات غیر قانونی طور پر حاصل کیے اور غیر قانونی ہدایات جاری کیں اور اس وقت کے سی ای او طہور قریشی اور پروجیکٹ ڈائریکٹر سید علی معظم پر دبائو ڈالا کہ وہ چوہدری عبداللطیف اینڈ سنز کو دیے گئے قانونی ٹھیکے کو منسوخ کریں۔ نیب نے مزید الزام عائد کیا تھا کہ فواد حسن فواد نے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ ٹھیکہ منسوخ کریں۔

شہباز شریف، جنہیں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کیا گیا تھا، پر بھی بدنیتی سے ٹھیکہ منسوخ کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پیر کے روز ہونے والی کارروائی میں فواد کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انہوں نے انشکاف کیا کہ کالسنز (چوہدری لطیف اینڈ سنز) کا ٹھیکہ منسوخ کیا ہی نہیں گیا تھا بلکہ 9؍ نومبر 2013ء کو پی ایل ڈی سی اور کالسنز نے ایک معاہدے کے تحت باہمی رضامندی سے کنٹریکٹ کو ہی منسوخ کر دیا۔ دی نیوز کے پاس اس معاہدے کی مستند نقل دستیاب ہے جو پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کی گئی تھی۔ باہمی معاہدے کی شرائط یہ ہیں کہ آشیانہ کی کنٹریکٹر کمپنی کالسنز فروری 2013ء میں تفویض کردہ تمام حقوق و مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ معاہدے کے تحت کالسنز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے وسائل کا دعویٰ کرے گی اور نہ ہی کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کرے گی۔ اس کے عوض، پی ایل ڈی سی نے کالسنز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی 7؍ کروڑ 40؍ لاکھ (74؍ ملین) روپے کا زر ضمانت واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور کالسنز نے پی ایل ڈی سی کی جانب سے دیئے گئے موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں دیے گئے 74؍ ملین روپے واپس کیے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کالسنز کے مستقبل کے ٹینڈرز میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ سائٹ پر جو بھی کام ہو چکا ہے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی ادائیگی سات دن میں کی جائے گی۔ عدالت میں پیش کردہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ کالسنز نے 4؍ کروڑ روپے کا دعویٰ کیا اور ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے دعوے کا جائزہ لیتے ہوئے کالسنز کو 59؍ لاکھ روپے کی ادائیگی کی جسے کالسنز نے قبول کیا۔ معاہدے کی تصدیق نوٹری پبلک کی جانب سے کی گئی ہے۔ فواد کے وکیل نے دلیل دی کہ جس وقت فریقین کے درمیان یہ معاہدہ ہوا اس وقت فواد پنجاب میں کسی عہدے پر نہیں تھے بلکہ انہیں اپریل 2013ء میں وفاقی حکومت میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ پروجیکٹ کا معاہدہ منسوخ کرنے کے معاہدے پر اس وقت کے پی ایل ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو شاہد لطیف نے دستخط کیے تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ فواد نے سی ای او طاہر خورشید پر معاہدہ منسوخ کرنے کیلئے دبائو ڈالا،

جبکہ طاہر خورشید باہمی معاہدے سے کئی ماہ قبل ہی ٹرانسفر ہو چکے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ نیب اس کیس پر گزشتہ کئی ماہ سے تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس اہم دستاویز کو کبھی سامنے نہیں لایا۔ معاہدے کے سامنے آنے کی وجہ سے شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو گرفتار کرنے کیلئے بتائی گئی وجوہات ختم ہو گئی ہیں اور ان کیخلاف نیب کے کیس کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

Jang
اس بدچلن عورت کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا

اس بدکردار عورت نے تو خود اقرا کیا تھا کہ اس کی کوئی جائیداد سرے سے ہے ہی

نہیں تو محض 6 سال کے قلیل عرصے میں اس نے ایسا کونسا دھندہ کیا کہ یہ ارب

پتی بن گئی
DqawE7GWkAEAvA-.jpg:large
 

patriot

Minister (2k+ posts)
فواد حسن فواد کے مطابق یہ معاہدہ پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود تھا لیکن اس نے اسے چھپائے رکھا
اس وقت کوئی بھی قابل اعتماد نہیں ۔
دیکھتے ہیں اس سب ڈرامے کا ڈراپ سین کیا ہوتا ہے ۔
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
حفیظ سمجھتے ہیں کہ اتنے اربوں کھربوں کے کسیز سے ان کے تھریڈ شریفوں کو نجات دلوا سکتے ہیں شریف نکلیں نہ نکلیں ان کا خرچہ نکلتا رہے گا جتنا کھلارہ ہے شریفوں کی کرپشن کا
 

datruth

MPA (400+ posts)
this is all the Patwaties can do, creating some confusion, there are so many cases against this sick and disgusting person , and most likely he is going to death cell, this drama seems is get the money out of this gang, which is working but very slowly, at the end only the chinese or saudi model will work, jail and chitroll, hang some of them and every thing will come out, look at Saddam and Gaddafi, many more , much more powerful and have complete control, no military intervention no other institute was coming in their way, the whole families are killed and all the money is back, things to learn.
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
I dont want to debate, if you feel so. But there is an element of news in it and it is very easy to see.

Shahbaz Sharif's entire defense revolves around his argument that he cancelled the contract because the first guy was overcharging, and that he saved the kitty x billion by doing so.

And now Ansar Abbasi is claiming the contract was never cancelled. So what exactly is his defense going to be?
 

Back
Top