آخرت میں وزن نیکی کا نہیں ہو گا بلکہ اس نیت کا ہو گا جو نیکی کرتے وقت تھی۔

Amal

Chief Minister (5k+ posts)





قیامت کے دن انسان دوبارہ واپس دنیا میں جانے کی خواہش کرے گا

(یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں گے)
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سر پر موت آ کھڑی ہو گی تو کہے گا کہ" اے پروردگار! مجھے پھر اسی دنیا میں واپس بھیج دے
جسے میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک کام کروں گا" ۔ ہرگز نہیں، یہ ایک ایسی بات ہے کہ جو وہ صرف بک رہا ہے
(اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا)
ان کے آگے اب اس دن تک ایک پردہ ہو گا، جب یہ اٹھائے جائیں گے"۔
(المومنون 99۔100)
"برزخ کا مطلب ہے" پردہ"۔ آیت کا مطلب ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی۔



قیامت کے دن اعمال کا وزن کیسے ہو گا

قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
"پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے وہ دلپسند عیش میں ہو گا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے اس کا ٹھکانہ گہری کھائی ہے۔
"(القارعہ 6)
"اور تول اس روز بلکل ٹھیک ہو گی پھر جن کے پلڑے بھاری ہوئے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہے وہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔"
(الاعراف 8۔9)
کئی جگہ قرآن اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ برائی کا بدلہ برابر جب کہ نیکی کا بدلہ 10 سے 700 گناہ بڑھا کر دیا جائے گا۔
القصص 44،الانعام 160،البقراء 261،مسلم رقم 1152
اسی طرح قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی ہزار گنا تک بڑھا دیا جائے گا جیسے کہ لیلۃ القدر کو عبادت کا ثواب ہزاروں سال کے ثواب کے برابر ہے۔
(القدر 3)
ان آیات کی وجہ سے لوگوں میں یہ تصور پیدا ہو گیا ہے کہ ایک طرف تو وہ جھوٹ، چوری، دھوکا، ملاوٹ جیسے کام کرتے ہیں اور دوسری طرف عبادات کر کے سمجھتے ہیں کہ ہماری چھوٹی موٹی برائی کے آگے ہماری یہ عبادت کا بدلہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اور اس طرح ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
لیکن صحیح بات ہمیں قرآن کو مزید سمجھنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وزن نیکی کا نہیں ہو گا بلکہ اس نیت کا ہو گا جو نیکی کرتے وقت تھی۔
اس دن جب دلوں کے بھید پرکھے جائیں گے ۔
(الطارق 9)
یعنی جو لوگ اس آیت کے مطابق اپنی کی گئی نیکی کو خالص کریں گے وہی کامیاب ہونگے انکی کسی نیکی میں کوئی دکھاوا نہ ہو گا۔
جو نیکیاں یا عبادات ان کی اصل روح کے ساتھ ادا نہیں کی جائیں گی ان کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔
اسی بات کی وضاحت قرآن میں ایک جگہ اور بھی کی گئی ہے۔
"اس لئے بربادی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں(کی حقیقت) سے غافل ہیں یہ جو(عبادت کی)نمائش کرتے ہیں۔"
(الماعون 4۔6)
اسی چیز کی وضاحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔"
(بخاری، رقم 1903)
اس سارے معاملے میں شاید برائی کا کردار یہ ہو گا کہ یا تو برائی اتنی بڑی برائی ہو گی کہ ساری نیکیوں پر چھا جائے گی یا اتنی کمزور ہو گی کہ نیکیاں اس پر حاوی آجائیں گی۔
لہذا انسان کو اس بات کی زیادہ فکر کرنی چاہئے کہ کہیں اس کی نیکیاں اخلاص کی کمی کی وجہ سے غارت نہ ہو جائیں۔
"اللہ تو نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور جو راز سینوں میں پوشیدہ ہیں ان سے بھی۔"
(المومن 19)




 
Last edited:

P@triot

Senator (1k+ posts)





قیامت کے دن انسان دوبارہ واپس دنیا میں جانے کی خواہش کرے گا

(یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں گے)
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سر پر موت آ کھڑی ہو گی تو کہے گا کہ" اے پروردگار! مجھے پھر اسی دنیا میں واپس بھیج دے
جسے میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک کام کروں گا" ۔ ہرگز نہیں، یہ ایک ایسی بات ہے کہ جو وہ صرف بک رہا ہے
(اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا)
ان کے آگے اب اس دن تک ایک پردہ ہو گا، جب یہ اٹھائے جائیں گے"۔
(المومنون 99۔100)
"برزخ کا مطلب ہے" پردہ"۔ آیت کا مطلب ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی۔



قیامت کے دن اعمال کا وزن کیسے ہو گا

قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
"پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے وہ دلپسند عیش میں ہو گا اور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے اس کا ٹھکانہ گہری کھائی ہے۔
"(القارعہ 6)
"اور تول اس روز بلکل ٹھیک ہو گی پھر جن کے پلڑے بھاری ہوئے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہے وہی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا۔"
(الاعراف 8۔9)
کئی جگہ قرآن اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ برائی کا بدلہ برابر جب کہ نیکی کا بدلہ 10 سے 700 گناہ بڑھا کر دیا جائے گا۔
القصص 44،الانعام 160،البقراء 261،مسلم رقم 1152
اسی طرح قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی ہزار گنا تک بڑھا دیا جائے گا جیسے کہ لیلۃ القدر کو عبادت کا ثواب ہزاروں سال کے ثواب کے برابر ہے۔
(القدر 3)
ان آیات کی وجہ سے لوگوں میں یہ تصور پیدا ہو گیا ہے کہ ایک طرف تو وہ جھوٹ، چوری، دھوکا، ملاوٹ جیسے کام کرتے ہیں اور دوسری طرف عبادات کر کے سمجھتے ہیں کہ ہماری چھوٹی موٹی برائی کے آگے ہماری یہ عبادت کا بدلہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ اور اس طرح ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
لیکن صحیح بات ہمیں قرآن کو مزید سمجھنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وزن نیکی کا نہیں ہو گا بلکہ اس نیت کا ہو گا جو نیکی کرتے وقت تھی۔
اس دن جب دلوں کے بھید پرکھے جائیں گے ۔
(الطارق 9)
یعنی جو لوگ اس آیت کے مطابق اپنی کی گئی نیکی کو خالص کریں گے وہی کامیاب ہونگے انکی کسی نیکی میں کوئی دکھاوا نہ ہو گا۔
جو نیکیاں یا عبادات ان کی اصل روح کے ساتھ ادا نہیں کی جائیں گی ان کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔
اسی بات کی وضاحت قرآن میں ایک جگہ اور بھی کی گئی ہے۔
"اس لئے بربادی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں(کی حقیقت) سے غافل ہیں یہ جو(عبادت کی)نمائش کرتے ہیں۔"
(الماعون 4۔6)
اسی چیز کی وضاحت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کے وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔"
(بخاری، رقم 1903)
اس سارے معاملے میں شاید برائی کا کردار یہ ہو گا کہ یا تو برائی اتنی بڑی برائی ہو گی کہ ساری نیکیوں پر چھا جائے گی یا اتنی کمزور ہو گی کہ نیکیاں اس پر حاوی آجائیں گی۔
لہذا انسان کو اس بات کی زیادہ فکر کرنی چاہئے کہ کہیں اس کی نیکیاں اخلاص کی کمی کی وجہ سے غارت نہ ہو جائیں۔
"اللہ تو نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور جو راز سینوں میں پوشیدہ ہیں ان سے بھی۔"
(المومن 19)




Subhan Allah...Share karnay ka shukriya...and as a nation we are unable to understand it..log hajj aur umray kartay hain per kisi ko ek paisay ka faida deney kay rawadaar nahi...moo maangi qeemat lay kar pehli koshish hoti hai kay ghatiya maal bik jaye...because it's business...
 

Back
Top