آئین نہ احتساب، نظریہ ضرورت ہے مقدم؟

ArtistSajid

Citizen
آئین نہ احتساب، نظریہ ضرورت ہے مقدم؟

قلمکار : محمد ساجد

جوڈیشل کمیشن کے قیام کے بعد تحریک انصاف پارلیمانی سیاست میں واپس آگئی ہے۔اور قومی اسمبلی سےگزشتہ سات ماہ کی تنخواہوں اور مراعات کا مطالبہ کیا ہے، جس کے لئے درخواستیں جمع کرا دی گئی ہیں۔تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی سے استعفوں اورایک طویل غیرحاضری کے باوجود مالی فوائد اٹھائیں گے، تحریک انصاف کا ہر رکن تنخواہ کے 536000 وصول کرے گا۔ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اب پرانی تنخواہیں بھی لیں گے اور تمام مراعات بھی۔مال مفت دل بے رحم۔آئین کو تو مفاہمت، جمہوریت اور اس کے حسن کے نام پر معطل کر ہی رکھا ہے ہمارے حکمرانوں، معزز ارکان اسمبلی اور جناب سپیکر نے، اپنی اپنی اخلاقیات کو بھی ساتھ ہی یہ سیاستدان معطل، بلکہ برخواست کر چکے ہیں۔ کہیں کہیں تو اخلاقیات کا جنازہ نکلتا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 64میں واضح درج ہےکہ چالیس دن اسمبلی سے غیر حاضر رہنے والے اراکین کی رکنیت ختم تصور کی جائے گی۔ یہاں قومی اسمبلی میں حذب اختلاف تو غیر حاضر رہی ہے وزیراعظم سمیت متعدد حکومتی ارکان اسمبلی بھی کئی کئی ماہ بعد اسمبلی میں ایک آدھ حاضری ہی لگوانے آتے ہیں۔ یہی صورتحال صوبائی اسمبلیوں کی بھی ہے۔ابھی پچھلے ہی دنوں کی خبر ہے ، وزیراعلی پنجاب خود آٹھ مہینے بعد پنجاب اسمبلی تشریف لائے ہیں۔لیکن رکنیت بھی سب کی بحال اور تنخواہیں بشمول الائونس بھی دنکے کی چوٹ پر سب لے رہے ہیں۔ قومی خزانے کو تو یہ سب اپنےآبائو اجداد کا مال بھی اب نہیں سمجھتےہیں کہ اس میں بھی کچھ اصول تو ہوتے ہی ہیں۔

اب ان سیاستدانوں، حکمرانوں یعنی اشرافیہ کو پھرجب کوئی ذاتی خطرہ بھی لاحق ہوا تو پھر انہوں نے اسے آئین اور پارلیمان پر حملہ قرار دینے کےلئے جوائنٹ سیشن بلا لینے ہیں۔ کبھی آئین کو مقدس قرار دیں گے تو کبھی ایوان کے تقدس کی داستانیں بیان کرتے نظر آئیں گے، جہاں نہ تو یہ جانا پسند کرتے ہیں نہ ہی جس آئین سے دور دور تک انکاکوئی تعلق واسطہ ہے ۔ آئین پاکستان کے کل 280 آرٹیکلز ہیں۔ جن میں سے پہلے 40 آرٹیکلز عوام کے حقوق اور بقیہ 240 آرٹیکلز طرزِ حکمرانی پر بحث کرتے ہیں۔پہلے تو ہم عوام یہی سمجھتے تھے کہ صرف وہ شقیں، آرٹیکلز آئین کےمعطل ہیں جن کا تعلق براہ راست عوام کے حقوق سے ہے۔ لیکن اب تو یوں محسوس ہوتا ہےپورا کا پورا آئین ہی معطل کیا جا چکا ہےاور ہر سیاسی جماعت، ہرسیاستدان نے اپنا اپنادستور اورقانون بنا رکھا ہے، جووہ سیاستدان، حکمران چاہے گا بس وہی آئین اور قانون تصور کیا جائے گا، جو انہیںاور ان کے ذاتی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں باالخصوص اشرافیہ کو اس جمہوریت کے حسن کو مزید نکھارنے کے لئے ایک نیا آئین ترتیب دے دینا چاہیے تاکہ عوام میں سے کسی کو بھی کوئی نقطہ اٹھانے کا موقع ہی نہ مل سکے۔

تحریک انصاف کے اراکین جنہوں نے تحریری طور پر استعفی لکھ کے دیا ، اور آٹھ مہینے بعدقومی اسمبلی میں گئے ہیں۔ یقینا آئین پاکستان کے مطابق وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں رہے۔ لیکن سوال یہ بھی تو پیدا ہوتا ہے کہ سب لعنت ملامت تو تحریک انصاف کو کر ہی رہے ہیں لیکن اس شخص کو جو قومی اسمبلی ،ایوان کا نگران ہے، جناب ِسپیکر صاحب کی بات ہو رہی ہے۔قومی اسمبلی میں ، جہاںبڑے بڑے وکلا،قانون دان اور پڑھے لکھے سیاستدان بھی براجمان تھے، کسی سیاسی جماعت کےکسی رکن نے بھی یہ نقطہ نہیں اٹھایاکہ جنابِ سپیکر اب آپ اس عہدے کے اہل نہیں رہے۔کیونکہ آپ نے آئین آرٹیکل 64 اے، 64 بی کی خلاف ورزی کی ہے۔ آپ نےآئینی طور پر استعفے بھی قبول نہیں کئے اور چالیس دن سے زیادہ مسلسل غیرحاضر رہنے پرآئین سے روگردانی کرتے ہوئے نہ صرف تحریک انصاف کے اراکین کی رکنیت ختم کرنے کو غیرضروری سمجھا بلکہ حکومتی جماعت بشمول وزیراعظم ، وزرا اور دیگر غیرحاضر اراکین کے سلسلے میں بھی نظریہ ضرورت کوبالا طاق رکھا ہے۔اپنے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر آپ نے آئین کو توڑاہے،آئین کو نقصان پہنچایا ہے۔اس سوال سےنہ تو پارلیمنٹ کمزور ہوتی نہ ہی جمہوریت کے حسن پر کوئی داغ لگتا، بلکہ ایسے اقدام سے جمہوریت اور ایوان مزید مضبوط ہوتے۔ جتنا زیادہ آئین پر عمل درآمد ہوگا اتنی ہی جمہوریت بھی مضبوط ہوگی۔ اب اگر کسی نے عدلیہ سے رجوع کرنا ہے تو وہ سپیکر اور حکومت کے خلاف اپنا مقدمہ لے کر جائے کہ سپیکر اور حکومت نے آئین توڑا ہے، اس کی خلاف ورزی کی ہے، ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔

دوسری جانب اب بالآخرگزشتہ انتخابات کا جوڈیشل آڈٹ ہونے جارہا ہے۔ عمران خان پر امید ہیں کہ جوڈیشل کمشن کے قیام سے آئندہ پاکستان میں الیکشن صاف اور شفاف ہونا شروع ہو جائیں گےاورالیکشن 2013 میں دھاندلی کے ذمہ داروں کو سزا مل سکے گی۔ تحریک انصاف نے ثبوت اکٹھے کرنے کیلئےآٹھ رکنی ٹاسک فورس بنا دی ہے۔اس کے علاوہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا ہے کہ دیر سے 90 ہزار بیلٹ پیپرز پکڑے گئے۔لہذااس سلسلے میں انہوں نےثبوت اکٹھے کر لئے ہیں اور فریق بننے کا اب فیصلہ کیا ہے۔مولانا صاحب نے بھی انتخابات کے بعد کئی بار دھاندلی کی شکایت کی، بلکہ ان کی جماعت کے رہنمائوں نے ٹاک شوز میں بھی بیلٹ پیپرز دکھائے، انہیں اب آگے آنا چاہیے۔ میاں نوازشریف نے بھی الیکشن کے بعد کراچی اور سندھ میں دھاندلی کی شکایت کی تھی۔ویسے میاں صاحب بھی کمال معصومیت رکھتے ہیں، الیکشن کے بعدخود ہی دھاندلی کے بارے شکایت کی لیکن اس کے بعد ڈیڑھ سال تک مسلسل ان انتخابات کو تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار دیتے رہے ہیں کئی وزیر مشیر بھی ایسے بیانات میں پیش پیش تھے۔مسلسل شفاف الیکشن قراردینے اور دھاندلی والوں کامذاق اڑانے کے بعد خود ہی اب کہہ دیا ہے کہ دھاندلی کا شکار ہم بھی ہوئے لیکن نتائج تسلیم کئے، نوازشریف نے یہ بہت بڑا خود انکشاف کیا ہے کہ دھاندلی ہوئی، لیکن میڈیا نے توجہ نہیں دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب میاں نوازشریف جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہونگے؟

حال ہی میں نبیل گبول نے فرمایا ہےکہ کراچی کے حلقہ 246میں جب انہوں نے الیکشن لڑا تو انہیں ایم کیو ایم کی قیادت نے فرمایا کہ آپ ووٹنگ ٹرن اوور سے پریشان نہ ہوں۔گھر جا کر آرام کریں آپکو ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب ووٹ پڑ جائیں گے۔ مزید فرماتے ہیں کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر گئے جو مکمل ویران تھا مگر پولنگ سٹاف دھڑا دھڑ بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگا رہا تھا جس پر ان کا کہنا ہے وہ وہاں سے فوراً نکل آئے کہ کہیں میڈیاجعلی ووٹوں کی پولنگ پر انکی موجودگی کی ویڈیونہ بنالیں۔ اور کتنے ایماندار یہ سیاستدان ہیں کہ ایک عرصے تک جانتےہوئےبھی اس مینڈیٹ پر بیٹھےرہے ہیں اب جو اِن کے بقول جعلی اور ٹھپہ الیکشن تھا،کیا گبول صاحب کمیشن میں حاضری دینگے؟

کچھ حلقوں میں تو دھاندلی ثابت پہلے ہی ہوچکی ہے، کچھ پر نادرا میں کام جاری ہے۔منظم اور غیر منظم دھاندلی کی بات ہو رہی ہے، کوئی بھی دھاندلی غیر منظم کیسے ہوسکتی ہے!۔اگرفیصلہ آتا ہے کہ چوری تو ہوئی ہے مگر منظم نہیں ہوئی۔ پھر کیا ہوگا ؟اور اِنک (سیاہی) پرجو اتنا بڑا فراڈ ہوا ہے۔جس کی اطلاعات ہیں کہ وہ جعلی تھی اور اکثر بیلٹ پیپرز سے مٹتی جا رہی ہے۔توالیکشن کمیشن کا احتساب کیسے ہو گااور کون کرے گا؟ کئی سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش تو سب کو ہی رہے گی۔
http://artistsajid.blogspot.com/

 
Last edited by a moderator: