Night_Hawk
Siasat.pk - Blogger
[h=1](بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - اور وہ نشے میں پھنس گیا
[/h] رانا گل اتوار 20 جولائ 2014
میں نے جب اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو گٹکے کے کئی پیکٹس میرے ہاتھوں کو طلسم کرتے گزر گئے۔ فوٹو فائل
شہر گوجرانوالہ کبھی پہلوانوں کی وجہ سے مشہور تھا۔لیکن آج انہی اکھاڑوں میں جہاں کبھی کشتی ہوا کرتی تھی۔آج نشے کا اڈا بنے ہوئے ہے۔انہی اکھاڑوں کی وہ خوشنما مٹی اور دیواریں روتی ہے۔انسانوں کا تو پتا نہیں۔گلی محلوں میں آج ہیروئن،پاؤڈر اور چرس کی فروخت عام ہے۔جس علاقے سے میں ہوں۔وہاں کی بات تو چھوڑ دیں آپ۔کیونکہ وہ تو گڑھ ہے۔ باقی علاقوں کو مال یہاں سے سپلائی ہوتا ہے۔
آج میں آپ کو اپنے ایک دوست کے بارے میں بتاتاہوں۔سنا تھاکہ برے دوستوں کی صحبت انسان کو خراب کر دیتی ہے۔شاید یہ ٹھیک ہو۔لیکن اس کے علاوہ گھر کے جھگڑے اور تلخیاں ان کِھلتے ہو ئے پھولوں کو مرجھانے پر مجبور کر دیتے ہے۔میرے اِس دوست کے گھر والے اکثر آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔یہ بچپن سے میرے ساتھ تھا۔ یعنی کہ میں اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ مذاق، پیار اور غصہ اس کی خاصیت تھی۔بس اکثر گھر والوں کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔
پھر میرے انٹر کے پیپر شروع ہوگئے۔میں اکثر گھر رہنے لگا۔انٹر کے پیپر کے بعد میں گاؤں چلا آیا۔تقریبا 21 دن بعد لوٹا۔ تو ایک دن اس سے ملنے چلا گیا۔وہ جناح پارک میں عجیب طریقے سے بیٹھا تھا۔مجھے اس میں کچھ نیا اور اجنبیت محسوس ہوئی۔آخر کار میں اس کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔وہ بوکھلا گیا۔اور اپنے ہاتھ میں موجود سگریٹ بجھانے لگا۔میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کب سے شروع کی؟۔ تو وہ بولاکہ جب سے تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا۔
یقین مانیے اس وقت مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ دل کر رہا تھا کہ خود کو نوچ ڈالوں۔ میں آرام میں مصروف تھا اور وہ پریشانی کی حالت میں مجھے یاد کرتا رہا۔کاش کہ میں نہ گیا ہوتا۔ لیکن اب پچھتاوے کا کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو دو آنسوں جو نجانے کب سے اس کی آنکھوں میں قید با مشقت کی سزا کاٹ رہے تھے رہا ہوئے اور اس کے گالوں پر آ بھٹکے۔
وہ پنجابی میں مجھ سے کچھ یوں گویا ہوا۔او یار تینوں کی دسا۔جیدوں گھر جانا وا آگے لڑائی پئی ہوندی وے۔پرا تو لاں کہ ماں تک ہر کوئی لڑدا وے۔میرے کولوں برداشت نہیں ہوندا سجنا۔(کیا بتاؤں یار۔جب بھی گھر جاتا ہوں،لڑائی ہو رہی ہوتی ہے۔بھائی سے لے کر ماں تک ہر کوئی جھگڑ رہا ہوتا ہے۔میرے سے برداشت نہیں ہوتا یار)۔
مجھے اس کا وہ دن یاد آیا کہ جب وہ پریشان میرے پاس آیا۔اور جب اس سے پوچھا تو بولا کہ وہی پرانا معاملہ۔لیکن آج بھٹی میں آگ کچھ زیادہ تھی۔اس کا ایک بھائی کسی خلیجی ملک میں کمانے گیا ہواہے۔ سو گھر میں اس کا کوئی رعب نہیں چلتا۔باقی بھائی خود محاذ پہ ڈٹے رہتے ہیں اور ماں کے ساتھ جھگڑتے رہتے ہیں۔
میں نے جب اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو گٹکے کے کئی پیکٹس میرے ہاتھوں کو طلسم کرتے گزر گئے۔ میں اس وقت خیالوں کی دنیا میں جا پہنچا کہ آج سے دو مہینے پہلے یہی لڑکا گٹکے بنانے والوں کوگالیاں دیتا تھا۔میں اپنے آپ کو خوابوں کی دنیا میں پانے لگا۔لیکن یہ حقیقت تھی کہ سالوں گزرنے کے باوجود اس کے گھر والے نہیں بدلے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہورہا ہے آج وہ لڑکا پھر سے سگریٹ نوش اور گٹکے جیسی چیزوں کی لت میں پڑ چکا ہے۔ وہ اب مجھے بعض اوقات ملتا ہے ۔ تو شرمندگی کی وجہ سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیتا اور کہتا کہ یار میں یہ جان بوجھ کر نہیں کر رہا۔
آہستہ آہستہ اس کے گھر والوں کا رویہ اس کی جان کو لے ڈوبا۔ پھر میں ذرا مصروف رہنے لگا۔اچانک ایک دن بازار جاتے ہوئے وہ مجھے ملا۔میں اس کو دیکھ حیران ہوا۔پہلے تو وہ دبلا پتلا ہوا کرتا تھا لیکن اب شاید ہڈیاں رہ گئی تھی۔میں وہاں سے اسے ملے بغیر جانے لگا تو وہ کہنے لگا کہ یار میں اب نہ تو نشے کو چھوڑ سکتا ہو اور نہ تمہیں،مجھے اپنی نظروں میں رد نہ کروں۔ وہ ایک بار پھر نشے کی لت چھوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔میری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے۔
میرے اس بلاگ کا مقصد صرف گھر والوں یہ باور کرانا ہے کہ بے جا لڑائی جھگڑں سے گریز کریں ۔کہیں یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو ساری زندگی رونا پڑے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
[/h] رانا گل اتوار 20 جولائ 2014

میں نے جب اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو گٹکے کے کئی پیکٹس میرے ہاتھوں کو طلسم کرتے گزر گئے۔ فوٹو فائل
شہر گوجرانوالہ کبھی پہلوانوں کی وجہ سے مشہور تھا۔لیکن آج انہی اکھاڑوں میں جہاں کبھی کشتی ہوا کرتی تھی۔آج نشے کا اڈا بنے ہوئے ہے۔انہی اکھاڑوں کی وہ خوشنما مٹی اور دیواریں روتی ہے۔انسانوں کا تو پتا نہیں۔گلی محلوں میں آج ہیروئن،پاؤڈر اور چرس کی فروخت عام ہے۔جس علاقے سے میں ہوں۔وہاں کی بات تو چھوڑ دیں آپ۔کیونکہ وہ تو گڑھ ہے۔ باقی علاقوں کو مال یہاں سے سپلائی ہوتا ہے۔
آج میں آپ کو اپنے ایک دوست کے بارے میں بتاتاہوں۔سنا تھاکہ برے دوستوں کی صحبت انسان کو خراب کر دیتی ہے۔شاید یہ ٹھیک ہو۔لیکن اس کے علاوہ گھر کے جھگڑے اور تلخیاں ان کِھلتے ہو ئے پھولوں کو مرجھانے پر مجبور کر دیتے ہے۔میرے اِس دوست کے گھر والے اکثر آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔یہ بچپن سے میرے ساتھ تھا۔ یعنی کہ میں اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ مذاق، پیار اور غصہ اس کی خاصیت تھی۔بس اکثر گھر والوں کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔
پھر میرے انٹر کے پیپر شروع ہوگئے۔میں اکثر گھر رہنے لگا۔انٹر کے پیپر کے بعد میں گاؤں چلا آیا۔تقریبا 21 دن بعد لوٹا۔ تو ایک دن اس سے ملنے چلا گیا۔وہ جناح پارک میں عجیب طریقے سے بیٹھا تھا۔مجھے اس میں کچھ نیا اور اجنبیت محسوس ہوئی۔آخر کار میں اس کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔وہ بوکھلا گیا۔اور اپنے ہاتھ میں موجود سگریٹ بجھانے لگا۔میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کب سے شروع کی؟۔ تو وہ بولاکہ جب سے تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا۔
یقین مانیے اس وقت مجھے اپنے آپ سے اتنی نفرت ہوئی کہ دل کر رہا تھا کہ خود کو نوچ ڈالوں۔ میں آرام میں مصروف تھا اور وہ پریشانی کی حالت میں مجھے یاد کرتا رہا۔کاش کہ میں نہ گیا ہوتا۔ لیکن اب پچھتاوے کا کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو دو آنسوں جو نجانے کب سے اس کی آنکھوں میں قید با مشقت کی سزا کاٹ رہے تھے رہا ہوئے اور اس کے گالوں پر آ بھٹکے۔
وہ پنجابی میں مجھ سے کچھ یوں گویا ہوا۔او یار تینوں کی دسا۔جیدوں گھر جانا وا آگے لڑائی پئی ہوندی وے۔پرا تو لاں کہ ماں تک ہر کوئی لڑدا وے۔میرے کولوں برداشت نہیں ہوندا سجنا۔(کیا بتاؤں یار۔جب بھی گھر جاتا ہوں،لڑائی ہو رہی ہوتی ہے۔بھائی سے لے کر ماں تک ہر کوئی جھگڑ رہا ہوتا ہے۔میرے سے برداشت نہیں ہوتا یار)۔
مجھے اس کا وہ دن یاد آیا کہ جب وہ پریشان میرے پاس آیا۔اور جب اس سے پوچھا تو بولا کہ وہی پرانا معاملہ۔لیکن آج بھٹی میں آگ کچھ زیادہ تھی۔اس کا ایک بھائی کسی خلیجی ملک میں کمانے گیا ہواہے۔ سو گھر میں اس کا کوئی رعب نہیں چلتا۔باقی بھائی خود محاذ پہ ڈٹے رہتے ہیں اور ماں کے ساتھ جھگڑتے رہتے ہیں۔
میں نے جب اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو گٹکے کے کئی پیکٹس میرے ہاتھوں کو طلسم کرتے گزر گئے۔ میں اس وقت خیالوں کی دنیا میں جا پہنچا کہ آج سے دو مہینے پہلے یہی لڑکا گٹکے بنانے والوں کوگالیاں دیتا تھا۔میں اپنے آپ کو خوابوں کی دنیا میں پانے لگا۔لیکن یہ حقیقت تھی کہ سالوں گزرنے کے باوجود اس کے گھر والے نہیں بدلے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہورہا ہے آج وہ لڑکا پھر سے سگریٹ نوش اور گٹکے جیسی چیزوں کی لت میں پڑ چکا ہے۔ وہ اب مجھے بعض اوقات ملتا ہے ۔ تو شرمندگی کی وجہ سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیتا اور کہتا کہ یار میں یہ جان بوجھ کر نہیں کر رہا۔
آہستہ آہستہ اس کے گھر والوں کا رویہ اس کی جان کو لے ڈوبا۔ پھر میں ذرا مصروف رہنے لگا۔اچانک ایک دن بازار جاتے ہوئے وہ مجھے ملا۔میں اس کو دیکھ حیران ہوا۔پہلے تو وہ دبلا پتلا ہوا کرتا تھا لیکن اب شاید ہڈیاں رہ گئی تھی۔میں وہاں سے اسے ملے بغیر جانے لگا تو وہ کہنے لگا کہ یار میں اب نہ تو نشے کو چھوڑ سکتا ہو اور نہ تمہیں،مجھے اپنی نظروں میں رد نہ کروں۔ وہ ایک بار پھر نشے کی لت چھوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔میری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے۔
میرے اس بلاگ کا مقصد صرف گھر والوں یہ باور کرانا ہے کہ بے جا لڑائی جھگڑں سے گریز کریں ۔کہیں یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو ساری زندگی رونا پڑے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔