w-a-n-t-e-d-
Minister (2k+ posts)
انٹرنیٹ ایک امتحان
انٹرنیٹ ایک وسیع وعریض میدان کی طرح هے جس میں ایمان اخلاق اور عقول انسانی کا امتحان هے اس میدان میں خیر کم اور شر اپنے تمام انواع و اقسام کے ساتهہ بکثرت موجود هے اور اس انٹرنیٹ کے سامنے انسان آزاد هے جیسے چاهے اپنی زبان و نظر اپنے هاتهہ کان وغیره کو استعمال کرے
لیکن ایک انسان جو صاحب ایمان هے کلمہ گو هے اپنی انجام وعاقبت کا فکرمند هے اپنے رب کی معیت و رقابت کا استحضار رکهتا هے اور اپنے دل میں یہ کامل یقین رکهتا هے کہ میرا رب میرے تمام حرکات و سکنات پر واقف و خبردار هے اور میرے پاس جو بهی ظاهری و باطنی نعمتیں موجود هیں سب میرے رب کی طرف سے ایک امانت هیں جس کو میں اپنی خواهش کے مطابق استعمال نہیں کرسکتا اور کل میں نے اپنے رب کو ذره ذره کا حساب دینا هے
توایسا انسان انٹرنیٹ کے اس میدان میں بڑی احتیاط کے قدم رکهے گا اور اس میں موجود شرور و آفات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا
انٹرنیٹ کے اندر موجود شرور و فتن سے بچنے کے لیے ایک مسلمان مرد و عورت کو چند امور کی رعایت وپابندی بہت ضروری هے
1= الله تعالی کا ارشاد مبارک هے ، يأيها الذين أمنوا لا تـتـبعوا خـُطـُوات الشيطن
اے ایمان والو شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو
شیطان بنی آدم کا سب سے بڑا دشمن هےاورهر راستے اور طریق پر انسان کو گمراه کرنے کے لیے بیٹها هے اور قرآن و حدیث میں سب سے زیاده اسی دشمن سے انسان کو ڈرایا گیا هے اور قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے هر پاره میں اس دشمن کا ذکر صراحة ً يا اشارة ً موجود هے اور انسان کی پیدائش سے لے کر مرتے دم تک یہ دشمن انسان سے جدا نہیں هوتا اور انسان کے رگوں میں خون کی طرح چلتا هے لهذا ایک عاقل آدمی پر لازم هے کہ اس دشمن سے خبردار رهے اور پهر اس دشمن کا ساتهی اور وزیر همارا نفس اماره هے لهذا ایک مسلمان آدمی کو ان دونوں سے خبردار رهنا چائیے اور اپنی زبان ونظر و قلب کی خصوصی طور پر حفاظت کرنی چائیے
صحیح مسلم وبخاری کی روایت هے کہ
وعن سهل بن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يضمن لي ما بين لحييه وما بين رجليه أضمن له الجنة متفق عليه
آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد مبارک هے کہ جوکوئ مجهے ضمانت دے گا اس چیز کی جو دو جبڑوں کے درمیان هے ( یعنی زبان ) اور اس کی جو دو ٹانگوں کے درمیان هے ( یعنی شرمگاه ) تو میں اس کوجنت کی ضمانت دیتا هوں ۰
ترمذی شریف میں روایت هے
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من وقاه الله شر ما بين لحييه وشر ما بين رجليه دخل الجنة رواه الترمذي وقال حديث حسن
یعنی جس کو الله تعالی نے زبان و شرمگاه کی شر سے بچالیا وه جنت میں داخل هوگا ۰
اور ایک روایت میں هے کہ
وعن حذيفة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "النظرة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن تركها من خوف الله أثابه جل وعز إيمانا يجد حلاوته في قلبه " وأخرجه الحاكم في المستدرك وقال الحاكم: " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "
آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد مبارک هے کہ انسان کی نظر ابلیس کے زهریلے تیروں میں سے ایک تیر هے جس نے اس کو غیر محرم کے دیکهنے سے بچایا تو الله تعالی اس کو ایمان کی ایسی لذت دے گا جس کی حلاوت اپنے دل میں محسوس کرے گا ۰
قرآن مجید میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام کا ذکر موجود هے اور اس فتنہ و آزمائش کا ذکر بهی موجود هے جس میں وه مبتلا هو ئے ایک جلیل القدر نبی هونے کے باوجود اپنے ایمان وعلم و شرف پر اعتماد نہیں کیا بلکہ اس فتنہ سے دوربهاگ گئے اور الله تعالی سے اس فتنہ کے شر کی پناه مانگی اور یہ فرمایا کہ اگر الله تعالی مجهہ سے اس فتنہ کو دور نہ کرتا یعنی ان عورتوں کے مکروفریب کو توفرمایا ،، أصبُ إليهن وأكن من الجاهلين ،، اور اسی سورت یوسف میں آگے فرمایا ،، وما أبرئُ نفسى إن النفس لأمـّارة بالسوء ،،
الله تعالی کے ایک جلیل القدر نبی جو کہ معصوم هیں عصمت وعفت کا لباس ان کے اوپر هے اور ایمان اخلاق تعلق مع الله وغیره تمام صفات حمیده میں اعلی درجہ کا کمال ان کو حاصل هے لیکن اس کے باوجود نفس و شیطان کے فتنوں سے پناه مانگتے هیں اور یہ اقرار کرتے هیں کہ الله تعالی کے کے فضل وکرم سے هی انسان نفس و شیطان کے مکائد سے بچ سکتا هے
تو هم اور آپ جو هر وقت گناهوں میں غرق هیں هماری کیا حالت هونی چائیے ؟
اور نفس و شیطان کے شرور سے بچنے کی کتنی فکر کرنی چا ئیے ؟
2 = وقت کا تعین کرنا چائیے یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ایک حد اور هدف مقر ر کرنا چائیے جس کے دوران اس کو استعمال کرے اگر ایسا نہیں کرے گا تو پهر وقت کا ضیاع هے کہ هر وقت اس پر بیٹها رهے اور فرائض و واجبات حقوق الله و حقوق العباد کا خیال نہ کرے تو پهر نقصان وخساره هی هے
اور یہ بات یاد رکهنی چائیے کہ همارے پاس الله تعالی کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت وقت اور زندگی کی نعمت هے اور اسی نعمت کے ذریعہ سے هی انسان اپنی دنیا و آخرت کو آباد وکامیاب بناتا هے یا برباد وناکام بناتا هے یا جنت کماتا هے یا جهنم اور وقت کی نعمت کی قدر و عظمت کو دیکهیں
الله تعالی نے قرآن مجید میں وقت اور اس کے اجزاء کی قسم اٹهائ هے
فرمایا ( والعصر ) قسم هے زمانے کی یا عصر کے وقت کی ( والفجر) قسم هے فجر کے وقت کی ( والشمس وضحاها ) قسم هے سورج کی اور اس کے دهوپ کی ( والقمر اذا تلاها ) اور قسم هے چاند کی جب کہ وه سورج کے پیچهے آئے ( والنهار اذا جَلا ّها ) اور قسم هے دن کی جب وه سورج کو نمایاں کرے ( واللیل اذا یغشاها ) اور قسم هے رات کی جب وه سورج کو چهپا لے
( والسماء وما بناها ) اور آسمان کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو بنایا
( والارض وما طحاها ) اور زمین کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو بچهایا ( ونفس وما سواها ) اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو درست بنایا ( فألهمها فـُجـُورَهـَا وَتـَقواهـَا ) پهر اس کو سمجها دی اس کی بدکاری اور اس کی پرهیزگاری ( قد أفلـَحَ مـَن زَكـّاهـا ) وه مراد کو پہنچا جس نے نفس کو سنوارا ( وقد خابَ مَن دَسّاها ) اور گهاٹے میں رها جس نےاس کو خاک میں ملایا ۰ ان آیات مبارکہ میں الله تعالی نے انتهائ واضح طور پر وقت کی اهمیت و قدر قیمت کو بیان کیا هے اور انتهائ واضح اشاره هے ان آیات میں کہ وقت هی اصل ماده حیات اور قیمتی ترین متاع هے
اور اسی طرح احادیث کثیره میں وقت کی اهمیت اور اس کے صحیح استعمال بڑی تاکید کی گئ هے ایک حدیث میں هے کہ
عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس : الصحة والفراغ ) رواه البخاري
دو نعمتیں ایسی هیں جس میں بهت سارے لوگ مَغبُون هیں یعنی مغلوب هیں اور وه صحت اور فراغت هے
بعض علماء نے کها کہ مَغبُون اس آدمی کو کہتے هیں جو انتهائ چیز کو ایک ادنی چیز کے بدلے فروخت کردے
اور انسان سے قیامت کے دن وقت اور عمر کے بارے میں سوال هو گا جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت میں هے
لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسأل عن أربع: عن عمره فيما أفناه وعن جسده فيما أبلاه وعن ماله من أين اكتسبه وفيما أنفقه وعن علمه ماذا عمل به" رواه الترمذي بإسناد صحيح
3 = اپنی انجام وعاقبت کو سامنے رکهنا چائیے تاکہ انٹرنیٹ میں موجود شرور وفتن سے محفوظ رهے اور نفس اماره کو تقوی کا اور الله تعالی کے خوف کا لگام دے نفس اگر خواہش کرے کہ گانے میوزک سن لو فلم دیکهہ لو اجنبی عورتوں کی تصاویر دیکهہ لو تو نفس اماره کے اس خواهش کو دبانا چائیے
اسی میں اجر وثواب هے الله تعالی کی رضا هے اور نفس کے ناجائز خواهشات کو دبانے کے بعد ایک مومن بنده اپنے دل میں ایمان کی لذت محسوس کرتا هے
اور ایمان و یقین کےساتهہ نفس اماره کو بتانا چائیے کہ دیکهہ جو کچهہ تو کر رها هے الله تعالی اس سے خبردار هے وه سب کچهہ دیکهہ رها هے اسی طرح اس کے فرشتے کراما کا تبین تیرے ساتهہ هروقت موجود هیں جو سب کچهہ نوٹ کر رهے هیں اور مزید یہ کہ جسم کے سارے اعضاء هاتهہ آنکهہ کان وغیره بهی تیرے اچهے برے عمل پر گواه هیں اور زمین کا وه حصہ بهی انسان کے اچهے برے اعمال پر گواهی دے گا جس پر انسان کوئ بهی عمل کرتا هے
الله تعالی کا ارشاد هے ( یومئذ تحدث اخبارها ) قیامت کے دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی لهذا نفس اماره کے ناجائز خواهشات کو اس طرح دور کرے اور انٹر نیٹ میں موجود خالص نفسانی اور شیطانی مواد سے دور رهے اور ان تمام مواقع اور ویب سائٹس سے دور رهے جس میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی سامان موجود هے ٠
4 = ایک مومن مرد و عورت کے لیے اصل کمال کی بات بهی یہی هے کہ اس کے پاس گناه و معاصی کے تمام مواقع میسر هوں لیکن الله تعالی کا خوف اور اپنی آخرت کی فکر سامنے رکهہ کر وه اس گناه سے دور رهے تو یہ اصل کمال هے اور اسی پر اجر و ثواب کا وعده هے
اسی لیے مشائخ و بزرگان دین نے لکها هے کہ نامرد آدمی ولایت کے اعلی مراتب حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کو اپنے نفس کے ساتهہ وه مجاهده نہیں کرنا پڑتا جو ایک مرد اور صاحب شهوت آدمی کو کرنا پڑتا هے
لهذا انٹر نیٹ کی مثال اس طرح سمجهنی چائیے جس طرح نفس اماره هے
نفس اماره یعنی وه نفس جو بهت زیاده برائ اور گناه پر ابهارتا هے تو یہ نفس هم سب کے ساتهہ موجود هے لیکن همارا دشمن هے ایسا هی انٹر نیٹ هے جو همارے سامنے موجود هے لیکن همارا دشمن هے جس طرح نفس اماره کی پیروی نہ کرنے کا همیں حکم هے اور اس کو نیکی اور طاعت و خیر کے کاموں میں لگانے کا همیں حکم هے اسی طرح انٹر نیٹ میں جو بے پناه شرور موجود هیں اس سے بچنے کی کوشش کرے اور خیر وطاعت کے جو ذرائع و مواقع اس میں موجود هیں اس میں اپنا وقت لگا ئے تو ان شاء الله یہی چیز جس میں شر بهت زیاده هے خیر اور اجر وثواب کا باعث بن جائے گا
اور نفس اماره اور اس کے اندر موجود خواهشات ولذات کی مثال بارود کی طرح هے اور ان چیزوں کی طرح هے جس میں اشتعال اور آگ موجود هے
تو یہ مواد جتنا بهی آگ وغیره سے دور هوگا اتنا هی اچها هوگا کوئ خطره نہیں هوگا اسی طرح نفس اماره کا حال هے کہ اس کے خواهشات ولذات کو ابهارنے والی چیزوں سے جتنی دوری هوگی اتنا هی اچها هوگا اور جتنا اس کے قریب هوگا اتنا هی نقصان هوگا اور پهر عام هے کہ نفس اماره کے خواهشات کو ابهارنے والی چیزیں سننے سے تعلق رکهتی هیں یا دیکهنے اور پڑهنے سے ان سب سے بچنا اور دور رهنا ضروری هے ۰
5 = غض بصر یعنی آنکهوں کی اور اپنے نظر کی حفاظت کرنا جتنی بهی ناجائز وقبیح تصاویر اور مناظر ومواقع هیں ان سے اپنے نظر کی حفاظت کرنا اور اگر بلا قصد و اراده سامنے آجائیں تو اس پر غض بصر لازمی هے یہی الله تعالی کا حکم هے اور اسی میں راحت و سکون قلب هے آنکهہ دل کا آئینہ هے آنکهہ کو اگر آزاد چهوڑ دیا جائے تو دل کی حالت کو خراب کردیتا هے
الله تعالی کا ارشاد مبارک هے
قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم ويحفظوا فروجهم ذلك أزكى لهم إن الله خبير بما يصنعون، وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ويحفظن فروجهن] (النور ۳۰ء۳۱).
مسلمان مردوں سے کہ دیجیئے کہ نیچی رکها کریں اپنی نظروں کو اور حفاظت کریں اپنے شرمگاهوں کی یہ ان کے لیئے پاکیزه تر هے بے شک الله کو خبر هے جو یہ کرتے هیں
اور کہ دیجیئے مسلمان عورتوں سے کہ نیچی رکها کریں اپنی نظروں کو اور حفاظت کریں اپنے شرمگاهوں کی الخ
اس آیت میں الله تعالی نے آنکهوں اور شرمگاهوں کی حفاظت کو تزکیہ نفس کا اعلی و اقوی مرتبہ قرار دیا هے
کیا محرمات سے آنکهوں کی حفاظت کرنے سے انسانی صحت پر بهی کچهہ اثرات مرتب هوتے هیں ؟
ایک مسلمان کی شان تو یہ هے کہ الله و رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے مصالح و منافع کو تلاش نہیں کرنا چائیے لیکن یہ بات ذهن میں رکهنی چائیے کہ الله و رسول کے هرحکم میں بے شمار فوائد و منافع هوتی هیں
صرف آنکهوں کی حفاظت کے اس حکم کو لے لیجیے سائنسی اور طبی تحقیقات سے بهی یہ ثابت هوچکی هے کہ بدنظری کے بهت سارے نقصانات هیں جو انسانی جسم پرمرتب هوتے هیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں هے ۰
6 = انٹرنیٹ کے ذریعہ میڈیا کی جو خبریں پهیلائ جاتی هیں اس کو پڑهنے سننے کے بعد بغیر ثبوت کے نہیں پهیلانا چائیے کیونکہ اس میں کهرا کهوٹا غلط صحیح سچ جهوٹ حق باطل سب ملا هوا هے لهذا عاقل آدمی پر لازم هے اس بارے میں احتیاط کرے اور بالخصوص دین کے بارے میں جو معلومات اس میں موجود هیں تو عام آدمی کے لیئےضروری هے کہ پڑهنے کے بعد علماء حق سے اس کی توثیق کروائے اور بالخصوص فتنوں کے اس دور میں تو اس طریقہ پر عمل ضروری هے ۰
7 = فرق باطلہ کا جتنا مواد انٹرنیٹ پر موجود هے ایک عام آدمی کو اس کےپڑهنے سے اجتناب کرنا چائیے کیونکہ اهل باطل اور گمراه لوگ اپنے خیالات و نظریات کو مختلف قسم کے وساوس اور شکوک وشبهات کے ساتهہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے هیں اور عام آدمی کے پاس علم نہ هونے کی وجہ سے ان شکوک و شبهات کو قبول کرنے کا خطره هوتا هے لهذا صرف اهل حق علماء کی کتب ورسائل پڑهے اور هند و پاک میں علماء حق اور علماء ربانیین اکابر علماء دیوبند هیں اور الله تعالی کے اس ارشاد مبارک (( فاسئلوا أهل الذكر إن كتم لا تعلمون )) کے صحیح مصداق هیں لهذا دین کے معاملہ میں جو بهی راهنمائ حاصل کرنی هو تو ان اکابر علماء دیوبند کے کتب یا ان کے تلامذه و متبعین کی رجوع کریں ۰
8 = انٹرنیٹ میں موجود فتنے اور اس کا علاج
ویسے فتنے تو بهت هیں لیکن ان فتنوں کی دو بڑی قسمیں هیں
1 = شبهات کے فتنے یعنی دین میں شکوک و شبهات پیدا کرنے اور شرک وبدعت اورکفر وضلال الحاد و زندقہ کی تبلیغ و تشهیر کرنے والے لوگ وجماعتیں اور ان کا مواد تو اس ضمن میں پهلی بات تو یہ هے عام آدمی ان سے اور ان کے پهیلائے هوئے گمراه کن لٹریچرسے دور رهے اس کو نہ پڑهے اور چونکہ عام آدمی کو دین کے معاملہ حق و باطل صحیح و غلط کی تمیز نہیں هوتی لهذا ایسے لوگوں کی کوئ بهی بات دیکهنے اور پڑهنے کے بعد قبول نہ کرے بلکہ علماء حق کی رجوع کرکے ان سے معلومات حاصل کرے اور هند و پاک میں دین اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے علماء اکابر علماء دیوبند هیں لهذا ان کے کتب و تالیفات کی رجوع کرے ۰
2 = دوسرا بڑا فتنہ شهوات و لذات کا هے جو اکثر عورت ، مال ، منصب جاه ، ظلم تعدی ، وغیره سے متعلق هوتا هے اس کا علاج یہ هے کہ الله تعالی کے وعده و وعید کو سامنے رکهے اور اس کی معیت کا استحضار و یقین پیدا کرے ٠ 9 = انٹرنیٹ میں موجود تمام شرور و منکرات سے خود بهی بچنا اور دیگر مسلمانوں کو بهی اس سے بچنے کی تلقین کرنا اسی طرح انٹرنیٹ میں موجود خیر و طاعت حق و صداقت کے جتنے ذرائع و وسائل هیں ان کی تبلیغ واشاعت زبان وقلم یاکسی بهی جائز طریقہ سے کرنا باعث اجر و ثواب هے ۰
10 = لزوم مُراقبه سب سے بڑا واعظ و زاجر اور معین انٹرنیٹ سے فائده اٹهانے کے لیئے اور اس کے شرور و آفات سے بچنے اور محفوظ رهنے کے لیئے وه الله تعالی کا مُراقبہ اور اسکی معیت کا استحضار و یقین هے
کیا هی خوب فرمایا هے کسی نے
ومـَا أبـصـَرَت عينايَ أجملَ مـِن فـَتى
يـَخافُ مقام الله فى الخـَلـَوات
یعنی میری آنکهوں نے اس نوجوان سے زیاده حسین و خوبصورت کسی کو نہیں دیکها جو خلوت اور تنهائ میں الله تعالی سے ڈرتا هے
لهذا ایک عاقل آدمی پر لازم هے کہ اس معنی کو اپنے سامنے حاضر رکهے اور یہ یقین کرے کہ الله تعالی کے سامنے غیب حاضر و شاهد هے کوئ بهی چیز اس کے سامنے غیب و مخفی نہیں هے بلکہ حاضر هے اور یہ یقین کرلے کہ هر آدمی کو اس کے اعمال کے مطابق ضرور بدلہ ملے گا ۰
تلك عشرة كـــــــــاملة
وصلى الله على النبي الأمي وعلى أله وصحبه أجمعين ٠
انٹرنیٹ ایک وسیع وعریض میدان کی طرح هے جس میں ایمان اخلاق اور عقول انسانی کا امتحان هے اس میدان میں خیر کم اور شر اپنے تمام انواع و اقسام کے ساتهہ بکثرت موجود هے اور اس انٹرنیٹ کے سامنے انسان آزاد هے جیسے چاهے اپنی زبان و نظر اپنے هاتهہ کان وغیره کو استعمال کرے
لیکن ایک انسان جو صاحب ایمان هے کلمہ گو هے اپنی انجام وعاقبت کا فکرمند هے اپنے رب کی معیت و رقابت کا استحضار رکهتا هے اور اپنے دل میں یہ کامل یقین رکهتا هے کہ میرا رب میرے تمام حرکات و سکنات پر واقف و خبردار هے اور میرے پاس جو بهی ظاهری و باطنی نعمتیں موجود هیں سب میرے رب کی طرف سے ایک امانت هیں جس کو میں اپنی خواهش کے مطابق استعمال نہیں کرسکتا اور کل میں نے اپنے رب کو ذره ذره کا حساب دینا هے
توایسا انسان انٹرنیٹ کے اس میدان میں بڑی احتیاط کے قدم رکهے گا اور اس میں موجود شرور و آفات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا
انٹرنیٹ کے اندر موجود شرور و فتن سے بچنے کے لیے ایک مسلمان مرد و عورت کو چند امور کی رعایت وپابندی بہت ضروری هے
1= الله تعالی کا ارشاد مبارک هے ، يأيها الذين أمنوا لا تـتـبعوا خـُطـُوات الشيطن
اے ایمان والو شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو
شیطان بنی آدم کا سب سے بڑا دشمن هےاورهر راستے اور طریق پر انسان کو گمراه کرنے کے لیے بیٹها هے اور قرآن و حدیث میں سب سے زیاده اسی دشمن سے انسان کو ڈرایا گیا هے اور قرآن مجید کے تیس پاروں میں سے هر پاره میں اس دشمن کا ذکر صراحة ً يا اشارة ً موجود هے اور انسان کی پیدائش سے لے کر مرتے دم تک یہ دشمن انسان سے جدا نہیں هوتا اور انسان کے رگوں میں خون کی طرح چلتا هے لهذا ایک عاقل آدمی پر لازم هے کہ اس دشمن سے خبردار رهے اور پهر اس دشمن کا ساتهی اور وزیر همارا نفس اماره هے لهذا ایک مسلمان آدمی کو ان دونوں سے خبردار رهنا چائیے اور اپنی زبان ونظر و قلب کی خصوصی طور پر حفاظت کرنی چائیے
صحیح مسلم وبخاری کی روایت هے کہ
وعن سهل بن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يضمن لي ما بين لحييه وما بين رجليه أضمن له الجنة متفق عليه
آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد مبارک هے کہ جوکوئ مجهے ضمانت دے گا اس چیز کی جو دو جبڑوں کے درمیان هے ( یعنی زبان ) اور اس کی جو دو ٹانگوں کے درمیان هے ( یعنی شرمگاه ) تو میں اس کوجنت کی ضمانت دیتا هوں ۰
ترمذی شریف میں روایت هے
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من وقاه الله شر ما بين لحييه وشر ما بين رجليه دخل الجنة رواه الترمذي وقال حديث حسن
یعنی جس کو الله تعالی نے زبان و شرمگاه کی شر سے بچالیا وه جنت میں داخل هوگا ۰
اور ایک روایت میں هے کہ
وعن حذيفة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "النظرة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن تركها من خوف الله أثابه جل وعز إيمانا يجد حلاوته في قلبه " وأخرجه الحاكم في المستدرك وقال الحاكم: " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه "
آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد مبارک هے کہ انسان کی نظر ابلیس کے زهریلے تیروں میں سے ایک تیر هے جس نے اس کو غیر محرم کے دیکهنے سے بچایا تو الله تعالی اس کو ایمان کی ایسی لذت دے گا جس کی حلاوت اپنے دل میں محسوس کرے گا ۰
قرآن مجید میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام کا ذکر موجود هے اور اس فتنہ و آزمائش کا ذکر بهی موجود هے جس میں وه مبتلا هو ئے ایک جلیل القدر نبی هونے کے باوجود اپنے ایمان وعلم و شرف پر اعتماد نہیں کیا بلکہ اس فتنہ سے دوربهاگ گئے اور الله تعالی سے اس فتنہ کے شر کی پناه مانگی اور یہ فرمایا کہ اگر الله تعالی مجهہ سے اس فتنہ کو دور نہ کرتا یعنی ان عورتوں کے مکروفریب کو توفرمایا ،، أصبُ إليهن وأكن من الجاهلين ،، اور اسی سورت یوسف میں آگے فرمایا ،، وما أبرئُ نفسى إن النفس لأمـّارة بالسوء ،،
الله تعالی کے ایک جلیل القدر نبی جو کہ معصوم هیں عصمت وعفت کا لباس ان کے اوپر هے اور ایمان اخلاق تعلق مع الله وغیره تمام صفات حمیده میں اعلی درجہ کا کمال ان کو حاصل هے لیکن اس کے باوجود نفس و شیطان کے فتنوں سے پناه مانگتے هیں اور یہ اقرار کرتے هیں کہ الله تعالی کے کے فضل وکرم سے هی انسان نفس و شیطان کے مکائد سے بچ سکتا هے
تو هم اور آپ جو هر وقت گناهوں میں غرق هیں هماری کیا حالت هونی چائیے ؟
اور نفس و شیطان کے شرور سے بچنے کی کتنی فکر کرنی چا ئیے ؟
2 = وقت کا تعین کرنا چائیے یعنی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے ایک حد اور هدف مقر ر کرنا چائیے جس کے دوران اس کو استعمال کرے اگر ایسا نہیں کرے گا تو پهر وقت کا ضیاع هے کہ هر وقت اس پر بیٹها رهے اور فرائض و واجبات حقوق الله و حقوق العباد کا خیال نہ کرے تو پهر نقصان وخساره هی هے
اور یہ بات یاد رکهنی چائیے کہ همارے پاس الله تعالی کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت وقت اور زندگی کی نعمت هے اور اسی نعمت کے ذریعہ سے هی انسان اپنی دنیا و آخرت کو آباد وکامیاب بناتا هے یا برباد وناکام بناتا هے یا جنت کماتا هے یا جهنم اور وقت کی نعمت کی قدر و عظمت کو دیکهیں
الله تعالی نے قرآن مجید میں وقت اور اس کے اجزاء کی قسم اٹهائ هے
فرمایا ( والعصر ) قسم هے زمانے کی یا عصر کے وقت کی ( والفجر) قسم هے فجر کے وقت کی ( والشمس وضحاها ) قسم هے سورج کی اور اس کے دهوپ کی ( والقمر اذا تلاها ) اور قسم هے چاند کی جب کہ وه سورج کے پیچهے آئے ( والنهار اذا جَلا ّها ) اور قسم هے دن کی جب وه سورج کو نمایاں کرے ( واللیل اذا یغشاها ) اور قسم هے رات کی جب وه سورج کو چهپا لے
( والسماء وما بناها ) اور آسمان کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو بنایا
( والارض وما طحاها ) اور زمین کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو بچهایا ( ونفس وما سواها ) اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو درست بنایا ( فألهمها فـُجـُورَهـَا وَتـَقواهـَا ) پهر اس کو سمجها دی اس کی بدکاری اور اس کی پرهیزگاری ( قد أفلـَحَ مـَن زَكـّاهـا ) وه مراد کو پہنچا جس نے نفس کو سنوارا ( وقد خابَ مَن دَسّاها ) اور گهاٹے میں رها جس نےاس کو خاک میں ملایا ۰ ان آیات مبارکہ میں الله تعالی نے انتهائ واضح طور پر وقت کی اهمیت و قدر قیمت کو بیان کیا هے اور انتهائ واضح اشاره هے ان آیات میں کہ وقت هی اصل ماده حیات اور قیمتی ترین متاع هے
اور اسی طرح احادیث کثیره میں وقت کی اهمیت اور اس کے صحیح استعمال بڑی تاکید کی گئ هے ایک حدیث میں هے کہ
عن ابن عباس ـ رضي الله عنهما ـ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس : الصحة والفراغ ) رواه البخاري
دو نعمتیں ایسی هیں جس میں بهت سارے لوگ مَغبُون هیں یعنی مغلوب هیں اور وه صحت اور فراغت هے
بعض علماء نے کها کہ مَغبُون اس آدمی کو کہتے هیں جو انتهائ چیز کو ایک ادنی چیز کے بدلے فروخت کردے
اور انسان سے قیامت کے دن وقت اور عمر کے بارے میں سوال هو گا جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت میں هے
لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسأل عن أربع: عن عمره فيما أفناه وعن جسده فيما أبلاه وعن ماله من أين اكتسبه وفيما أنفقه وعن علمه ماذا عمل به" رواه الترمذي بإسناد صحيح
3 = اپنی انجام وعاقبت کو سامنے رکهنا چائیے تاکہ انٹرنیٹ میں موجود شرور وفتن سے محفوظ رهے اور نفس اماره کو تقوی کا اور الله تعالی کے خوف کا لگام دے نفس اگر خواہش کرے کہ گانے میوزک سن لو فلم دیکهہ لو اجنبی عورتوں کی تصاویر دیکهہ لو تو نفس اماره کے اس خواهش کو دبانا چائیے
اسی میں اجر وثواب هے الله تعالی کی رضا هے اور نفس کے ناجائز خواهشات کو دبانے کے بعد ایک مومن بنده اپنے دل میں ایمان کی لذت محسوس کرتا هے
اور ایمان و یقین کےساتهہ نفس اماره کو بتانا چائیے کہ دیکهہ جو کچهہ تو کر رها هے الله تعالی اس سے خبردار هے وه سب کچهہ دیکهہ رها هے اسی طرح اس کے فرشتے کراما کا تبین تیرے ساتهہ هروقت موجود هیں جو سب کچهہ نوٹ کر رهے هیں اور مزید یہ کہ جسم کے سارے اعضاء هاتهہ آنکهہ کان وغیره بهی تیرے اچهے برے عمل پر گواه هیں اور زمین کا وه حصہ بهی انسان کے اچهے برے اعمال پر گواهی دے گا جس پر انسان کوئ بهی عمل کرتا هے
الله تعالی کا ارشاد هے ( یومئذ تحدث اخبارها ) قیامت کے دن زمین اپنی خبریں بیان کرے گی لهذا نفس اماره کے ناجائز خواهشات کو اس طرح دور کرے اور انٹر نیٹ میں موجود خالص نفسانی اور شیطانی مواد سے دور رهے اور ان تمام مواقع اور ویب سائٹس سے دور رهے جس میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی سامان موجود هے ٠
4 = ایک مومن مرد و عورت کے لیے اصل کمال کی بات بهی یہی هے کہ اس کے پاس گناه و معاصی کے تمام مواقع میسر هوں لیکن الله تعالی کا خوف اور اپنی آخرت کی فکر سامنے رکهہ کر وه اس گناه سے دور رهے تو یہ اصل کمال هے اور اسی پر اجر و ثواب کا وعده هے
اسی لیے مشائخ و بزرگان دین نے لکها هے کہ نامرد آدمی ولایت کے اعلی مراتب حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اس کو اپنے نفس کے ساتهہ وه مجاهده نہیں کرنا پڑتا جو ایک مرد اور صاحب شهوت آدمی کو کرنا پڑتا هے
لهذا انٹر نیٹ کی مثال اس طرح سمجهنی چائیے جس طرح نفس اماره هے
نفس اماره یعنی وه نفس جو بهت زیاده برائ اور گناه پر ابهارتا هے تو یہ نفس هم سب کے ساتهہ موجود هے لیکن همارا دشمن هے ایسا هی انٹر نیٹ هے جو همارے سامنے موجود هے لیکن همارا دشمن هے جس طرح نفس اماره کی پیروی نہ کرنے کا همیں حکم هے اور اس کو نیکی اور طاعت و خیر کے کاموں میں لگانے کا همیں حکم هے اسی طرح انٹر نیٹ میں جو بے پناه شرور موجود هیں اس سے بچنے کی کوشش کرے اور خیر وطاعت کے جو ذرائع و مواقع اس میں موجود هیں اس میں اپنا وقت لگا ئے تو ان شاء الله یہی چیز جس میں شر بهت زیاده هے خیر اور اجر وثواب کا باعث بن جائے گا
اور نفس اماره اور اس کے اندر موجود خواهشات ولذات کی مثال بارود کی طرح هے اور ان چیزوں کی طرح هے جس میں اشتعال اور آگ موجود هے
تو یہ مواد جتنا بهی آگ وغیره سے دور هوگا اتنا هی اچها هوگا کوئ خطره نہیں هوگا اسی طرح نفس اماره کا حال هے کہ اس کے خواهشات ولذات کو ابهارنے والی چیزوں سے جتنی دوری هوگی اتنا هی اچها هوگا اور جتنا اس کے قریب هوگا اتنا هی نقصان هوگا اور پهر عام هے کہ نفس اماره کے خواهشات کو ابهارنے والی چیزیں سننے سے تعلق رکهتی هیں یا دیکهنے اور پڑهنے سے ان سب سے بچنا اور دور رهنا ضروری هے ۰
5 = غض بصر یعنی آنکهوں کی اور اپنے نظر کی حفاظت کرنا جتنی بهی ناجائز وقبیح تصاویر اور مناظر ومواقع هیں ان سے اپنے نظر کی حفاظت کرنا اور اگر بلا قصد و اراده سامنے آجائیں تو اس پر غض بصر لازمی هے یہی الله تعالی کا حکم هے اور اسی میں راحت و سکون قلب هے آنکهہ دل کا آئینہ هے آنکهہ کو اگر آزاد چهوڑ دیا جائے تو دل کی حالت کو خراب کردیتا هے
الله تعالی کا ارشاد مبارک هے
قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم ويحفظوا فروجهم ذلك أزكى لهم إن الله خبير بما يصنعون، وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن ويحفظن فروجهن] (النور ۳۰ء۳۱).
مسلمان مردوں سے کہ دیجیئے کہ نیچی رکها کریں اپنی نظروں کو اور حفاظت کریں اپنے شرمگاهوں کی یہ ان کے لیئے پاکیزه تر هے بے شک الله کو خبر هے جو یہ کرتے هیں
اور کہ دیجیئے مسلمان عورتوں سے کہ نیچی رکها کریں اپنی نظروں کو اور حفاظت کریں اپنے شرمگاهوں کی الخ
اس آیت میں الله تعالی نے آنکهوں اور شرمگاهوں کی حفاظت کو تزکیہ نفس کا اعلی و اقوی مرتبہ قرار دیا هے
کیا محرمات سے آنکهوں کی حفاظت کرنے سے انسانی صحت پر بهی کچهہ اثرات مرتب هوتے هیں ؟
ایک مسلمان کی شان تو یہ هے کہ الله و رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردے مصالح و منافع کو تلاش نہیں کرنا چائیے لیکن یہ بات ذهن میں رکهنی چائیے کہ الله و رسول کے هرحکم میں بے شمار فوائد و منافع هوتی هیں
صرف آنکهوں کی حفاظت کے اس حکم کو لے لیجیے سائنسی اور طبی تحقیقات سے بهی یہ ثابت هوچکی هے کہ بدنظری کے بهت سارے نقصانات هیں جو انسانی جسم پرمرتب هوتے هیں جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں هے ۰
6 = انٹرنیٹ کے ذریعہ میڈیا کی جو خبریں پهیلائ جاتی هیں اس کو پڑهنے سننے کے بعد بغیر ثبوت کے نہیں پهیلانا چائیے کیونکہ اس میں کهرا کهوٹا غلط صحیح سچ جهوٹ حق باطل سب ملا هوا هے لهذا عاقل آدمی پر لازم هے اس بارے میں احتیاط کرے اور بالخصوص دین کے بارے میں جو معلومات اس میں موجود هیں تو عام آدمی کے لیئےضروری هے کہ پڑهنے کے بعد علماء حق سے اس کی توثیق کروائے اور بالخصوص فتنوں کے اس دور میں تو اس طریقہ پر عمل ضروری هے ۰
7 = فرق باطلہ کا جتنا مواد انٹرنیٹ پر موجود هے ایک عام آدمی کو اس کےپڑهنے سے اجتناب کرنا چائیے کیونکہ اهل باطل اور گمراه لوگ اپنے خیالات و نظریات کو مختلف قسم کے وساوس اور شکوک وشبهات کے ساتهہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے هیں اور عام آدمی کے پاس علم نہ هونے کی وجہ سے ان شکوک و شبهات کو قبول کرنے کا خطره هوتا هے لهذا صرف اهل حق علماء کی کتب ورسائل پڑهے اور هند و پاک میں علماء حق اور علماء ربانیین اکابر علماء دیوبند هیں اور الله تعالی کے اس ارشاد مبارک (( فاسئلوا أهل الذكر إن كتم لا تعلمون )) کے صحیح مصداق هیں لهذا دین کے معاملہ میں جو بهی راهنمائ حاصل کرنی هو تو ان اکابر علماء دیوبند کے کتب یا ان کے تلامذه و متبعین کی رجوع کریں ۰
8 = انٹرنیٹ میں موجود فتنے اور اس کا علاج
ویسے فتنے تو بهت هیں لیکن ان فتنوں کی دو بڑی قسمیں هیں
1 = شبهات کے فتنے یعنی دین میں شکوک و شبهات پیدا کرنے اور شرک وبدعت اورکفر وضلال الحاد و زندقہ کی تبلیغ و تشهیر کرنے والے لوگ وجماعتیں اور ان کا مواد تو اس ضمن میں پهلی بات تو یہ هے عام آدمی ان سے اور ان کے پهیلائے هوئے گمراه کن لٹریچرسے دور رهے اس کو نہ پڑهے اور چونکہ عام آدمی کو دین کے معاملہ حق و باطل صحیح و غلط کی تمیز نہیں هوتی لهذا ایسے لوگوں کی کوئ بهی بات دیکهنے اور پڑهنے کے بعد قبول نہ کرے بلکہ علماء حق کی رجوع کرکے ان سے معلومات حاصل کرے اور هند و پاک میں دین اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والے علماء اکابر علماء دیوبند هیں لهذا ان کے کتب و تالیفات کی رجوع کرے ۰
2 = دوسرا بڑا فتنہ شهوات و لذات کا هے جو اکثر عورت ، مال ، منصب جاه ، ظلم تعدی ، وغیره سے متعلق هوتا هے اس کا علاج یہ هے کہ الله تعالی کے وعده و وعید کو سامنے رکهے اور اس کی معیت کا استحضار و یقین پیدا کرے ٠ 9 = انٹرنیٹ میں موجود تمام شرور و منکرات سے خود بهی بچنا اور دیگر مسلمانوں کو بهی اس سے بچنے کی تلقین کرنا اسی طرح انٹرنیٹ میں موجود خیر و طاعت حق و صداقت کے جتنے ذرائع و وسائل هیں ان کی تبلیغ واشاعت زبان وقلم یاکسی بهی جائز طریقہ سے کرنا باعث اجر و ثواب هے ۰
10 = لزوم مُراقبه سب سے بڑا واعظ و زاجر اور معین انٹرنیٹ سے فائده اٹهانے کے لیئے اور اس کے شرور و آفات سے بچنے اور محفوظ رهنے کے لیئے وه الله تعالی کا مُراقبہ اور اسکی معیت کا استحضار و یقین هے
کیا هی خوب فرمایا هے کسی نے
ومـَا أبـصـَرَت عينايَ أجملَ مـِن فـَتى
يـَخافُ مقام الله فى الخـَلـَوات
یعنی میری آنکهوں نے اس نوجوان سے زیاده حسین و خوبصورت کسی کو نہیں دیکها جو خلوت اور تنهائ میں الله تعالی سے ڈرتا هے
لهذا ایک عاقل آدمی پر لازم هے کہ اس معنی کو اپنے سامنے حاضر رکهے اور یہ یقین کرے کہ الله تعالی کے سامنے غیب حاضر و شاهد هے کوئ بهی چیز اس کے سامنے غیب و مخفی نہیں هے بلکہ حاضر هے اور یہ یقین کرلے کہ هر آدمی کو اس کے اعمال کے مطابق ضرور بدلہ ملے گا ۰
تلك عشرة كـــــــــاملة
وصلى الله على النبي الأمي وعلى أله وصحبه أجمعين ٠