[h=1]انسان جنت سے کیسے نکالا گیا؟ ایک سبق آموز واقعہ[/h]
مبشر احمد عباسی
اچانک کار نصیر صاحب کے جسم سے ٹکرائی اور وہ کئی فٹ دور اچھل کر گرے۔ اس کے بعد ان کا دماغ تاریکی میں ڈوبتا گیا۔ ارد گرد بھیڑ اکھٹی ہوتی چلی گئی ۔ انکے سر سے خون کافی مقدار میں بہہ چکا تھا اور بچنے کے امکانات کم تھے۔ بہر حال کار والے نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے لوگوں کی مدد سے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال پہنچادیا۔ کچھ دیر بعد نصیر صاحب کے گھر والے بھی جمع ہوگئے ۔
سر کی چوٹ گہری ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر نے نصیر صاحب کی بیوی سے کہا
ڈاکٹر صاحب! نصیر بچ تو جائیں گے نا؟ بیوی نے گھگیائی ہوئی آواز میں پوچھا
ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔۔ ڈاکٹر نے لا پرواہی سے جواب دیا اور برابر کھڑے ایک ساتھی سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔
**
آپریشن تھیٹر میں ایک ایمرجنسی کی کیفیت تھی۔ ہلکے نیلے رنگ کے گاؤن پہنے ہوئے اور منہہ چھپائے ڈاکٹر اور نرسیں تیزی سے اوزار کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ تھیٹر کے اوزار ، مشینیں اور سرچ لائیٹیں بھیانک سا منظر پیش کررہی تھیں۔ نصیر صاحب کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ساکت لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔
شاید اسے ہوش آرہا ہے۔ اسے جلدی بے ہوش کرو ۔ اسے دیکھ کر ایک ڈاکٹر بولا۔
بے ہوشی کا انجکشن لگادیا گیا ، اور نصیر صاحب کے دماغ میں روشن ہوتی چند شمعیں لو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئیں۔ لیکن بے ہوشی کا انجکشن اس کے لاشعور کو سلانے میں ناکام تھا۔ نصیر صاحب کے لاشعور میں ماضی کی فلم چلنے لگی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ سرکاری دفتر میں اپنی انیس گریڈ کی کرسی پر براجمان ہیں، سامنے ایک شخص بیٹھا ان سے مخاطب ہے۔
بھائی میرے ! یہ مذہب وذہب، حرام اور حلا ل سب پرانی باتیں ہیں، زمانے کے ساتھ چلو، اگر آج تم نے اوپر کا مال کمایا ہوتا تو بنگلے ،گاڑیاں،خدام اور نہ جانے کیا کیا تمہاری جھولی میں ہوتا ۔ لیکن تم ہو کہ وہی ۱۲۰ گز کے مکان میں خود کو اور بیوی بچوں کو سسکا رہے ہو۔ وہ شخص اپنی مکار آواز میں بولا۔
نصیر صاحب سے اس کی ملاقات پہلی نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بھی وہ اس سے مل چکا تھا۔ پہلے تو وہ اس کی باتوں پر چراغ پا ہوجایا کرتے تھے، لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا۔ انہیں اپنی بیوی کے کینسر کا علاج کروانے کے لئے ایک بڑی رقم درکار تھی لیکن نہ تو یہ رقم ان کے پاس موجود تھی اور نہ کوئی ادھار دینے کو تیار تھا۔
اب بھی وقت ہے ، میری بات مان لو۔ بس کچھ بھی نہیں کرنا ہے،اس بل پر سائن کرنے ہیں اور پیسے تمہارے ۔تمہاری بیوی کا علاج بھی ہوجائے گا ہمارا کام بھی۔ وہ شخص نصیر صاحب کو شش و پنج میں دیکھ کر بولا
نصیر صاحب اسی گومگو کیفیت میں تھے۔ وہ شخص آہستہ آہستہ انہیں رام کرتا رہا۔
ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ لیکن میں دستخط آج نہیں بلکہ کل کروں گا یہ کہہ کر نصیر صاحب اٹھ گئے اور دفتر سے باہر نکل آئے۔ ان دماغ میں ایک بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ ایک طرف بیوی کی زندگی اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی ۔ وہ اس کیفیت میں روڈ کے اس پار جانے کی کوشش کررہے تھے کہ کار کی ٹکرنے انہیں آپریشن تھیٹر پہنچادیا۔
**
آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ سی ٹی اسکین کی رپورٹ کے مطابق دماغ میں خون جمع ہوا تھا۔ نصیر صاحب کا ساکت وجود ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر تھا۔سرجن نصیر صاحب کے سر کو اوزار سے چھلنی کرنے میں مصروف تھا لیکن وہ انکے لاشعور میں چلنے والے مناظر سے بے خبر تھا۔
نصیر صاحب کے لاشعور میں کچھ عجیب و غریب کروڑوں سال پرانی باتیں آنے لگیں۔یہ شاید وہ دور تھا جب انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا گیا تھا البتہ فرشتے اور جنات وجود میں آچکے تھے۔ پھر خدا نے آدم کی تخلیق کی اور ساتھ ہی اس نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو اپنے منصوبے سے آگاہ کردیا کہ وہ دنیا میں انسانوں کو آزمائش کی غرض سے بھیجنے والا ہے۔انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ یعنی ایک بااختیار مخلوق ہوگا۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر خدا نے فرشتوں کے اعتراض کو دور رکنے کے لئے آدم کو ان لوگوں کے نام سکھادئے جو اس اختیار کے باوجودانبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہونگے اور یہ لوگ اپنی جان جونکھوں میں ڈال کر بھی بندگی کے تقاضے پورے کریں گے ۔یہ دنیا کی سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے ۔ باقی جو جھاڑ پھونس ہے اس کا مقدر جہنم کا ایندھن ہے کیونکہ وہ اپنے منتخب کردہ امتحان میں ناکام ہیں۔
جب فرشتوں کو اپنی لا علمی کا اندازہ ہوا تو وہ سر نگوں ہوگئے۔
اس کے بعد خدافرشتوں اور اس ذیل کی دیگر مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ سب آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔
اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ انسان دنیا میں ایک محدود معنوں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت کا حامل گا ۔وہ خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ خود منتخب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو اس کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم ہوگا ۔
یہ حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ اس قبیل کی دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔یہ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم میں بغاوت کا اعلان تھا ۔
او مردود !تونے کیوں سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا۔
خدا کی غضب ناک آواز گونجی۔
میں اس انسان سے بہتر ہوں۔میں آگ اور یہ مٹی۔ بھلا میں اس کو کیوں سجدہ کرنے لگا۔ عزازیل اپنی مکروہ آواز میں بولا۔
تو پھر تو آج سے مردود اور ابلیس ہے ، تو میری بارگاہ سے نکل جا۔ بے شک تو تو انتہائی چھوٹے اور پست لوگوں میں سے ہے؟
خدا نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
شیطان اس عزت افزائی پر بلبلا اٹھا اور چیلنج کے طور پر بولا۔
اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کی گفتگو، میل جول، لباس، تمدن و تہذیب غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤنگا تاکہ انہیں تیری بندگی سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے۔
خدا نے شیطا ن کی بات سن جواب دیا۔
جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا۔
پھر خدا نے آدم اور انکی بیوی حوا کو ایک عارضی جنت میں رکھا تاکہ دنیا میں پیش آنے والے امتحان کی نوعیت سے آگاہ کرسکے۔خدا نے دونوںکو بتایا کہ وہ جہاں چاہے رہیں اور جو چاہیں کھائیں پئیں البتہ وہ ایک مخصوص درخت کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہیں وہ ممنوعہ پھل کو نہ کھالیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتادیا گیا کہ شیطان انہیں ورغلانے کی کوشش کرے گا۔
**
آدم اور انکی بیوی حوا جنت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ جنت میں چار سو ایک صبح کاذب سا اجالا تھا۔ موسم معتدل اور ماحول انتہائی سازگار۔ ہر طرف ہریالی ۔ ساتھ ہی پانی کی نہریں بہہ رہی اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ جب دونوں کو کسی پھل کی خواہش ہوتی تو درخت کی ڈالی جھک جاتی اور وہ اپنی خواہش کے مطابق پھل توڑ کر کھالیتے۔ دور انہیں وہ جگہ بھی نظر آتی جہاں ممنوعہ درخت موجود تھا ۔ وہ درخت ایک دور وادی میں تھا۔ اس وادی کی حدود ایک سیاہی مائل پانی کے چشمے سے شروع ہوتی تھی۔ دونوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس چشمے کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کہ کہیں خدا کی نافرمانی سرزد نہ ہوجائے۔
ایک دن ان کے پاس ایک اجنبی آیا اور آکر بولا۔
یہ کیا تم دونوں یکسانیت سے بھرپور ایک بور زندگی گذار رہے ہو؟۔
آدم نے تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھا اور بولے۔
بھائی تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟
یہ چھوڑو کہ میں کون ہوں۔ اجنبی بولا
اگر تم کچھ تبدیلی چاہتے ہو تو بتاؤ۔
دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر آدم بولے۔
بھائی ہمیں ہمارے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ہم خوش ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔
اجنبی مایوسی کے عالم میں چلا گیا۔
دوسرے دن وہ اجنبی دوبارہ نظر آیا۔ اس دن وہ کافی پرجوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ نزدیک آیا اور بولا۔
بھائی میں آپ لوگوں کے لئے ایک خاص خبر لایا ہوں۔
وہ کیا؟ آدم بولے
میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا تھا کہ اچانک دو فرشتے آپس میں بات کررہے تھے۔ اجنبی نے سرگوشی کے انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ کالے چشمے کے اس پار ایک وادی ہے۔ اس وادی میں کچھ ایسے پھل ہیں جن کی تاثیر ان پھلوں سے جدا ہے، اس وادی کا حسن اس جگہ سے زیادہ ہے، وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور وہاں زندگی کا رنگ بالکل ہی نرالا ہے۔
آدم پر تجسس نگاہوں سے اجنبی کو دیکھنے لگے۔ اجنبی نے تیر نشانے پر لگتے ہوئے دیکھ کر مزید کہا۔
ایک اور اہم بات ۔ اور یہ بات میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں کیوں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔وہ یہ کہ اس جگہ پر ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل کھانے سے انسان کو ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ تو فرشتہ بن جاتا ہے۔ بہر حال اب میں چلتا ہوں، اگر کوئی مزید خبر ملی تو کل بتاؤ ں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلتا بنا۔
ساری رات آدم اور انکی بیوی اجنبی کی باتوں میں سوچتے رہے۔ وہ اسی شش وپنج میں گرفتار تھے کہ اس کالے چشمے والی حد کو پار کرکے اس وادی میں جانا ہے یا نہیں۔ دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وادی میں چلتے ہیں کیونکہ خدا نے ادھر جانے سے تو منع نہیں کیا البتہ وہ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ دوسری صبح وہ اس اجنبی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔جب وہ نظر آیا تو اس نےگذشتہ ملاقاتوں کے برعکس لا تعلقی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں مایوس ہوگئے کہ شاید اس کی نیت بدل گئی۔ چنانچہ وہ واپس جانے لگے۔ اجنبی نے جب بازی پلٹتی دیکھی تو ان دونوں کے پیچھے بھاگا اور بولا۔
بھائی اگر تم دونوں اپنا فیصلہ کرہی چکے ہو تو آؤ میں تمہیں اس حسین وادی میں لے چلوں۔چنانچہ وہ ان دونوں کو لے کر کالے چشمے کےاس پار لے آیا۔ آدم اور انکی بیوی وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جوں جوں وہ اس وادی داخل ہوتے گئے انکا خوف مسرت میں تبدیل ہوتا گیا۔ اجنبی مسکراتا ہواان کے پاس آیا اور بولا۔
میں نہ کہتا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔تم خواہ مخواہ مجھے مشکوک انداز میں دیکھ رہے تھے۔ اب یہاں کھاؤ پیو عیش کرو۔۔
چند دن گذارنے کے بعد اجنبی ان دونوں کے پاس آیا اور بولا۔
بھائی یہ عیش کی زندگی گذارلو کیونکہ تمہارے اس چند ہی دن ہیں۔
وہ کیوں۔
آدم نے استفسار کیا
وہ اس لئے کہ تم نے ہمیشگی کی زندگی والا پھل نہیں چکھا۔ اگر تم وہ کھالو تو تم فرشے بھی بن سکتے ہو۔ پھر خدا کے مزید قریب ہوجاؤگے اور اس جنت میں بلا روک ٹوک جہاں چاہوگے گھوم پھر سکوگے۔ اجنبی بولا۔
تم چاہتے ہو کہ ہم اس ممنوعہ درخت کا پھل کھائیں جس سے ہمارے رب نے منع فرمایا ہے؟۔ آدم نے پوچھا۔
بھائی تم جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے غفور اور رحیم ہیں۔ اورمیں یہ تھوڑا ہی چاہتا ہوں کہ تم پورا ہی وہ پھل کھالو ۔ بس تھوڑا سا چکھ لو ۔ اگر خدا نے ناراضگی کا اظہار کیا تو پھینک دینا۔ اور ویسے بھی اس کو کھانے کے بعد تم ایسےفرشتے بن جاؤ گے جسے خدا کا قرب حاصل ہوگا تو فکر کیسی؟۔ اجنبی گھاگ انداز میں بولا
بہرحال آدم اور حو ا کا اطمینان قلب نہ ہوا۔ وہ رات ان دونوں نے بحث و مباحثے میں گذاری۔ اگلی صبح پھر اجنبی کا آمنا سامنا ہوا۔اجنبی نے دونوں کو شش و پنج کے عالم میں دیکھ کر خوش ہوا لیکن اپنی خوشی کوان سے چھپاکر لاپرواہی کا اظہار کرنے لگا۔ جب دونوں نے کچھ نہ کہا تو خود ہی بولا۔
کل میں نے ایک فرشتے سے پوچھا کہ وہ کس طرح فرشتہ بنا تو معلوم اس نے کیا جواب دیا؟
جب دونوں خاموشی سے اس کی جانب دیکھتے رہے تو خود ہی بولا۔
اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اس درخت کا پھل کھایا تھا۔ تو اب وہ فرشتہ بھی ہےاور اسے موت بھی نہیں آئے گی۔
لیکن اس پھل میں تو خدا کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ آدم احتجاج کے انداز میں بولے
ارے بھائی ! اتنے چھوٹے موٹے گناہوں پر بھی کوئی گرفت تھوڑی ہوتی ہے۔ بس پھل ہی تو کھانا ہے اور بس۔
اجنبی نے جواب دیا۔
باتوں باتوں میں دونوں کو اندازہ بھی نہ ہوا کہ اجنبی انہیں اس ممنوعہ درخت کے قریب لے آیا ہے۔دونوں نے جب پھل کو اتنے قریب دیکھا اور اجنبی کی متاثر کن باتیں سنیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکے اور درخت کا پھل کھالیا۔ پھل کھاتے ہی ماحول بدل گیا۔ ارد گرد کا نیلگوں آسمان سیاہی مائل ہوگیا، سبزہ کاہی میں بدل گیا اور سبز پتے سوکھ کر خش و خاشاک کی طرح اڑنے لگے۔ دونوں کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ جنت کی پوشاک ان سے چھینی جاچکی ہے۔ چنانچہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔ انہوں نے اس مشکل صورت حال میں جب اجنبی کو تلاش کیا تو وہ دور کھڑا نظر آیا۔ اسکی معصوم صورت کریہہ شکل میں بدل چکی تھی اور اسکے دانت بھیڑئے کے دانتوں جیسے ہوچلے تھے۔ وہ اجنبی نزدیک آیا اور بولا۔
میں شیطان ہوں۔ میں نے خدا کو چیلنج کیا تھا کہ میں اس انسان کو تیری بندگی اور جنت سے دور رکھ کر چھوڑوں گا۔ آج یہ میرا پہلا حملہ ہے۔ میری ساری باتیں جھوٹی اور سارے وعدے فریب تھے۔ نہ یہ درخت فرشتہ بناتا ہے اور نہ ہی یہ ہمیشگی کی زندگی عطا کرتا ہے۔اب بھگتو ! اس کی سزا جو تم نے عمل کیا۔
**
آدم و حوا کے یہ سن کر اوسان خطا ہوگئے کہ وہی شیطان تھا جس سے بچ کر رہنے کا خدا نے حکم دیا تھا اور وہ اسی دشمن کی باتوں میں آگئے ۔ دونوں کو احسا س ہوا کہ جذبات میں آکر وہ جو قدم اٹھا چکے ہیں اس سے وہ خدا کی فراہم کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک بے بسی طاری تھی۔ رات میں جگمگاتے تارے کہیں گم ہوچکے تھے، وہ چہچہاتے پرندے دور ہوکر خاموش ہوگئے تھے، سب جھرنے اور آبشار خشک ہوچلے تھے۔ غرض ہر شے دونوں سے برات کا اعلان کرہی تھی کیونکہ وہ خدا کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے۔
اس یاسیت اور اندوہ ناک غم میں دونوں کی روتے روتے آنکھیں خشک ہوگئی تھیں۔ انہیں جنت کی نعمتوں کے چھن جانے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا اپنے پیارے اور محسن رب کی ناراضگی کا۔ جس نے وجود دیا، اس کے تقاضے پیدا کئے، ان تقاضوں کو احسان کے درجے میں پورا کیا پھر نت نئے رنگ دے کر زندگی کا سامان کیا ، آج سی کو فراموش کردیا، اسی کی بات کو رد کردیا ، آج اسی کے دشمن کی بات مان لی۔ یہ احساس دونوں کو مارے ڈال رہا تھا۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ان کے رب نے انہیں پکارا۔
کیا میں نے تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کے قریب مت پھٹکنا اور اچھی طرح سمجھادیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ پھر یہ نافرمانی کیوں؟
دونوں روتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ اور گڑگڑا کر دعا مانگے لگے۔
اے رب ! بے شک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہماری حالت زار پر رحم نہ کیا تو ہم تو ابدی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
ایک نافرمانی شیطان نے بھی کی تھی لیکن جب خدا نے اسے اسکی غلطی کا احساس دلایا تو بجائے اپنی غلطی ماننے کے اس نے خدا ہی کو مورود الزام ٹہرادیا اور سرکشی دکھائی۔ لیکن آدم و حوا نے اس کے برعکس رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خود کو مورود الزام ٹہرایا اور خدا سامنے جھک کر معافی اور رحم کا مطالبہ کیا اور توبہ کے ذریعے اپنی اصلاح کی پیش کش کی۔خدا نے دونوں کو معاف کردیا کیونکہ وہ واقعی غفور یعنی ڈھانپ لینے والا ہے اور انتہائی شفیق اور مہربان ہے۔
**
پھر منظر بدلا اور خدا آدم سے مخاطب ہوا
اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ تمہیں ایک مقررہ مدت امتحان تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے آخرت کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس سے بچ کر رہنا۔میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروری کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا ۔یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میرابندہ ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا۔
**
آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ سرجن نصیر صاحب کے سر میں آخری ٹانکے لگا رہا تھا۔ باہر ان کی بیوی اور بچے بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ یہ چند گھنٹے ان کے لئے صدیا ں بن گئے تھے۔اچانک دور انہیں ایک ڈاکٹر تھیٹر سے باہر نکلتا نظر آیا۔ سب اسکی جانب بے تابی سے لپکے۔
ڈاکٹر صاحب کیا ہوا! بیگم نصیر نے پوچھا
آپریشن کامیاب ہوگیا ہے، آپ کو مبارک ہو! بس چند گھنٹوں بعد انہیں ہوش آجائے گا۔ڈاکٹر نے جواب دیا
ہوش میں آنے کے بعد نصیر صاحب کی آنکھیں کھلیں تو ابتدا میں تو وہ کچھ دیکھنے سے قاصر رہے۔ جب آنکھیں اس اجالے کی عادی ہوئیں تو دیکھا کہ انکے بیوی بچے ان پر جھکے ہوئے تھے۔
انہوں نے اپنی بیوی کو دیکھا اور انکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنی اہلیہ کی بیماری کے بارے میں سوچنے لگے۔اسی اثناء کہ شیطان پھر حملہ آور ہوا اور ورغلانے لگا۔ لیکن نصیر صاحب کی روح جو سفر طے کرکے آرہی تھی اس سبق یہی تھا کہ رب کی رضا کے لئے بڑے سے بڑا نقصان گوارا ہے۔ چنانچہ وہ شیطان سے مخاطب ہوئے۔
مجھے اپنی بیوی کی موت گوارا ہے لیکن تیری اطاعت منظور نہیں۔
مبشر احمد عباسی
اچانک کار نصیر صاحب کے جسم سے ٹکرائی اور وہ کئی فٹ دور اچھل کر گرے۔ اس کے بعد ان کا دماغ تاریکی میں ڈوبتا گیا۔ ارد گرد بھیڑ اکھٹی ہوتی چلی گئی ۔ انکے سر سے خون کافی مقدار میں بہہ چکا تھا اور بچنے کے امکانات کم تھے۔ بہر حال کار والے نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے لوگوں کی مدد سے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال پہنچادیا۔ کچھ دیر بعد نصیر صاحب کے گھر والے بھی جمع ہوگئے ۔
سر کی چوٹ گہری ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر نے نصیر صاحب کی بیوی سے کہا
ڈاکٹر صاحب! نصیر بچ تو جائیں گے نا؟ بیوی نے گھگیائی ہوئی آواز میں پوچھا
ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔۔ ڈاکٹر نے لا پرواہی سے جواب دیا اور برابر کھڑے ایک ساتھی سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔
**
آپریشن تھیٹر میں ایک ایمرجنسی کی کیفیت تھی۔ ہلکے نیلے رنگ کے گاؤن پہنے ہوئے اور منہہ چھپائے ڈاکٹر اور نرسیں تیزی سے اوزار کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ تھیٹر کے اوزار ، مشینیں اور سرچ لائیٹیں بھیانک سا منظر پیش کررہی تھیں۔ نصیر صاحب کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ساکت لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔
شاید اسے ہوش آرہا ہے۔ اسے جلدی بے ہوش کرو ۔ اسے دیکھ کر ایک ڈاکٹر بولا۔
بے ہوشی کا انجکشن لگادیا گیا ، اور نصیر صاحب کے دماغ میں روشن ہوتی چند شمعیں لو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئیں۔ لیکن بے ہوشی کا انجکشن اس کے لاشعور کو سلانے میں ناکام تھا۔ نصیر صاحب کے لاشعور میں ماضی کی فلم چلنے لگی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ سرکاری دفتر میں اپنی انیس گریڈ کی کرسی پر براجمان ہیں، سامنے ایک شخص بیٹھا ان سے مخاطب ہے۔
بھائی میرے ! یہ مذہب وذہب، حرام اور حلا ل سب پرانی باتیں ہیں، زمانے کے ساتھ چلو، اگر آج تم نے اوپر کا مال کمایا ہوتا تو بنگلے ،گاڑیاں،خدام اور نہ جانے کیا کیا تمہاری جھولی میں ہوتا ۔ لیکن تم ہو کہ وہی ۱۲۰ گز کے مکان میں خود کو اور بیوی بچوں کو سسکا رہے ہو۔ وہ شخص اپنی مکار آواز میں بولا۔
نصیر صاحب سے اس کی ملاقات پہلی نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بھی وہ اس سے مل چکا تھا۔ پہلے تو وہ اس کی باتوں پر چراغ پا ہوجایا کرتے تھے، لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا۔ انہیں اپنی بیوی کے کینسر کا علاج کروانے کے لئے ایک بڑی رقم درکار تھی لیکن نہ تو یہ رقم ان کے پاس موجود تھی اور نہ کوئی ادھار دینے کو تیار تھا۔
اب بھی وقت ہے ، میری بات مان لو۔ بس کچھ بھی نہیں کرنا ہے،اس بل پر سائن کرنے ہیں اور پیسے تمہارے ۔تمہاری بیوی کا علاج بھی ہوجائے گا ہمارا کام بھی۔ وہ شخص نصیر صاحب کو شش و پنج میں دیکھ کر بولا
نصیر صاحب اسی گومگو کیفیت میں تھے۔ وہ شخص آہستہ آہستہ انہیں رام کرتا رہا۔
ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ لیکن میں دستخط آج نہیں بلکہ کل کروں گا یہ کہہ کر نصیر صاحب اٹھ گئے اور دفتر سے باہر نکل آئے۔ ان دماغ میں ایک بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ ایک طرف بیوی کی زندگی اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی ۔ وہ اس کیفیت میں روڈ کے اس پار جانے کی کوشش کررہے تھے کہ کار کی ٹکرنے انہیں آپریشن تھیٹر پہنچادیا۔
**
آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ سی ٹی اسکین کی رپورٹ کے مطابق دماغ میں خون جمع ہوا تھا۔ نصیر صاحب کا ساکت وجود ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر تھا۔سرجن نصیر صاحب کے سر کو اوزار سے چھلنی کرنے میں مصروف تھا لیکن وہ انکے لاشعور میں چلنے والے مناظر سے بے خبر تھا۔
نصیر صاحب کے لاشعور میں کچھ عجیب و غریب کروڑوں سال پرانی باتیں آنے لگیں۔یہ شاید وہ دور تھا جب انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا گیا تھا البتہ فرشتے اور جنات وجود میں آچکے تھے۔ پھر خدا نے آدم کی تخلیق کی اور ساتھ ہی اس نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو اپنے منصوبے سے آگاہ کردیا کہ وہ دنیا میں انسانوں کو آزمائش کی غرض سے بھیجنے والا ہے۔انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ یعنی ایک بااختیار مخلوق ہوگا۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر خدا نے فرشتوں کے اعتراض کو دور رکنے کے لئے آدم کو ان لوگوں کے نام سکھادئے جو اس اختیار کے باوجودانبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہونگے اور یہ لوگ اپنی جان جونکھوں میں ڈال کر بھی بندگی کے تقاضے پورے کریں گے ۔یہ دنیا کی سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے ۔ باقی جو جھاڑ پھونس ہے اس کا مقدر جہنم کا ایندھن ہے کیونکہ وہ اپنے منتخب کردہ امتحان میں ناکام ہیں۔
جب فرشتوں کو اپنی لا علمی کا اندازہ ہوا تو وہ سر نگوں ہوگئے۔
اس کے بعد خدافرشتوں اور اس ذیل کی دیگر مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ سب آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔
اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ انسان دنیا میں ایک محدود معنوں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت کا حامل گا ۔وہ خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ خود منتخب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو اس کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم ہوگا ۔
یہ حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ اس قبیل کی دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔یہ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم میں بغاوت کا اعلان تھا ۔
او مردود !تونے کیوں سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا۔
خدا کی غضب ناک آواز گونجی۔
میں اس انسان سے بہتر ہوں۔میں آگ اور یہ مٹی۔ بھلا میں اس کو کیوں سجدہ کرنے لگا۔ عزازیل اپنی مکروہ آواز میں بولا۔
تو پھر تو آج سے مردود اور ابلیس ہے ، تو میری بارگاہ سے نکل جا۔ بے شک تو تو انتہائی چھوٹے اور پست لوگوں میں سے ہے؟
خدا نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
شیطان اس عزت افزائی پر بلبلا اٹھا اور چیلنج کے طور پر بولا۔
اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کی گفتگو، میل جول، لباس، تمدن و تہذیب غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤنگا تاکہ انہیں تیری بندگی سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے۔
خدا نے شیطا ن کی بات سن جواب دیا۔
جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا۔
پھر خدا نے آدم اور انکی بیوی حوا کو ایک عارضی جنت میں رکھا تاکہ دنیا میں پیش آنے والے امتحان کی نوعیت سے آگاہ کرسکے۔خدا نے دونوںکو بتایا کہ وہ جہاں چاہے رہیں اور جو چاہیں کھائیں پئیں البتہ وہ ایک مخصوص درخت کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہیں وہ ممنوعہ پھل کو نہ کھالیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتادیا گیا کہ شیطان انہیں ورغلانے کی کوشش کرے گا۔
**
آدم اور انکی بیوی حوا جنت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ جنت میں چار سو ایک صبح کاذب سا اجالا تھا۔ موسم معتدل اور ماحول انتہائی سازگار۔ ہر طرف ہریالی ۔ ساتھ ہی پانی کی نہریں بہہ رہی اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ جب دونوں کو کسی پھل کی خواہش ہوتی تو درخت کی ڈالی جھک جاتی اور وہ اپنی خواہش کے مطابق پھل توڑ کر کھالیتے۔ دور انہیں وہ جگہ بھی نظر آتی جہاں ممنوعہ درخت موجود تھا ۔ وہ درخت ایک دور وادی میں تھا۔ اس وادی کی حدود ایک سیاہی مائل پانی کے چشمے سے شروع ہوتی تھی۔ دونوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس چشمے کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کہ کہیں خدا کی نافرمانی سرزد نہ ہوجائے۔
ایک دن ان کے پاس ایک اجنبی آیا اور آکر بولا۔
یہ کیا تم دونوں یکسانیت سے بھرپور ایک بور زندگی گذار رہے ہو؟۔
آدم نے تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھا اور بولے۔
بھائی تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟
یہ چھوڑو کہ میں کون ہوں۔ اجنبی بولا
اگر تم کچھ تبدیلی چاہتے ہو تو بتاؤ۔
دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر آدم بولے۔
بھائی ہمیں ہمارے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ہم خوش ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔
اجنبی مایوسی کے عالم میں چلا گیا۔
دوسرے دن وہ اجنبی دوبارہ نظر آیا۔ اس دن وہ کافی پرجوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ نزدیک آیا اور بولا۔
بھائی میں آپ لوگوں کے لئے ایک خاص خبر لایا ہوں۔
وہ کیا؟ آدم بولے
میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا تھا کہ اچانک دو فرشتے آپس میں بات کررہے تھے۔ اجنبی نے سرگوشی کے انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ کالے چشمے کے اس پار ایک وادی ہے۔ اس وادی میں کچھ ایسے پھل ہیں جن کی تاثیر ان پھلوں سے جدا ہے، اس وادی کا حسن اس جگہ سے زیادہ ہے، وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور وہاں زندگی کا رنگ بالکل ہی نرالا ہے۔
آدم پر تجسس نگاہوں سے اجنبی کو دیکھنے لگے۔ اجنبی نے تیر نشانے پر لگتے ہوئے دیکھ کر مزید کہا۔
ایک اور اہم بات ۔ اور یہ بات میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں کیوں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔وہ یہ کہ اس جگہ پر ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل کھانے سے انسان کو ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ تو فرشتہ بن جاتا ہے۔ بہر حال اب میں چلتا ہوں، اگر کوئی مزید خبر ملی تو کل بتاؤ ں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلتا بنا۔
ساری رات آدم اور انکی بیوی اجنبی کی باتوں میں سوچتے رہے۔ وہ اسی شش وپنج میں گرفتار تھے کہ اس کالے چشمے والی حد کو پار کرکے اس وادی میں جانا ہے یا نہیں۔ دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وادی میں چلتے ہیں کیونکہ خدا نے ادھر جانے سے تو منع نہیں کیا البتہ وہ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ دوسری صبح وہ اس اجنبی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔جب وہ نظر آیا تو اس نےگذشتہ ملاقاتوں کے برعکس لا تعلقی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں مایوس ہوگئے کہ شاید اس کی نیت بدل گئی۔ چنانچہ وہ واپس جانے لگے۔ اجنبی نے جب بازی پلٹتی دیکھی تو ان دونوں کے پیچھے بھاگا اور بولا۔
بھائی اگر تم دونوں اپنا فیصلہ کرہی چکے ہو تو آؤ میں تمہیں اس حسین وادی میں لے چلوں۔چنانچہ وہ ان دونوں کو لے کر کالے چشمے کےاس پار لے آیا۔ آدم اور انکی بیوی وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جوں جوں وہ اس وادی داخل ہوتے گئے انکا خوف مسرت میں تبدیل ہوتا گیا۔ اجنبی مسکراتا ہواان کے پاس آیا اور بولا۔
میں نہ کہتا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔تم خواہ مخواہ مجھے مشکوک انداز میں دیکھ رہے تھے۔ اب یہاں کھاؤ پیو عیش کرو۔۔
چند دن گذارنے کے بعد اجنبی ان دونوں کے پاس آیا اور بولا۔
بھائی یہ عیش کی زندگی گذارلو کیونکہ تمہارے اس چند ہی دن ہیں۔
وہ کیوں۔
آدم نے استفسار کیا
وہ اس لئے کہ تم نے ہمیشگی کی زندگی والا پھل نہیں چکھا۔ اگر تم وہ کھالو تو تم فرشے بھی بن سکتے ہو۔ پھر خدا کے مزید قریب ہوجاؤگے اور اس جنت میں بلا روک ٹوک جہاں چاہوگے گھوم پھر سکوگے۔ اجنبی بولا۔
تم چاہتے ہو کہ ہم اس ممنوعہ درخت کا پھل کھائیں جس سے ہمارے رب نے منع فرمایا ہے؟۔ آدم نے پوچھا۔
بھائی تم جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے غفور اور رحیم ہیں۔ اورمیں یہ تھوڑا ہی چاہتا ہوں کہ تم پورا ہی وہ پھل کھالو ۔ بس تھوڑا سا چکھ لو ۔ اگر خدا نے ناراضگی کا اظہار کیا تو پھینک دینا۔ اور ویسے بھی اس کو کھانے کے بعد تم ایسےفرشتے بن جاؤ گے جسے خدا کا قرب حاصل ہوگا تو فکر کیسی؟۔ اجنبی گھاگ انداز میں بولا
بہرحال آدم اور حو ا کا اطمینان قلب نہ ہوا۔ وہ رات ان دونوں نے بحث و مباحثے میں گذاری۔ اگلی صبح پھر اجنبی کا آمنا سامنا ہوا۔اجنبی نے دونوں کو شش و پنج کے عالم میں دیکھ کر خوش ہوا لیکن اپنی خوشی کوان سے چھپاکر لاپرواہی کا اظہار کرنے لگا۔ جب دونوں نے کچھ نہ کہا تو خود ہی بولا۔
کل میں نے ایک فرشتے سے پوچھا کہ وہ کس طرح فرشتہ بنا تو معلوم اس نے کیا جواب دیا؟
جب دونوں خاموشی سے اس کی جانب دیکھتے رہے تو خود ہی بولا۔
اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اس درخت کا پھل کھایا تھا۔ تو اب وہ فرشتہ بھی ہےاور اسے موت بھی نہیں آئے گی۔
لیکن اس پھل میں تو خدا کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ آدم احتجاج کے انداز میں بولے
ارے بھائی ! اتنے چھوٹے موٹے گناہوں پر بھی کوئی گرفت تھوڑی ہوتی ہے۔ بس پھل ہی تو کھانا ہے اور بس۔
اجنبی نے جواب دیا۔
باتوں باتوں میں دونوں کو اندازہ بھی نہ ہوا کہ اجنبی انہیں اس ممنوعہ درخت کے قریب لے آیا ہے۔دونوں نے جب پھل کو اتنے قریب دیکھا اور اجنبی کی متاثر کن باتیں سنیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکے اور درخت کا پھل کھالیا۔ پھل کھاتے ہی ماحول بدل گیا۔ ارد گرد کا نیلگوں آسمان سیاہی مائل ہوگیا، سبزہ کاہی میں بدل گیا اور سبز پتے سوکھ کر خش و خاشاک کی طرح اڑنے لگے۔ دونوں کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ جنت کی پوشاک ان سے چھینی جاچکی ہے۔ چنانچہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔ انہوں نے اس مشکل صورت حال میں جب اجنبی کو تلاش کیا تو وہ دور کھڑا نظر آیا۔ اسکی معصوم صورت کریہہ شکل میں بدل چکی تھی اور اسکے دانت بھیڑئے کے دانتوں جیسے ہوچلے تھے۔ وہ اجنبی نزدیک آیا اور بولا۔
میں شیطان ہوں۔ میں نے خدا کو چیلنج کیا تھا کہ میں اس انسان کو تیری بندگی اور جنت سے دور رکھ کر چھوڑوں گا۔ آج یہ میرا پہلا حملہ ہے۔ میری ساری باتیں جھوٹی اور سارے وعدے فریب تھے۔ نہ یہ درخت فرشتہ بناتا ہے اور نہ ہی یہ ہمیشگی کی زندگی عطا کرتا ہے۔اب بھگتو ! اس کی سزا جو تم نے عمل کیا۔
**
آدم و حوا کے یہ سن کر اوسان خطا ہوگئے کہ وہی شیطان تھا جس سے بچ کر رہنے کا خدا نے حکم دیا تھا اور وہ اسی دشمن کی باتوں میں آگئے ۔ دونوں کو احسا س ہوا کہ جذبات میں آکر وہ جو قدم اٹھا چکے ہیں اس سے وہ خدا کی فراہم کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک بے بسی طاری تھی۔ رات میں جگمگاتے تارے کہیں گم ہوچکے تھے، وہ چہچہاتے پرندے دور ہوکر خاموش ہوگئے تھے، سب جھرنے اور آبشار خشک ہوچلے تھے۔ غرض ہر شے دونوں سے برات کا اعلان کرہی تھی کیونکہ وہ خدا کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے۔
اس یاسیت اور اندوہ ناک غم میں دونوں کی روتے روتے آنکھیں خشک ہوگئی تھیں۔ انہیں جنت کی نعمتوں کے چھن جانے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا اپنے پیارے اور محسن رب کی ناراضگی کا۔ جس نے وجود دیا، اس کے تقاضے پیدا کئے، ان تقاضوں کو احسان کے درجے میں پورا کیا پھر نت نئے رنگ دے کر زندگی کا سامان کیا ، آج سی کو فراموش کردیا، اسی کی بات کو رد کردیا ، آج اسی کے دشمن کی بات مان لی۔ یہ احساس دونوں کو مارے ڈال رہا تھا۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ان کے رب نے انہیں پکارا۔
کیا میں نے تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کے قریب مت پھٹکنا اور اچھی طرح سمجھادیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ پھر یہ نافرمانی کیوں؟
دونوں روتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ اور گڑگڑا کر دعا مانگے لگے۔
اے رب ! بے شک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہماری حالت زار پر رحم نہ کیا تو ہم تو ابدی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
ایک نافرمانی شیطان نے بھی کی تھی لیکن جب خدا نے اسے اسکی غلطی کا احساس دلایا تو بجائے اپنی غلطی ماننے کے اس نے خدا ہی کو مورود الزام ٹہرادیا اور سرکشی دکھائی۔ لیکن آدم و حوا نے اس کے برعکس رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خود کو مورود الزام ٹہرایا اور خدا سامنے جھک کر معافی اور رحم کا مطالبہ کیا اور توبہ کے ذریعے اپنی اصلاح کی پیش کش کی۔خدا نے دونوں کو معاف کردیا کیونکہ وہ واقعی غفور یعنی ڈھانپ لینے والا ہے اور انتہائی شفیق اور مہربان ہے۔
**
پھر منظر بدلا اور خدا آدم سے مخاطب ہوا
اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ تمہیں ایک مقررہ مدت امتحان تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے آخرت کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس سے بچ کر رہنا۔میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروری کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا ۔یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میرابندہ ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا۔
**
آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ سرجن نصیر صاحب کے سر میں آخری ٹانکے لگا رہا تھا۔ باہر ان کی بیوی اور بچے بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ یہ چند گھنٹے ان کے لئے صدیا ں بن گئے تھے۔اچانک دور انہیں ایک ڈاکٹر تھیٹر سے باہر نکلتا نظر آیا۔ سب اسکی جانب بے تابی سے لپکے۔
ڈاکٹر صاحب کیا ہوا! بیگم نصیر نے پوچھا
آپریشن کامیاب ہوگیا ہے، آپ کو مبارک ہو! بس چند گھنٹوں بعد انہیں ہوش آجائے گا۔ڈاکٹر نے جواب دیا
ہوش میں آنے کے بعد نصیر صاحب کی آنکھیں کھلیں تو ابتدا میں تو وہ کچھ دیکھنے سے قاصر رہے۔ جب آنکھیں اس اجالے کی عادی ہوئیں تو دیکھا کہ انکے بیوی بچے ان پر جھکے ہوئے تھے۔
انہوں نے اپنی بیوی کو دیکھا اور انکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنی اہلیہ کی بیماری کے بارے میں سوچنے لگے۔اسی اثناء کہ شیطان پھر حملہ آور ہوا اور ورغلانے لگا۔ لیکن نصیر صاحب کی روح جو سفر طے کرکے آرہی تھی اس سبق یہی تھا کہ رب کی رضا کے لئے بڑے سے بڑا نقصان گوارا ہے۔ چنانچہ وہ شیطان سے مخاطب ہوئے۔
مجھے اپنی بیوی کی موت گوارا ہے لیکن تیری اطاعت منظور نہیں۔