امن یا وہم؟

Arslan

Moderator
اگر دہشت گردی کے مسائل کو سلجھانے اور امن کیلئے انتھک کوشش کرتے ہوئے دکھاوے کی بہادری کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو اس بات پر اعتراض کیوں ہے جب ریاست کے ذمہ داران ملک کے ناراض شہریوں کے ساتھ بیٹھ کراس بات کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ناراضگی کی وجوہات ہماری کون سی غلطیاں ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ریاست کے خلاف علم جنگ بلند کر دیاہے؟

کیا کلاوزے وٹز (جو جنگی حکمت عملی کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے) نے پہلے ہی یہ طے نہیں کردیا تھا کہ ”جنگ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا محض ایک دوسرا طریقہ ہے” مطلب یہ کہ اگر پرامن طریقوں سے آپ اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں تو خونریزی کا راستہ اختیار کرنے کا کیا فائدہ؟
کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کی پیش کردہ بے مقصد ریزولیوشن کی منطقی توجیح نہ تو بدلے کی خواہش ہے اور نہ ہی اپنی عزت اور مان کا خود پسندانہ تصور- آنکھ کے بدلے آنکھ سے نہ امن حاصل ہوگا اور نہ ہی انصاف، بلکہ کچھ حاصل ہوگا تو جذبہء انتقام کی تسکین-
جب کوئی ریاست مجرموں کو سزا دیتی ہے تو اس کا محض ایک مقصد نہیں ہوتا ہے بلکہ بہت ساری باتوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے مَثَلاً غلط کاموں کی سزا اور متاثرہ لوگوں کی دادرسی، جرائم کی روک تھام تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو اورمجرموں کی اصلاح- امن مذاکرات کے خلاف جو اخلاقی دلائل پیش کئے جارہے ہیں وہ کمزور نوعیت کے ہیں-
(40000) چالیس ہزار شہریوں اور فوجی جوانوں کی ہلاکت ایک بے حد المناک واقعہ ہے- لیکن جنگوں میں ہلاکتیں لازمی ہوتی ہیں- اور اگر دلیل یہ ہو کہ خون کا بدلہ خون ہی ہونا چاہئے تو پھر کوئی جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی- کسی بھی ریاست کا سب سے اہم فریضہ یہ نہیں ہے کہ اپنے شہیدوں کا ماتم کیسے کریں یا ان کو کیسے خراج تحسین پیش کریں بلکہ جو لوگ زندہ ہیں ان کی حفاظت کس طرح کی جائے- لیکن اگر بہ حیثیت قوم ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارا آئین اور ریاست کی حاکمیت اورایک روادار معاشرہ کا قیام سب سے زیادہ اہم چیزیں ہیں تو امن اور جنگ میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب بے معنی ہوگا-



دوسرے لفظوں میں کسی ایسی پالیسی کیلئے لفظی جنگ بے کارہے جو آپکے مخالفین کیلئے ناقابل قبول ہے تو یہ کہ اگر ہم پاکستان کے تصور یا مستقبل، اس کے آئین، یا سیاسی نظام، خارجہ پالیسی، یا سماجی رویوں کو تحریک طالبان کی خواہشات کے مطابق ڈھال دینا چاہتے ہیں تو، اس کیلئے لڑائی کی کیا ضرورت ہے؟



وہ لوگ جو اے پی سی کے مذاکرات کے ذریعہ امن کے رومانوی تصور پر تنقید کرتے ہیں وہ امن یا مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں- ان کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات کے کامیاب ہونے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے اور یہ کہ ناکامی کی صورت میں اس کا پورا فائدہ صرف اور صرف ٹی ٹی پی کو ہوگا-



اور اگرمعجزاتی طور پر مذاکرات کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اور امن کا حصول ممکن ہوجاتا ہے تو وہ ایسی شرائط پر ہوگا جو دیرپا نہیں ہونگی یا نظریہ پاکستان اوراس کے مستقبل کی امنگوں سے متصادم ہونگی جس کے معنی یہ ہونگے کہ پاکستان ان قوتوں کے رحم و کرم پر ہوگا جو جبروتشدد، تعصب اورعدم رواداری کی حامل قوتیں ہیں- اے پی سی ریزولوشن اس خطرناک تصور کو تقویت دیتا ہے کہ ہماری قومی قیادت کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ ہماری قومی سلامتی کو کس قسم کے مسائل درپیش ہیں یا یہ کہ انہوں نے مسائل کو حل کرنے کیلئے میڈم ڈی پمپیڈورکی روش اپنالی ہے یعنی “ہمارے بعد بس افراتفری”
عسکریت پسندی اوردہشت گردی کے بیج 2001 میں نہیں بوئے گئے تھے جب پاکستان نے امریکہ کی” دہشت گردی کی جنگ” میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا- اس فیصلے نے تو صرف ہماری نیشنل سیکورٹی کی سوچ میں جو خامیاں تھیں ان کا پول کھول دیا تھا- صحیح معنوں میں عسکریت پسندی کا بیج اس وقت بویا گیا تھا جب ہم نے 1980 میں امریکہ کی شہ پر جہادیوں کو تربیت دینے، ان کی برین واشنگ، اور اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو افغانستان کے حوالے سے ترتیب دینے کے مقصد کیلئے ان کواستعمال کرنا شروع کیا- کرائے کے قاتل جو پیسوں کے عوض کام کرتے ہیں یا وہ عام فوجی جو فوجی قوانین اور ضوابط کے پابند ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں جہادی عسکریت پسندوں کے خمیر میں اس طرح کی کوئی چیز موجود نہیں ہے-




اگر1980 میں لامذہب روس کے خلاف جہاد جائز تھا تو 2001 میں لامذہب امریکیوں کے خلاف وہی جہاد کیسے غلط ہوسکتا ہے؟ اور یہ جہادی نہیں تھے جنہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی تھی بلکہ یہ ریاست تھی جس نے ایک منصفانہ مذہبی جدوجہد کے خلاف دشمن کے ساتھ ملکر جارحیت کا ارتکاب کیا، یہ جہادیوں کا دعویٰ ہے-




مطلب یہ ہے کہ ریاست کو کسی بھی پرائیویٹ ملیشیا کے ساتھ مل کر تشدد پر اجارہ داری کا کوئی حق نہیں ہے چاہے کوئی مذہبی جواز موجود ہو یا نہ ہو- بالکل اسی طرح جیسے ریاست کسی بھی پرائیویٹ گروپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی یا سیکورٹی کے معاملات میں طاقت کے زور پر دخل اندازی کرے-



ہمارا تشدد پسندی کا مسئلہ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کے اختتام کے ساتھ ختم نہیں ہوگا- یہ اس وقت تک ختم ہونے والا نہیں جبتک پاکستان میں مسلح پرائیویٹ ملیشیا موجود ہیں اس یقین محکم کے ساتھ کہ انکو ریاستی پالیسیوں، سیاسی یا آئینی نظام اورسماجی رویوں کو زبردستی بدلنے کا قانونی حق ہے اور ان کے پاس اس مقصد کو حاصل کرنے کے ذرائع بھی ہیں-



پاکستان میں اس وقت تک پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے جب تک ریاست مذہبی دہشت پسند گروہوں کو ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر جن پر اس کا کنٹرول ہے اور ان کو مفروضہ قومی مفاد کیلئے جب چاہے استعمال کرسکتی ہے- پائیدار امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ریاست دورافتادہ علاقوں اور شہروں میں دہشت پسندوں کی خود ساختہ پناہ گاہوں کی طرف سے اپنا منہ پھیرے ہوئے ہے- پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے اگر امن دہشت گردوں اور تشدد پسندوں کے رحم و کرم کا نتیجہ ہو نہ کہ ان کی تشدد پھیلانے کی کم ہوتی ہوئی صلاحیتوں کا-



نہ ہی پائیدارامن ایسی صورت میں ممکن ہے اگر ریاست مذہب کے نام پر تشدد اور نفرت انگیزی کوجان بوجھ کر برداشت کرتی ہے- ایسی صورت میں بھی امن ممکن نہیں ہوسکتا ہے جبکہ ہمارے غیرملکی مسلمان دوست پاکستان میں فرقہ وارانہ گروہوں کی مالی مدد اور سرپرستی کرتے ہوں اور ریاست مسلسل دوسری طرف دیکھتی رہے-



اور ایسی صورت میں بھی امن ممکن نہیں ہوسکتا کہ وہ شریعت نافذ کرنے کے وعدے پر قائم ہے جب کہ پورے ملک میں کسی کو بھی نہیں پتہ کہ اس کا مطلب کیا ہے- کیا اے پی سی کو ان مشکل مسئلوں کے حل کی جانب کچھ توجہ نہیں دینا چاہئے تھا؟



جس انداز میں اے پی سی نے ٹی ٹی پی سے بلا کسی شرط کے مذاکرات کی منظوری دی ہے اس سے دو مسائل پیدا ہوگئے ہیں- ایک یہ کہ اس نے ان کے پر تشدد لہجے کو جائز بنا دیا ہے جس نے پوری قوم کو شک میں ڈال دیا ہے اور وہ دوحصوں میں بٹ گئی ہے کہ دہشت گرد ممکن ہے کہ لوگوں کو قتل کرکے غلطی کر رہے ہوں لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت پے کہ ان کو ریاست کے غلط انداز سیاست پربے حد غصہ ہے-



دوسرے یہ کہ یہ دہشت گرد ہیں جو شرطیں عائد کررہے ہیں اور مذاکرات کے خدوخال متعین کررہے ہیں ریاست نہیں اور اس کے نتیجے میں اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی-




سب سے زیادہ فیاضانہ تبصرہ اے پی سی کی کارگزاری پر یہ ہو سکتا ہے کہ اے پی سی نے جس برداشت اور مصالحت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے عوامی رائے مذاکرات کی ناکامی کے نتیجے میں طاقت کے استعمال کے حق میں ہوگی-




لیکن جس انداز میں ٹی ٹی پی نےجواب دیا ہے ہمارے ظالم تشدد پسند ہمارے لیڈروں سے بھی پہلے عوامی رائے تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائینگے- ممکن ہے ہم بلا وجہ شک کررہے ہوں اور ہمارے قائدین ایک بڑی حکمت عملی پر کام کررہے ہوں: وہ جو کسی نے کہا ہے کہ اگر تم ان کو ہرا نہیں سکتے تو ان کے ساتھ مل جاؤ-

source
 
Last edited by a moderator:

Noorinat

MPA (400+ posts)
keya leka hain maloom nahe ........... mager jetna waqt laga ker lekha hain us kay leya ....(clap)
 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
Supreme Commander of Islamic world are now terrorists try to accept and engulf this reality and design your further life accordingly

30sp-story%201%20fp.jpg
 

Back
Top