دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں جب بنگالی قوم پرستوں نے 300 کے ایوان میں 160 نشستیں حاصل کر لیں تو راولپنڈی میں بیٹھی ہوئی وردی والی مافیا کو لوز موشن آنا شروع ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے چھ نکات کا بنیادی مقصد مشرقی و مغربی پاکستان کے غریب عوام کو فوج، وڈیروں اور صنعت کاروں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔
شیخ مجیب صوبائی خودمختاری کے حامی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مرکزی حکومت پر راولپنڈی کی وردی مافیا کا قبضہ تھا جو ملک کے دونوں بازوؤں کے وسائل لوٹ کر عوام کو غربت اور جہالت کے اندھیروں میں جھونک رہی تھی۔
ایوب خان کے ڈیموں اور صنعتی ترقی کا ڈھول پیٹنے والوں سے کوئی پوچھے کہ ان کے اباجان ایوب نے شرح تعلیم میں اضافہ کیا یا تنزلی کی؟ غربت اور بے روزگاری گھٹی یا بڑھی؟
وردی مافیا، وڈیرے اور چوہدری کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستانی عوام تعلیم یافتہ ہوں۔ کیوں کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہو گئی تو وردی والوں سے سوال کرے گی کہ تم ہمارے ٹیکسوں کے پیسے کا کیا کرتے ہو؟ تم ہمارا بجٹ کیوں کھا جاتے ہو؟ جس طرح مفاد پرستوں نے مسئلہ فلسطین زندہ رکھا ہوا ہے اسی طرح تم لوگوں نے بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا، کیوں کہ اس طرح تم لوگوں کے کھابے بند ہو جائیں گے۔ ہندوستان سے تم نے آج تک جنگ نہیں جیتی، تو پھر جنگوں کے بجائے دوستی اور امن کے ذریعے خطے کے عوام کو ترقی کے راستے پر کیوں نہ ڈالا جائے؟
وردی والوں نے اپنے ایجنٹ ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے شیخ مجیب کو ڈرانے دھمکانے اور بے وقوف بنانے کی کوشش کی، مگر شیخ مجیب جھک نہ سکا۔ غالباً اس کی عوامی تحریک اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ اب وہ خود تحریک کے رحم و کرم پر تھا۔
لہٰذا وردی والوں نے اپنی اس تربیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جو انہوں نے اپنے برطانوی اور امریکی آقاؤں سے حاصل کی تھی، ایک جمہوری جدوجہد کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی مگر وہ خود ہی ذلت اور بدنامی کا ہار سجائے ہندوستانی جیلوں میں دھر لیے گئے۔
اب ذوالفقار علی بھٹو کی باری تھی۔ اس نے 5 سال بڑی رعونت کے ساتھ حکمرانی کی۔ اور پھر 1977 کے عام انتخابات میں بھٹو نے شیخ مجیب کو بھی مات دے دی، جب اس کی پیپلز پارٹی نے 216 کے ایوان میں 155 نشستیں جیت کر 72 فی صدی اکثریت حاصل کر لی۔ وردی والے جن کو شیخ مجیب کی 53 فی صدی اکثریت سے لوز موشن لگ گئے تھے، اس بار ان کو ہیضہ ہونے لگا۔ بھٹو نے پہلے ہی وردی والوں کی دم پر پاؤں رکھا ہوا تھا، اگلی حکومت میں تو وہ ان کو گلے سے دبوچ کر اپنی ماتحتی میں لے لیتا۔ بلڈی سویلیئنز 1948 کے بعد پہلی بار آزاد ہو جاتے۔ سویلیئن سپریمیسی کا خواب پورا ہوجاتا۔ پاکستان میں نابالغ سہی، حقیقی جمہوریت قائم ہو جاتی۔
جماعت اسلامی، علماء اسلام اور علماء پاکستان کے باوردی لوٹے میدان میں آئے، مگر اس وقت کے عمران خان (ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان) اور باقی لوٹے مل کر بھی بھٹو کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ قریب تھا کہ بھٹو اپنی حکمت عملی سے پی این اے کی تحریک کے ساتھ معاہدہ کر لیتا، مگر بے حیا، بے غیرت جنرل ضیاء نے اپنے فطری کمینہ پن کے ہاتھوں مجبور ہو کر، حکومت پاکستان کے خلاف بغاوت کر کے عوام کو 11 سال کے لیے غلام بنا لیا۔
ضیاء نے 1988 میں جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد عام انتخابات کا اعلان ضرور کیا، مگر انتخابات 1985 کی طرح غیر جماعتی بنیادوں پر ہونا تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کی عوامی مقبولیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وزیراعظم وہی بنتا جسے وردی والے خدا، مونچھوں والے جعلی مولوی، ضیاء الحق نے چننا تھا۔
وردی والے خدا کی پوجا کرنے والے جماعت اسلامی اور باقی مولویوں کی ذلت کا سامان اللہ رب العزت نے وردی والوں کے امریکی خداؤں کے ہاتھوں کروادیا، جب ضیاء الحق طیارہ حادثے میں 'شہید' کر دیے گئے۔ جس طرح صدر ضیاء شہید ہوئے اسی طرح ملا فضل اللہ بھی ڈرون حملے میں شہید ہوا نا؟
اگر 2013 میں عمران خان اسٹیج سے گر کر ہلاک ہو جاتے تو وہ بھی شہید ہو جاتے، اور اگر زرداری کسی گھوڑے یا گدھے سے گر کر مارا جائے تو وہ بھی شہید ہو جائے گا؟
خیر، ضیاء کی موت سے وردی والوں کے کئی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بے نظیر نے اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے غیر جماعتی انتخابات کو کالعدم قرار دلوادیا، اور غالباً وردی والوں کے امریکہ نواز مہروں کے ذریعے بے نظیر الیکشن جیت گئیں، مگر اپنے والد اور شیخ مجیب کی طرح سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں۔ اور یہی وردی والے چاہتے تھے۔
جمہوریت کی واپسی ہوئی مگر ٹرائیکا (اسلم بیگ، غلام اسحٰق اور بے نظیر) کے سائے میں۔ بیس مہینے کے اندر بے نظیر کو چلتا کیا گیا۔ وردی والوں کے ایجنٹ نواز شریف کی حکومت بنی، مگر مخلوط حکومت۔ وردی والے چین کی بانسری بجاتے رہے۔
وردی مافیا کو دوبارہ بدہضمی تب ہوئی جب 1997 کے عام انتخابات میں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ مل گیا۔ نواز نے اس مینڈیٹ کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو بننے کی کوشش کی، مگر 1999 میں منہ کی کھائی۔ نواز شریف بھٹو جیسا بہادر انسان نہیں تھا۔ اس کو جدہ بھاگنا پڑا۔
پھر 2013 میں نواز شریف کو ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ مل گیا، وردی والوں کا ہیضہ پھر سے جاگ گیا۔ اور اب دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بننے جارہی ہے۔ تیسرے درجے کی تحریک انصاف کو وردی والوں نے اپنی بد معاشی کے ذریعے دوسرے یا پہلے درجے کی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم تجزیات کے مطابق عمران احمد خان نیازی آف بنی گالم گلوچ سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے، اور لوٹوں اور نون اور پی پی پی کے فارورڈ بلاکس کے ذریعے حکومت بنا پائیں گے۔ تاہم ان میں اتنا دم خم نہیں ہو گا کہ کوئی اہم فیصلے کر سکیں۔
کٹھ پتلی وزیراعظم بننے پر عمران احمد خان نیازی اور ان کے خبطی حواریوں کو پیشگی مبارک باد
شیخ مجیب صوبائی خودمختاری کے حامی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مرکزی حکومت پر راولپنڈی کی وردی مافیا کا قبضہ تھا جو ملک کے دونوں بازوؤں کے وسائل لوٹ کر عوام کو غربت اور جہالت کے اندھیروں میں جھونک رہی تھی۔
ایوب خان کے ڈیموں اور صنعتی ترقی کا ڈھول پیٹنے والوں سے کوئی پوچھے کہ ان کے اباجان ایوب نے شرح تعلیم میں اضافہ کیا یا تنزلی کی؟ غربت اور بے روزگاری گھٹی یا بڑھی؟
وردی مافیا، وڈیرے اور چوہدری کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستانی عوام تعلیم یافتہ ہوں۔ کیوں کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہو گئی تو وردی والوں سے سوال کرے گی کہ تم ہمارے ٹیکسوں کے پیسے کا کیا کرتے ہو؟ تم ہمارا بجٹ کیوں کھا جاتے ہو؟ جس طرح مفاد پرستوں نے مسئلہ فلسطین زندہ رکھا ہوا ہے اسی طرح تم لوگوں نے بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا، کیوں کہ اس طرح تم لوگوں کے کھابے بند ہو جائیں گے۔ ہندوستان سے تم نے آج تک جنگ نہیں جیتی، تو پھر جنگوں کے بجائے دوستی اور امن کے ذریعے خطے کے عوام کو ترقی کے راستے پر کیوں نہ ڈالا جائے؟
وردی والوں نے اپنے ایجنٹ ذوالفقار علی بھٹو کے ذریعے شیخ مجیب کو ڈرانے دھمکانے اور بے وقوف بنانے کی کوشش کی، مگر شیخ مجیب جھک نہ سکا۔ غالباً اس کی عوامی تحریک اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ اب وہ خود تحریک کے رحم و کرم پر تھا۔
لہٰذا وردی والوں نے اپنی اس تربیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جو انہوں نے اپنے برطانوی اور امریکی آقاؤں سے حاصل کی تھی، ایک جمہوری جدوجہد کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی مگر وہ خود ہی ذلت اور بدنامی کا ہار سجائے ہندوستانی جیلوں میں دھر لیے گئے۔
اب ذوالفقار علی بھٹو کی باری تھی۔ اس نے 5 سال بڑی رعونت کے ساتھ حکمرانی کی۔ اور پھر 1977 کے عام انتخابات میں بھٹو نے شیخ مجیب کو بھی مات دے دی، جب اس کی پیپلز پارٹی نے 216 کے ایوان میں 155 نشستیں جیت کر 72 فی صدی اکثریت حاصل کر لی۔ وردی والے جن کو شیخ مجیب کی 53 فی صدی اکثریت سے لوز موشن لگ گئے تھے، اس بار ان کو ہیضہ ہونے لگا۔ بھٹو نے پہلے ہی وردی والوں کی دم پر پاؤں رکھا ہوا تھا، اگلی حکومت میں تو وہ ان کو گلے سے دبوچ کر اپنی ماتحتی میں لے لیتا۔ بلڈی سویلیئنز 1948 کے بعد پہلی بار آزاد ہو جاتے۔ سویلیئن سپریمیسی کا خواب پورا ہوجاتا۔ پاکستان میں نابالغ سہی، حقیقی جمہوریت قائم ہو جاتی۔
جماعت اسلامی، علماء اسلام اور علماء پاکستان کے باوردی لوٹے میدان میں آئے، مگر اس وقت کے عمران خان (ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان) اور باقی لوٹے مل کر بھی بھٹو کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ قریب تھا کہ بھٹو اپنی حکمت عملی سے پی این اے کی تحریک کے ساتھ معاہدہ کر لیتا، مگر بے حیا، بے غیرت جنرل ضیاء نے اپنے فطری کمینہ پن کے ہاتھوں مجبور ہو کر، حکومت پاکستان کے خلاف بغاوت کر کے عوام کو 11 سال کے لیے غلام بنا لیا۔
ضیاء نے 1988 میں جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد عام انتخابات کا اعلان ضرور کیا، مگر انتخابات 1985 کی طرح غیر جماعتی بنیادوں پر ہونا تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کی عوامی مقبولیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وزیراعظم وہی بنتا جسے وردی والے خدا، مونچھوں والے جعلی مولوی، ضیاء الحق نے چننا تھا۔
وردی والے خدا کی پوجا کرنے والے جماعت اسلامی اور باقی مولویوں کی ذلت کا سامان اللہ رب العزت نے وردی والوں کے امریکی خداؤں کے ہاتھوں کروادیا، جب ضیاء الحق طیارہ حادثے میں 'شہید' کر دیے گئے۔ جس طرح صدر ضیاء شہید ہوئے اسی طرح ملا فضل اللہ بھی ڈرون حملے میں شہید ہوا نا؟
اگر 2013 میں عمران خان اسٹیج سے گر کر ہلاک ہو جاتے تو وہ بھی شہید ہو جاتے، اور اگر زرداری کسی گھوڑے یا گدھے سے گر کر مارا جائے تو وہ بھی شہید ہو جائے گا؟
خیر، ضیاء کی موت سے وردی والوں کے کئی منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بے نظیر نے اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے غیر جماعتی انتخابات کو کالعدم قرار دلوادیا، اور غالباً وردی والوں کے امریکہ نواز مہروں کے ذریعے بے نظیر الیکشن جیت گئیں، مگر اپنے والد اور شیخ مجیب کی طرح سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں۔ اور یہی وردی والے چاہتے تھے۔
جمہوریت کی واپسی ہوئی مگر ٹرائیکا (اسلم بیگ، غلام اسحٰق اور بے نظیر) کے سائے میں۔ بیس مہینے کے اندر بے نظیر کو چلتا کیا گیا۔ وردی والوں کے ایجنٹ نواز شریف کی حکومت بنی، مگر مخلوط حکومت۔ وردی والے چین کی بانسری بجاتے رہے۔
وردی مافیا کو دوبارہ بدہضمی تب ہوئی جب 1997 کے عام انتخابات میں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ مل گیا۔ نواز نے اس مینڈیٹ کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو بننے کی کوشش کی، مگر 1999 میں منہ کی کھائی۔ نواز شریف بھٹو جیسا بہادر انسان نہیں تھا۔ اس کو جدہ بھاگنا پڑا۔
پھر 2013 میں نواز شریف کو ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ مل گیا، وردی والوں کا ہیضہ پھر سے جاگ گیا۔ اور اب دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر مخلوط حکومت بننے جارہی ہے۔ تیسرے درجے کی تحریک انصاف کو وردی والوں نے اپنی بد معاشی کے ذریعے دوسرے یا پہلے درجے کی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم تجزیات کے مطابق عمران احمد خان نیازی آف بنی گالم گلوچ سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے، اور لوٹوں اور نون اور پی پی پی کے فارورڈ بلاکس کے ذریعے حکومت بنا پائیں گے۔ تاہم ان میں اتنا دم خم نہیں ہو گا کہ کوئی اہم فیصلے کر سکیں۔
کٹھ پتلی وزیراعظم بننے پر عمران احمد خان نیازی اور ان کے خبطی حواریوں کو پیشگی مبارک باد