پاکستان کا موجودہ منظر نامہمسعود انور
[email protected]
www.masoodanwar.com
اس وقت تک پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھائی دھند بڑی حد تک صاف ہوچکی ہے اور اب صاف اور واضح طور پر ملک کا نیا منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے۔ دیکھنے میں یہ سب بڑی حد تک گذشتہ پندرہ دنوں کے معاملات کا منطقی نتیجہ دکھائی دے رہاہے۔ مگر ایسا بالکل نہیں ہے ۔ اس کے آثار بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا، اس کے اصل آرکیٹیکٹ کون ہیں اور اس کھیل میں کس نے کیا کردار ادا کیا۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔ آج کا آرٹیکل گذشتہ چند آرٹیکل کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ جس سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ اس کھیل کا اسکرپٹ کتنا پرانا ہے۔واضح رہے کہ یہ تمام آرٹیکل میری ویب سائیٹ پر موجود ہیں جہاں پر انہیں تفصیل سے پڑھا جاسکتا ہے۔
نیاسال اور پاکستانکے نام سے میں نے ایک آرٹیکل 12 مارچ 2014 کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا ۔اصل میں یہ آرٹیکل لکھا تو سال شروع ہونے پر گیا تھا جو
جسارت میں شائع بھی ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں میری ویب سائیٹ ایکٹو نہیں تھی ، اس لیے اسے میں نے بعد میں ویب سائیٹ پر پوسٹ کیا۔ اس کے چند پیراگراف مندرجہ ذیل ہیں۔
جس طرح ہر کام میں وقت لگتا ہے ، اسی طرح ملک میں بھی سیاسی ماحول بنانے میں وقت لگتا ہے۔ اگر ابھی سے کام شروع ہوگا تو مارچ اپریل تک ملک میں سیاسی ماحول گرم
ہوچکا ہوگا اور پھر اس وقت ایک فیصلہ کن اسٹروک کھیلنے کے بعد کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکے گا۔ یہ ہے وہ وجہ ، جس کی بناء پر ابھی سے تمام کرداروں کو ان کا اسکرپٹ دے دیا گیا ہے اور اب سارے ایکٹرز اپنا اپنا کردار بہ خوبی ادا کرتے نظرآرہے ہیں۔اگر سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں اوائل جون تک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی نئی حکومت، کوئی مارشل لاء وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر پاکستان میں اوائل جون یا جولائی میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہم بہ آسانی یہ نکال سکتے ہیں کہ اس خطے میں ستمبر اکتوبر میں کچھ ہونے جارہا ہے۔ کیا ہونے جارہا ہے۔ اس کے خط و خال تو واضح نہیں ہیں مگر کچھ کچھ آثار نظر آرہے ہیں۔
25 اپریل 2014 کو کیا ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے کے عنوان سے ایک آرٹیکل پوسٹ کیا۔اس کے آخری دو پیراگراف پیش خدمت ہیں۔ اب ان تمام نقاط کو جوڑیے تو جو شکل نظر آتی ہے وہ انتہائی بھیانک ہے۔ یہ دنیا میں کسی نئی مہم جوئی کی شکل بنتی ہے اور یہ مہم جوئی کسی اور علاقے میں نہیں ، ایشیا میں مسلم خطے میں ہوگی۔دوسری جانب دیکھیے، یوکرین کا محاذ گرم ہے۔ روز یوکرین میں امریکا اور روس ایک دوسرے کو گیدڑ بھبکی دے رہے ہیں۔دنیا کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر ایک جنگ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس جنگ کے خطرے کے نام پر امریکی حکومت نے جنگی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یہ جنگ یوکرین میں کبھی بھی نہیں ہوگی بلکہ یہ ساری جنگی تیاریاں ایشیا میں ہی کام آئیں گی۔
اب دوبارہ سے پہلے نکتہ کو دیکھتے ہیں کہ مارشل لاء کا تعلق کبھی بھی پاکستان کے اندرونی حالات سے نہیں رہا۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگایا گیا، اس کے ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر اس خطہ میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اگر اس خطہ میں کوئی مہم جوئی ہونے جارہی ہے جس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں بھی گارڈز کی تبدیلی ہوگی۔ بلکہ ہم پاکستان میں گارڈز کی تبدیلی سے ہی اس خطہ میں مہم جوئی کا کاوٴنٹ ڈاوٴن شروع کرسکیں گے۔ بادل دیکھ کر بارش کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ حالات کو غور سے دیکھیے۔ سب کچھ خود بہ خود سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
اس کے بعد 26 مئی کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے عنوان سے پوسٹ آرٹیکل کے چند پیراگراف اور دیکھیے۔آپ پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ دیکھیں، اپریل مئی جون میں کبھی بھی مارشل لاء نہیں لگایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپریل مئی میں بجٹ کی تیاری شروع ہوتی ہے اور جون کے اوائل میں بجٹ پیش ہوتا ہے اور جون کے آخر تک اسے منظور کرلیا جاتا ہے جو یکم جولائی سے نافذالعمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد فوجی طالع آزماوٴں کے لیے ملک چلانا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے جولائی تا اکتوبر کے مہینے پاکستان میں فوجی طالع آزمائی کے حوالے سے بہترین تصور کیے جاتے ہیں۔
اب پھر سے تمام نقاط کو جوڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کیا شکل بن رہی ہے۔ معاملہ حامد میر سے شروع ہوا، اس کے بعد جیو پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آئی ایس آئی کے خلاف مہم شروع کی گئی۔آئی ایس آئی کے خلاف اس مہم میں نواز حکومت مشتبہ انداز میں مسکراتی رہی اور کہا گیا کہ یہ نواز حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو نکیل ڈالنے کی کوشش ہے۔ جواب میں آئی ایس آئی نے اپنے تمام آلات کار متحرک کیے اور جوابی حملے شروع کردیے۔ اسی اثناء میں شائستہ واحدی کے شو کو بنیاد بنایا گیا اور آئی ایس آئی نے ریباوٴنڈ ایک نئی پچ پر کھیلا۔ اب کی مرتبہ کیا شیعہ اور کیا سُنّی ، ہر کھلاڑی کو میدان میں اتار دیا گیا اور کھیل کو نیا رُخ دے دیا گیا۔اب اصل معاملہ کہیں پر دفن ہوچکا ہے اور کھیل فوج کی حمایت میں ریلیوں کی صورت میں کھیلا جارہا ہے۔ اب جیو کا جنگلی گھوڑا بھی قابو آچکا ہے اور سواری کے لیے میسر ہے۔ اچانک ہی شمالی وزیرستان میں فضائی حملے بڑھادیے گئے اور کہا گیا کہ اس کا ردعمل آسکتا ہے۔ اس کی آڑ میں اسلام آباد سمیت سارے شہروں کی سیکوریٹی کے نام پر نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔عملا اس وقت پورا پاکستان فوجی کنٹرول میں ہے۔یہ عمل اور ردعمل کی ایک پیچیدہ کہانی ہے جس کے نتیجے میں ملکی صورتحال کو انتہائی کامیابی سے مطلوبہ نہج پر پہنچادیا گیا ہے۔ ہر کیریکٹر نے اتنی کامیابی سے اپنا کردار ادا کیا ہے کہ انہیں آسکر ایوارڈ نہ دینا زیادتی ہوگی۔پاکستان میں مارشل لاء کے بارے میں میری تھیوری ایک مرتبہ پھر سے دیکھئے۔ پاکستان میں مارشل لاء اُسی وقت آیا ہے جب اس خطہ میں کوئی بڑا معاملہ ہونے والا ہوتا ہے۔ مارشل لاء آنے کے ایک سے ڈیڑھ سال کے اس خطہ میں کوئی بڑی تبدیلی آچکی ہوتی ہے۔ زرداری کے دور کو دیکھئے۔ اس سے زیادہ کمزور ترین حکومت شاید ہی کوئی اور پاکستانی تاریخ میں گزری ہو۔ ہر صبح کہا جاتا تھا کہ شام کا پتہ نہیں، ہر شام کو کہا جاتا تھا کہ صبح کا علم نہیں۔ کئی مرتبہ حالات اتنے بگڑے کہ زرداری خود فرار ہوکر دبئی پناہ گزیں ہوگئے مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی سازش کار اُس زمانے میں اس خطہ میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اب چار سرخ چاند گرہن کے حوالے سے صہیونیوں کی خوشیاں دیکھئے، عالمی معاملات دیکھئے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ برس تک کچھ کرنے کے منصوبے اور سازشیں ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان میں مارشل لاء کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھئے۔چونکہ کرپشن کے حوالے سے خود فوجیوں کا ریکارڈ کوئی قابل تحسین نہیں ہے اس لیے سول حکومت کو رخصت کرنے کے لیے اب چارج شیٹ میں بدعنوانی کی طویل فہرست نہیں ہوگی بلکہ اس میں ملک کو سیکوریٹی کو رسک پر رکھنے کا معاملہ سرفہرست ہوگا۔اب دیکھئے اور انتظار کیجئے۔
یکم جون کو پرویز مشرف کا مستقبل کے عنوان سے پوسٹ آرٹیکل کے آخری پیراگراف دیکھیے۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف پر الزامات کیا ہیں۔ ان پر ابھی تک بدعنوانی کے الزامات عائد ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف پر بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ انہوں نے مارشل لاء عائد کرکے ایک جمہوری حکومت کو رخصت کیا ، اس طرح وہ ملک کے آئین کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے، اسی طرح انہوں نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا ، لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کیے اور یہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھی۔ ذرا ایک منٹ کو تصور کیجئے کہ ان دونوں مقدمات کے تحت پرویز مشرف کو سزا ہوجاتی ہے ، چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو تو پھر ملک میں آئندہ فوجی طالع آزمائی کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ تو فوجی طالع آزمائی کا ہمیشہ کے لیے راستہ روکنے کی بات ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سازش کار بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایسی کوئی مثال پیدا کی جائے اور نہ ہی فوج کی اعلیٰ قیادت۔ یہ سب پرویز مشرف کو نہیں بلکہ اپنے سیاسی مستقبل کو فوجی چھتری فراہم کررہے ہیں۔اگر اس خطہ میں آئندہ ایک دو برسوں میں کچھ ہونے جارہا ہے، جس کے آثار نظر آرہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں فوجی مارشل لاء۔ اور اگر پرویز مشرف کو سزا ہوگئی تو اس کی قانونی حیثیت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی اور آئندہ مارشل لاء لگانے والے کو مرنے کے بعد بھی پھانسی کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔بس یہی صورتحال مطلوب نہیں ہے۔
یہ اقتباسات میرے چند کالموںسے لیے گئے ہیں۔ جو اپنی تشریح آپ ہیں کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کہا جائے کہ یہ سب کچھ کسی اسکرپٹ کے مطابق نہیں ہے تو اس پر
صرف مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
[email protected]
www.masoodanwar.com
اس وقت تک پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر چھائی دھند بڑی حد تک صاف ہوچکی ہے اور اب صاف اور واضح طور پر ملک کا نیا منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے۔ دیکھنے میں یہ سب بڑی حد تک گذشتہ پندرہ دنوں کے معاملات کا منطقی نتیجہ دکھائی دے رہاہے۔ مگر ایسا بالکل نہیں ہے ۔ اس کے آثار بہت پہلے سے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا، اس کے اصل آرکیٹیکٹ کون ہیں اور اس کھیل میں کس نے کیا کردار ادا کیا۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔ آج کا آرٹیکل گذشتہ چند آرٹیکل کے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ جس سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ اس کھیل کا اسکرپٹ کتنا پرانا ہے۔واضح رہے کہ یہ تمام آرٹیکل میری ویب سائیٹ پر موجود ہیں جہاں پر انہیں تفصیل سے پڑھا جاسکتا ہے۔
نیاسال اور پاکستانکے نام سے میں نے ایک آرٹیکل 12 مارچ 2014 کو اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا ۔اصل میں یہ آرٹیکل لکھا تو سال شروع ہونے پر گیا تھا جو
جسارت میں شائع بھی ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں میری ویب سائیٹ ایکٹو نہیں تھی ، اس لیے اسے میں نے بعد میں ویب سائیٹ پر پوسٹ کیا۔ اس کے چند پیراگراف مندرجہ ذیل ہیں۔
جس طرح ہر کام میں وقت لگتا ہے ، اسی طرح ملک میں بھی سیاسی ماحول بنانے میں وقت لگتا ہے۔ اگر ابھی سے کام شروع ہوگا تو مارچ اپریل تک ملک میں سیاسی ماحول گرم
ہوچکا ہوگا اور پھر اس وقت ایک فیصلہ کن اسٹروک کھیلنے کے بعد کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکے گا۔ یہ ہے وہ وجہ ، جس کی بناء پر ابھی سے تمام کرداروں کو ان کا اسکرپٹ دے دیا گیا ہے اور اب سارے ایکٹرز اپنا اپنا کردار بہ خوبی ادا کرتے نظرآرہے ہیں۔اگر سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں اوائل جون تک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی نئی حکومت، کوئی مارشل لاء وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر پاکستان میں اوائل جون یا جولائی میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہم بہ آسانی یہ نکال سکتے ہیں کہ اس خطے میں ستمبر اکتوبر میں کچھ ہونے جارہا ہے۔ کیا ہونے جارہا ہے۔ اس کے خط و خال تو واضح نہیں ہیں مگر کچھ کچھ آثار نظر آرہے ہیں۔
25 اپریل 2014 کو کیا ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جارہا ہے کے عنوان سے ایک آرٹیکل پوسٹ کیا۔اس کے آخری دو پیراگراف پیش خدمت ہیں۔ اب ان تمام نقاط کو جوڑیے تو جو شکل نظر آتی ہے وہ انتہائی بھیانک ہے۔ یہ دنیا میں کسی نئی مہم جوئی کی شکل بنتی ہے اور یہ مہم جوئی کسی اور علاقے میں نہیں ، ایشیا میں مسلم خطے میں ہوگی۔دوسری جانب دیکھیے، یوکرین کا محاذ گرم ہے۔ روز یوکرین میں امریکا اور روس ایک دوسرے کو گیدڑ بھبکی دے رہے ہیں۔دنیا کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر ایک جنگ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس جنگ کے خطرے کے نام پر امریکی حکومت نے جنگی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یہ جنگ یوکرین میں کبھی بھی نہیں ہوگی بلکہ یہ ساری جنگی تیاریاں ایشیا میں ہی کام آئیں گی۔
اب دوبارہ سے پہلے نکتہ کو دیکھتے ہیں کہ مارشل لاء کا تعلق کبھی بھی پاکستان کے اندرونی حالات سے نہیں رہا۔ پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگایا گیا، اس کے ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر اس خطہ میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اگر اس خطہ میں کوئی مہم جوئی ہونے جارہی ہے جس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں بھی گارڈز کی تبدیلی ہوگی۔ بلکہ ہم پاکستان میں گارڈز کی تبدیلی سے ہی اس خطہ میں مہم جوئی کا کاوٴنٹ ڈاوٴن شروع کرسکیں گے۔ بادل دیکھ کر بارش کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ حالات کو غور سے دیکھیے۔ سب کچھ خود بہ خود سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
اس کے بعد 26 مئی کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے عنوان سے پوسٹ آرٹیکل کے چند پیراگراف اور دیکھیے۔آپ پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ دیکھیں، اپریل مئی جون میں کبھی بھی مارشل لاء نہیں لگایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپریل مئی میں بجٹ کی تیاری شروع ہوتی ہے اور جون کے اوائل میں بجٹ پیش ہوتا ہے اور جون کے آخر تک اسے منظور کرلیا جاتا ہے جو یکم جولائی سے نافذالعمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد فوجی طالع آزماوٴں کے لیے ملک چلانا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے جولائی تا اکتوبر کے مہینے پاکستان میں فوجی طالع آزمائی کے حوالے سے بہترین تصور کیے جاتے ہیں۔
اب پھر سے تمام نقاط کو جوڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کیا شکل بن رہی ہے۔ معاملہ حامد میر سے شروع ہوا، اس کے بعد جیو پر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آئی ایس آئی کے خلاف مہم شروع کی گئی۔آئی ایس آئی کے خلاف اس مہم میں نواز حکومت مشتبہ انداز میں مسکراتی رہی اور کہا گیا کہ یہ نواز حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو نکیل ڈالنے کی کوشش ہے۔ جواب میں آئی ایس آئی نے اپنے تمام آلات کار متحرک کیے اور جوابی حملے شروع کردیے۔ اسی اثناء میں شائستہ واحدی کے شو کو بنیاد بنایا گیا اور آئی ایس آئی نے ریباوٴنڈ ایک نئی پچ پر کھیلا۔ اب کی مرتبہ کیا شیعہ اور کیا سُنّی ، ہر کھلاڑی کو میدان میں اتار دیا گیا اور کھیل کو نیا رُخ دے دیا گیا۔اب اصل معاملہ کہیں پر دفن ہوچکا ہے اور کھیل فوج کی حمایت میں ریلیوں کی صورت میں کھیلا جارہا ہے۔ اب جیو کا جنگلی گھوڑا بھی قابو آچکا ہے اور سواری کے لیے میسر ہے۔ اچانک ہی شمالی وزیرستان میں فضائی حملے بڑھادیے گئے اور کہا گیا کہ اس کا ردعمل آسکتا ہے۔ اس کی آڑ میں اسلام آباد سمیت سارے شہروں کی سیکوریٹی کے نام پر نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔عملا اس وقت پورا پاکستان فوجی کنٹرول میں ہے۔یہ عمل اور ردعمل کی ایک پیچیدہ کہانی ہے جس کے نتیجے میں ملکی صورتحال کو انتہائی کامیابی سے مطلوبہ نہج پر پہنچادیا گیا ہے۔ ہر کیریکٹر نے اتنی کامیابی سے اپنا کردار ادا کیا ہے کہ انہیں آسکر ایوارڈ نہ دینا زیادتی ہوگی۔پاکستان میں مارشل لاء کے بارے میں میری تھیوری ایک مرتبہ پھر سے دیکھئے۔ پاکستان میں مارشل لاء اُسی وقت آیا ہے جب اس خطہ میں کوئی بڑا معاملہ ہونے والا ہوتا ہے۔ مارشل لاء آنے کے ایک سے ڈیڑھ سال کے اس خطہ میں کوئی بڑی تبدیلی آچکی ہوتی ہے۔ زرداری کے دور کو دیکھئے۔ اس سے زیادہ کمزور ترین حکومت شاید ہی کوئی اور پاکستانی تاریخ میں گزری ہو۔ ہر صبح کہا جاتا تھا کہ شام کا پتہ نہیں، ہر شام کو کہا جاتا تھا کہ صبح کا علم نہیں۔ کئی مرتبہ حالات اتنے بگڑے کہ زرداری خود فرار ہوکر دبئی پناہ گزیں ہوگئے مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی سازش کار اُس زمانے میں اس خطہ میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اب چار سرخ چاند گرہن کے حوالے سے صہیونیوں کی خوشیاں دیکھئے، عالمی معاملات دیکھئے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ برس تک کچھ کرنے کے منصوبے اور سازشیں ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پاکستان میں مارشل لاء کو خوش آمدید کہنے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھئے۔چونکہ کرپشن کے حوالے سے خود فوجیوں کا ریکارڈ کوئی قابل تحسین نہیں ہے اس لیے سول حکومت کو رخصت کرنے کے لیے اب چارج شیٹ میں بدعنوانی کی طویل فہرست نہیں ہوگی بلکہ اس میں ملک کو سیکوریٹی کو رسک پر رکھنے کا معاملہ سرفہرست ہوگا۔اب دیکھئے اور انتظار کیجئے۔
یکم جون کو پرویز مشرف کا مستقبل کے عنوان سے پوسٹ آرٹیکل کے آخری پیراگراف دیکھیے۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف پر الزامات کیا ہیں۔ ان پر ابھی تک بدعنوانی کے الزامات عائد ہی نہیں کیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف پر بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ انہوں نے مارشل لاء عائد کرکے ایک جمہوری حکومت کو رخصت کیا ، اس طرح وہ ملک کے آئین کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے، اسی طرح انہوں نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا ، لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کیے اور یہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھی۔ ذرا ایک منٹ کو تصور کیجئے کہ ان دونوں مقدمات کے تحت پرویز مشرف کو سزا ہوجاتی ہے ، چاہے وہ علامتی ہی کیوں نہ ہو تو پھر ملک میں آئندہ فوجی طالع آزمائی کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ تو فوجی طالع آزمائی کا ہمیشہ کے لیے راستہ روکنے کی بات ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سازش کار بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایسی کوئی مثال پیدا کی جائے اور نہ ہی فوج کی اعلیٰ قیادت۔ یہ سب پرویز مشرف کو نہیں بلکہ اپنے سیاسی مستقبل کو فوجی چھتری فراہم کررہے ہیں۔اگر اس خطہ میں آئندہ ایک دو برسوں میں کچھ ہونے جارہا ہے، جس کے آثار نظر آرہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں فوجی مارشل لاء۔ اور اگر پرویز مشرف کو سزا ہوگئی تو اس کی قانونی حیثیت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی اور آئندہ مارشل لاء لگانے والے کو مرنے کے بعد بھی پھانسی کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔بس یہی صورتحال مطلوب نہیں ہے۔
یہ اقتباسات میرے چند کالموںسے لیے گئے ہیں۔ جو اپنی تشریح آپ ہیں کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کہا جائے کہ یہ سب کچھ کسی اسکرپٹ کے مطابق نہیں ہے تو اس پر
صرف مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
http://www.masoodanwar.com/
http://masoodanwar.wordpress.com/2014/09/01/present-scenario-of-pakistan/