اسٹیٹ بینک کی مکمل خودمختاری پر وزیراعظم آفس کے اعتراضات

state11221.jpg


آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلیے حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کا بل پیش کیا، جس پر تشویش اور اعتراضات کئے جارہے ہیں، دوسری جانب اب اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کے بل پروزیراعظم آفس نے بھی سنجیدہ اعتراضات اٹھادیئے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی شہباز رانا نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل2021 میں حکومت پراسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی،گورنر کی مدت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے، اسٹیٹ بینک بورڈ کے ارکان کے کسی بھی حکومتی عہدیدار کو جوابدہ نہ ہونے پر سوالات اٹھائے گئے، وزیراعظم آفس نے اس حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار کردیا ہے،مجوزہ بل کی شق 46 B (4)کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کو وزیراعظم بھی معاشی امور سمیت کسی معاملے پرطلب نہیں کرسکیں گے۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیراعظم آفس کے ان اعتراضات کے باوجود آئی ایم ایف کے دباؤکی وجہ سے انھیں دور نہیں کیا گیا، وزیراعظم آفس مجوزہ بل کی شق 46 B (4)ختم کرنا چاہتا ہے۔

قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے بل کے تحت اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا ہمہ وقت احترام کیا جائے گا،اسٹیٹ بینک کے بورڈ ارکان،ایگزیکٹوکمیٹی ،مانیٹری پالیسی کمیٹی یا بینک کے دوسرے اسٹاف پر ان کی کارکردگی کے حوالے سے اثراندازہونے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

اس حوالے سے وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ آئی ایم ایف بعض ترامیم پر مصر تھا لیکن اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی ایسی ترمیم نہیں کی جائے گی جو آئین کے خلاف ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ اسٹیٹ بینک کو عالمی اصولوں کے مطابق خود مختاری دی جائے لیکن ایسا نہیں کہ اسٹیٹ بینک وفاقی حکومت کو پالیسیوں اور ڈائریکٹوز کو نظرانداز کرنا شروع کردے، اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ، وفاقی حکومت کو جوابدہ رہے گااور اسٹیٹ بینک کے گورنر سمیت تمام عہدیداربھی حکومت کو جوابدہ رہیں گے۔

اپوزیشن جماعتیں،میڈیا اور دیگرحلقوں کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے،قومی اسمبلی کے بعد اب یہ بل قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے پاس جائے گا جہاں اس پر شق وار بحث ہوگی۔
 

Back
Top