asadrehman
Chief Minister (5k+ posts)
عید مبارک۔ کیسی گزری ہے عید؟ نماز پڑھ لی؟ روزے پورے رکھے تھے؟ روزے لمبے تھے یا چھوٹے؟ روزے لگے تو نہیں؟ عید پہ کام سے چھٹی کی ہے؟ وہاں چھٹی نہیں ہوتی؟ موسم کیسا ہے عید پہ؟ یہاں تو گرمی ہے، لائیٹ نہیں آ رہی۔ وہی سوالات اور وہی جوابات۔ 'عید اچھی گزری ہے'۔۔۔نماز سب کے ساتھ مل کے پڑھی، روزے بھی پورے رکھے تھے، دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے بھی گئے تھے۔ عید کا دن ختم ہونے کا پتہ بھی نہ چلا۔
وہی رمضان کا مہینہ اور وہی سوالات۔ وہی عید کا دن اور وہی جوابات۔ زمانے گزر گئے، رشتے تبدیل ہو گئے، دن مہینوں اور سالوں میں بدل گئے لیکن ایک عید ہی نہ بدلی۔
پردیس بھی کیا عجب جگہ ہے اور پردیسی ہونا بھی کیسا تجربہ ہے۔ خط ہوں، تار ہوں، عید کارڈ ہوں، ٹیلی فون، ای میل اور موبائل ہوں یا وٹس ایپ۔ رابطے کے زرائع بدل گئے پردیسیوں کی عید کا زمانہ نہ بدل سکا۔
ان سب باتوں کا اور جواب ہے بھی کیا؟ ان سوالوں کے جواب تو ازل سے ایک ہی ہیں۔ کیا اُس ماں کو بتایا جا سکتا ہے کہ تیرا دل کا ٹکرا سحری کے بغیر ہی اکثر روزے رکھتا ہے؟ کیا بہنوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہاں افطاری پہ پکوڑوں اور لڑائی دونوں کا ہی وجود نہیں؟ کیا ابو اور بھائیوں کو یہ بتایا جائے کہ عید کی نماز کے بعد ملتے گلوں کے بیچ دل کرب کے احساسات سے چور ہوتا ہے؟
وطن میں رہنے والوں کو کیا خبر کہ بہت ہی دور کوئی سحری اور افطاری پہ تنہا کچھ کھا رہا ہے یا خود کو اور گرتے ہوئے آنسوؤں کو سنبھال رہا ہے۔ روزے چھوٹے ہوں یا لمبے۔ گرمیوں میں آئیں یا سردیوں میں۔ وہ پردیس کے جھمیلوں میں کٹ ہی جاتے ہیں۔ اور جب لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے تو روزے چھوٹے ہیں، یہاں تو ۱۶/۱۷ گھنٹے کے ہیں اور گرمی سے لگتے بھی بہت ہیں تو ایک پردیسی اُن کو کیا بتائے؟ کہ پردیس میں روزے نہیں عید لمبی ہوتی ہے۔ یہاں روزہ نہیں تنہائی لگتی ہے۔ ادھر روزے کے ۳۰ دن تو گزر جاتے ہیں لیکن عید کا ایک دن صدیوں پہ محیط ہوتا ہے۔ یہاں آنکھیں عید کا چاند نہیں وطن کو جانے والا جہاز تکتی ہیں۔ چاند نہیں ہجر کی رات منائی جاتی ہے۔ نماز سے پہلے شیر خرما نہیں خون کے گھونٹ پیے جاتے ہیں۔ سویاں نہیں ہونٹ کھائے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد انسان نہیں تنہائی اور دکھ گلے ملتے ہیں۔
پردیس میں عید کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے، گلے مل کے مبارکبادیں بھی دی جاتی ہیں، چند دوستوں اور کچھ احباب سے ملاقاتیں اور عید میلوں میں شرکت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ محبت، وہ خوشی اور وہ اپنائیت کا احساس دل کی گہرائی میں نوحے پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ بھانجے بھانجیاں۔ وہ بھتیجے بھتیجیاں اور وہ دوست احباب کے بچے وہ سب کہیں بہت دور خیالوں میں مسکراتے، عیدی مانگتے اور کم عیدی پہ منہ بناتے نظر آتے ہیں۔
لیکن ایک پردیسی یہ دکھ، یہ احساس، یہ تنہائی کا ماجرا سنائے بھی تو کسے؟ دکھائے بھی تو کس کو؟ درد کا اظہار کرے بھی تو کن سے؟ تو پھر جو کوئی پوچھتا ہے کہ عید کیسی گزری ہے۔ تو بہتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان مسکراتی ہوئی زبان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ ' اس دفعہ بھی عید بہت ہی اچھی گزری ہے'۔
مصروف ہے خلق عید کی تیاریوں میں اور میں۔۔۔
محوِ فکر ہوں کہ سب سے ہنس کر ملنا ہو گا۔۔۔
اسد رحمان۔ بقلم خود
وہی رمضان کا مہینہ اور وہی سوالات۔ وہی عید کا دن اور وہی جوابات۔ زمانے گزر گئے، رشتے تبدیل ہو گئے، دن مہینوں اور سالوں میں بدل گئے لیکن ایک عید ہی نہ بدلی۔
پردیس بھی کیا عجب جگہ ہے اور پردیسی ہونا بھی کیسا تجربہ ہے۔ خط ہوں، تار ہوں، عید کارڈ ہوں، ٹیلی فون، ای میل اور موبائل ہوں یا وٹس ایپ۔ رابطے کے زرائع بدل گئے پردیسیوں کی عید کا زمانہ نہ بدل سکا۔
ان سب باتوں کا اور جواب ہے بھی کیا؟ ان سوالوں کے جواب تو ازل سے ایک ہی ہیں۔ کیا اُس ماں کو بتایا جا سکتا ہے کہ تیرا دل کا ٹکرا سحری کے بغیر ہی اکثر روزے رکھتا ہے؟ کیا بہنوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہاں افطاری پہ پکوڑوں اور لڑائی دونوں کا ہی وجود نہیں؟ کیا ابو اور بھائیوں کو یہ بتایا جائے کہ عید کی نماز کے بعد ملتے گلوں کے بیچ دل کرب کے احساسات سے چور ہوتا ہے؟
وطن میں رہنے والوں کو کیا خبر کہ بہت ہی دور کوئی سحری اور افطاری پہ تنہا کچھ کھا رہا ہے یا خود کو اور گرتے ہوئے آنسوؤں کو سنبھال رہا ہے۔ روزے چھوٹے ہوں یا لمبے۔ گرمیوں میں آئیں یا سردیوں میں۔ وہ پردیس کے جھمیلوں میں کٹ ہی جاتے ہیں۔ اور جب لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے تو روزے چھوٹے ہیں، یہاں تو ۱۶/۱۷ گھنٹے کے ہیں اور گرمی سے لگتے بھی بہت ہیں تو ایک پردیسی اُن کو کیا بتائے؟ کہ پردیس میں روزے نہیں عید لمبی ہوتی ہے۔ یہاں روزہ نہیں تنہائی لگتی ہے۔ ادھر روزے کے ۳۰ دن تو گزر جاتے ہیں لیکن عید کا ایک دن صدیوں پہ محیط ہوتا ہے۔ یہاں آنکھیں عید کا چاند نہیں وطن کو جانے والا جہاز تکتی ہیں۔ چاند نہیں ہجر کی رات منائی جاتی ہے۔ نماز سے پہلے شیر خرما نہیں خون کے گھونٹ پیے جاتے ہیں۔ سویاں نہیں ہونٹ کھائے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد انسان نہیں تنہائی اور دکھ گلے ملتے ہیں۔
پردیس میں عید کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے، گلے مل کے مبارکبادیں بھی دی جاتی ہیں، چند دوستوں اور کچھ احباب سے ملاقاتیں اور عید میلوں میں شرکت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ محبت، وہ خوشی اور وہ اپنائیت کا احساس دل کی گہرائی میں نوحے پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ بھانجے بھانجیاں۔ وہ بھتیجے بھتیجیاں اور وہ دوست احباب کے بچے وہ سب کہیں بہت دور خیالوں میں مسکراتے، عیدی مانگتے اور کم عیدی پہ منہ بناتے نظر آتے ہیں۔
لیکن ایک پردیسی یہ دکھ، یہ احساس، یہ تنہائی کا ماجرا سنائے بھی تو کسے؟ دکھائے بھی تو کس کو؟ درد کا اظہار کرے بھی تو کن سے؟ تو پھر جو کوئی پوچھتا ہے کہ عید کیسی گزری ہے۔ تو بہتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان مسکراتی ہوئی زبان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ ' اس دفعہ بھی عید بہت ہی اچھی گزری ہے'۔
مصروف ہے خلق عید کی تیاریوں میں اور میں۔۔۔
محوِ فکر ہوں کہ سب سے ہنس کر ملنا ہو گا۔۔۔
اسد رحمان۔ بقلم خود
Last edited: