Arslan
Moderator
شامی فوج نے امریکی سپاہ کے نام انٹرنیٹ پرایک پیغام جاری کیا ہے کہ آپ ہمارے بھائی ہیں، ہمارا اور آپ کا دشمن مشترکہ ہے ، آپ شام آئیں لیکن حملہ کرنے کیلئے نہیں، آپ کا صدر اوباما امریکہ کا غدّار ہے ، آپ اس کا حکم نہ مانیں۔
اس پیغام پر دنیا بھر میں عام طور پر لوگوں نے یہی سمجھا کہ شام کی فوج ڈر گئی ہے اس لئے ایسے پیغام دے رہی ہے ۔ بے شک شام کی فوج ڈری ہوئی ہے لیکن اس پیغام کا تعلق ڈر سے نہیں، ایک اور سچّائی سے ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ بشار الاسد کی حامی ہے۔ بشار حکومت اٹھ گئی تو یوں سمجھئے کہ اسرائیل ایک شجر سایہ دار سے محروم ہو جائے گا اور اس کی جگہ ایسے عناصر لے لیں گے جو صہیونی ریاست کے لئے خطرناک ہوں گے ۔ شامی سپاہ نے اسی اسٹیبلشمنٹ کو صدا دی ہے۔یاد ہو گا کچھ ہی ماہ پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کیا کہا تھا۔ اسی خطرے کی دہائی دی تھی۔ ان کے الفاظ تھےشامی باغی دہشت گرد ہیں علاقے میں طاقت کا توزان بدل دیں گے(یعنی اسرائیل کمزور پڑ جائے گا)۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن بڑی مزے دار ہو گئی ہے۔ ایک طرف اوباما ہیں جو روایتی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں۔ روایتی اسٹیبلشمنٹ نے تواوباما کا صدر ہونا دل سے مانا ہی نہیں،اوباما کیا ، کوئی بھی سیاہ فام صدر اسے قبول نہیں ہے۔ ہر طرح کی آئینی مساوات کے باوجود امریکہ کا ضمیر سیاہ فاموں کو برابر کا انسان ماننے کے لئے تیار نہیں اور اب بھی نسلی امتیاز کے مظاہرے دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔شام کے مسئلے پراوباما کا ساتھ دینے والے اسٹیبلشمنٹ کے وہ لوگ ہیں جو سمجھ گئے ہیں کہ بشار کو بچانا ممکن نہیں اور ہم نے کچھ نہ کیا تو اسرائیل کے مخالف آ جائیں گے۔ یہ لوگ شامی عوام کو قتل عام سے بچانے کے لئے مداخلت نہیں کررہے، اسی خطرے سے بچاؤ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک بار حملہ کر کے شامی باغیوں کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کی جائے گی ، اس کے بعد منصوبہ کے اگلے حصے پر عمل ہو گا۔ یہ اگلا حصہ سمجھنا مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل ایسے کہ امریکہ کی حکمت عملی راز میں ہے۔ لیکن آسان اس لئے کہ بنیادی فارمولا کھلا راز ہے۔ یا تو شام کے تین حصہ کردیئے جائیں گے۔ ایک حصے پر صہیونی بشارالاسد کی حکومت رہے گی، دوسرے حصوں پر شامیوں اور کردوں کی الگ الگ حکومت بنا دی جائے گی اور یہ دونوں حکومتیں امریکہ کی محتاج ہوں گی۔ دوسری آپشن وہ ہے جس پر ایران کی بھرپور پارٹنرشپ امداد سے اس نے عراق میں عمل کیا۔ یعنی مختلف طبقوں میں خانہ جنگی چھیڑ دی جائے گی۔ ایسی خانہ جنگی جو دس سال سے بھی زیادہ چلے جیسا کہ عراق میں دس سال سے زیادہ ہو گئے اور چل رہی ہے۔
ادھر شامی حکومت نے دفاع کے لئے انوکھے طریقے اپنائے ہیں۔ اس نے 30ہزار اپنے ہی فوجی گرفتار کر رکھے ہیں جن کی وفاداریاں(چونکہ یہ سارے فوجی مسلمان ہیں) مشکوک ہیں اور انہیں ان عمارات میں بند کیا گیا ہے جہاں امریکی بمباری کا امکان ہے۔ یوں ان فوجیوں سے جان آسانی کے ساتھ چھوٹ جائے گی۔ منصوبہ یہ ہے کہ امریکہ ان عمارتوں پر بمباری کرنا بھول گیا تو شامی فوج بمباری کر دے گی اور اعلان کرے گی کہ امریکہ نے کی۔
شام کا مسئلہ ، خانہ جنگی کے حوالے سے عراق جیسا نہیں۔ عراق میں 60فیصد شیعہ تھے اور 40فیصد سنّی۔ یہاں خانہ جنگی کرائی جا سکتی تھی۔ شام کی مسلمان آبادی جو 80فیصد کے لگ بھگ ہے ، تقریباً ساری کی ساری سنّی ہے یعنی 77فیصد جبکہ شیعہ محض 3فیصد ہیں۔ اس لئے 77فیصد اور 3فیصد میں خانہ جنگی کرانے کی صورت نظر نہیں آتی۔ باقی 20 فیصد میں سے 9فیصد عیسائی ہیں اور 11فیصد حکمران مذہب کے لوگ یعنی الوائٹ اور اتفاق سے زیادہ تر الوائٹ لبنانی سرحد کے شمال میں سمندری ساحل سے لگنے والے مختصر سے علاقے میں رہتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے عیسائی بھی مین لینڈ سے بھاگ کر لبنان جا چکے ہیں۔ چنانچہ خانہ جنگی شیعہ سنّی ہو سکتی ہے نہ عیسائی مسلمان۔ نہ ہی الوائٹس اور مسلمانوں کے درمیان اس طرح کی طویل المعیاد جنگ ممکن ہے۔چنانچہ یہاں خانہ جنگی کا فارمولا سیکولر مسلمان بمقابلہ انتہا پسند مسلمان ہو گا۔ شام کی سپاہِ آزادی میں اس وقتاسلامی انتہا پسندوں کی اکثریت ہے، زیادہ تر فتوحات انہی کی ہیں اور سیکولر آرمی کم ہے لیکن امریکہ وہ جادوگر ہے جس نے مصر میں پے در پے پانچ انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنے والی جماعت اخوان المسلمون کو اتنی آسانی سے اقلّیت میں بدل دیا کہ اب ہر کوئی سمجھ رہا ہے کہ اخوان نے دھاندلی سے الیکشن جیتے تھے ورنہ اکثریت تو فوجی راج کی دیوانی اور حسنی مبارک کی پروانی تھی۔ اس جادوگر کے لئے شام کی اکثریتی انتہا پسند آرمی کو اقلّیت بنانا کون سا مشکل ہے۔ اس کے ڈرون حملوں نے صومالیہ میں اسلامی انقلابیوں کی فتوحات رول بیک کر کے وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنوا دی تھی۔ شام کی فضا میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ یہاں ڈرون نہیں آ سکتے۔
کہا جا رہا ہے کہ شام میں امریکی مداخلت بہت مختصر ہو گی ، شاید زیادہ سے زیادہ 60دن کیلئے۔ لیکن 60دن کے بعد ڈرون حملے نہیں ہوں گے، یہ کون کہہ سکتا ہے۔ بشار کی حکومت ختم ہونے (یا اسے اپنے مختصر سے علاقے میں محدود کرنے) کے بعد شام میں ایک نیا میدان جنگ بنے گا۔ امریکی اور اسرائیلی خفیہ ایجنٹ اوردہشت گرداتنی بڑی تعداد میں آئیں گے کہ شام دوسرا پاکستان بن جائے گا۔ اور شام میں اب جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ خرابی ہے تو ،جو کچھ ہونے والا ہے بڑی خرابی وہ ہو گا۔ شام اور لبنان ایک ہی ملک رہے ہیں ، جو کچھ شام میں ہوتا ہے، لبنان میں بھی ہو گا بلکہ شام سے بڑھ کر کہ یہاں شیعہ سنّی فسادات کرانے کا آئیڈیل ماحول امریکہ کو ملے گا۔ شام میں 30فیصد شیعہ اور 30فیصد ہی سنّی ہیں۔ امریکہ برابر کے جوڑ کی بنیاد پر ہونے والے اس دنگل کا کھل کر مزہ لے گا۔ یہاں ایک مزے دار بات یہ ہے کہ آج سے پندرہ بیس برس پہلے تک لبنان میں عیسائی اکثریت میں تھے یعنی کوئی53 فیصد۔ پھر دس بارہ سال پہلے مسلمان اور عیسائی برابر برابر ہو گئے لیکن اب مسلمان 60فیصد ہیں۔ اس کی وجہ عیسائیوں کے ہاں کم شرح پیدائش سے زیادہ یہ ہے کہ عیسائیوں کی کچھ تعداد یورپ اور امریکہ منتقل ہو گئی ہے۔ امریکہ بڑی آسانی سے مسلمانوں کی اکثریت ختم کردے گا۔ جس کے بعد لبنان دو کے بجائے تین مذاہب کا ملک بن جائے گا۔ پہلا مذہب عیسائی جو40فیصد ہونے کے ناطے سب سے بڑا بلاک ہوں گے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر شیعہ اور سنّی۔ ظاہر ہے جب بین الملّی فساد ہوں گے تو مسلمان کا لفظ بھاپ بن کر اڑ جائے گا ، پیچھے شیعہ اور سنّی رہ جائیں گے جو جدا جدا ہو کر عیسائیوں سے کم ہوں گے۔ البتہ ایک بات ابھی دیکھنے کی ہے ۔ وہ یہ کہ کوئی آٹھ دس لاکھ شامی لبنان میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔ پتہ نہیں ان میں سے کتنے(اور خدا جانے کب) واپس جائیں گے اور کتنے لبنان ہی میں رہ جائیں گے۔ اس طرح ڈیمو گرافی پھر بدلے گی۔
شام کا مسئلہ کچھ لوگوں کو بڑا سادہ نظر آ رہا ہے۔ یعنی امریکہ مداخلت کرے گا، پھر شام میں الیکشن کرائے جائیں گے اور معاملہ ختم ۔ افغانستان میں بھی ایسا ہی سادہ فارمولا تھا۔ طالبان حکومت ختم کر نے کے بعد انتخابات ۔ جیسی سادگی افغانستان میں دیکھنے کو ملی، شام میں بھی ویسی ہی ملے گی بلکہ اس سے بڑھ کر۔ اسرائیل اس جنگ کو اردن عراق اور ترکی تک پھیلا کر حجاز پر قبضے کا خواب دیکھ رہا ہے اور صرف حجاز ہی نہیں، فلسطین کے بعد دوسری مقدس ترین زمین اس کے لئے مصر کا سینائی ہے جسے اسرائیل کا حصّہ بنانے کیلئے مصری فوج اسرائیل سے بڑھ کر بے چین ہے۔