جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا گیا جو مبینہ آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کرے گا۔
بلوچستان کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی کمیشن میں شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک ہوئی جبکہ ان کی ایک وکیل کے ساتھ لیک ہونیوالی مبینہ آڈیو کے علاوہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی رہنما مسرت چیمہ کے ساتھ جو میبنہ آڈیو لیک ہوئی سمیت دیگر آڈیوز کی تحقیقات کی جائیں گی۔
آڈیولیکس کیلئے بنائے گئے حکومتی کمیشن پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے صحافی فہیم اختر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی منظوری کی بغیر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کو عدلیہ سے متعلق آڈیو لیکس انکوائری کمیشن میں ڈال دیا
https://twitter.com/x/status/1659855109403160577
انہوں نے مزید کہا کہ روایت کے مطابق سپریم کورٹ سے جج لینے کی صورت میں چیف جسٹس سے اجازت لی جاتی ہے،حکومت کا فاول تینوں اپنے ججز پھر ایکسپوز کردئیے
دلچسپ امر یہ ہے کہ آڈیو لیکس کی انکوائری میں چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔۔ ن لیگ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کی مخالفت میں رہی ہے اور کہتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کے داماد تحریک انصاف کے رہنما ہیں جس کی وجہ سے وہ جانبدار ہیں۔اسی طرح چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ مسرت ہلالی کی تعیناتی پر حکومت ناخوش ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ حکومت کے قریبی سمجھے جاتے ہیں جبکہ جسٹس عامرفاروق کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے ہے۔ اس تناظر میں تین بڑے صوبوں، سندھ، پنجاب اور خبرپختونخوا کے چیف جسٹسز کو شامل نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
ماضی میں روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی حکومت نے کسی ایشو پر انکوائری کرنا ہوتی ہے تو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس سے کمیشن کی سربراہی کیلئے جج کا مطالبہ کرتی ہے اور چیف جسٹس اپنی مرضی کے جج کو تعینات کرتا ہے۔ یہ صورتحال ماضی میں دھاندلی کے خلاف کمیشن میں دیکھی گئی تھی جہاں اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک نے خود جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کی تھی۔
کرپشن کراکے جنکو پالا گیا اب ان سے ہڈی راتب ڈالنے کا صلہ وفاداری وصول کرکے
ان سے شرمناک فیصلے لے کر پالستان کی سمجھدار عوام سے
ان کی اور اپنی ماں بہین ایک کرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے
پیسہ پھینک تماشہ دیکھ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیدیا گیا جو مبینہ آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کرے گا۔
بلوچستان کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی کمیشن میں شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک ہوئی جبکہ ان کی ایک وکیل کے ساتھ لیک ہونیوالی مبینہ آڈیو کے علاوہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی رہنما مسرت چیمہ کے ساتھ جو میبنہ آڈیو لیک ہوئی سمیت دیگر آڈیوز کی تحقیقات کی جائیں گی۔
آڈیولیکس کیلئے بنائے گئے حکومتی کمیشن پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے صحافی فہیم اختر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی منظوری کی بغیر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسی کو عدلیہ سے متعلق آڈیو لیکس انکوائری کمیشن میں ڈال دیا
https://twitter.com/x/status/1659855109403160577
انہوں نے مزید کہا کہ روایت کے مطابق سپریم کورٹ سے جج لینے کی صورت میں چیف جسٹس سے اجازت لی جاتی ہے،حکومت کا فاول تینوں اپنے ججز پھر ایکسپوز کردئیے
دلچسپ امر یہ ہے کہ آڈیو لیکس کی انکوائری میں چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔۔ ن لیگ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ امیر بھٹی کی مخالفت میں رہی ہے اور کہتی رہی ہے کہ چیف جسٹس کے داماد تحریک انصاف کے رہنما ہیں جس کی وجہ سے وہ جانبدار ہیں۔اسی طرح چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ مسرت ہلالی کی تعیناتی پر حکومت ناخوش ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ حکومت کے قریبی سمجھے جاتے ہیں جبکہ جسٹس عامرفاروق کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے ہے۔ اس تناظر میں تین بڑے صوبوں، سندھ، پنجاب اور خبرپختونخوا کے چیف جسٹسز کو شامل نہ کرنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
ماضی میں روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی حکومت نے کسی ایشو پر انکوائری کرنا ہوتی ہے تو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس سے کمیشن کی سربراہی کیلئے جج کا مطالبہ کرتی ہے اور چیف جسٹس اپنی مرضی کے جج کو تعینات کرتا ہے۔ یہ صورتحال ماضی میں دھاندلی کے خلاف کمیشن میں دیکھی گئی تھی جہاں اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک نے خود جوڈیشل کمیشن کی سربراہی کی تھی۔
اصل سوال کسی پین یک نے نہیں پوچھنا کہ یہ آڈیو لیکس کر کون رہا ہے۔ کال ریکارڈنگ کو بطور ثبوت تبھی مانا جا سکتا ہے جب اس کی باقاعدہ اجازت لی گئی ہو ورنہ الٹا کیس پڑتا ہے۔ یہ بات یہ جج اور وکیل سب اچھی طرح جانتے ہیں اور پوری دنیا بشمول پاکستان یہی قانون ہیں۔ پھر بھی یہ دلے اس بات پہ کمیشن نہیں بنا رہے بلکہ اس کی صداقت کے پیچھے پڑے ہیں۔