دوستو
میں یہاں ایک کہانی پیش کر رہا ہوں ، جس میں ہم "ورسٹ سینیریو مفروضہ" پر بات کریں گے
یا یوں کہہ لیں کہ " ہیں کواکب کچھ .. دکھاے جا رہے ہیں کچھ" کی منظر کشی تاکہ تفتیش فقط
"مہرے یا بلّی کے بکرے؟" تک ہی محدود نا رہے اور مزید کوئی زینب مسلی نہ جاے
ورسٹ سینیریو مفروضہ
میں قصور شہر کا انتہائی بارسوخ شخص ہوں اور پورے قصور شہر میں ڈی پی او لیول
سے لے کر ہر تھانے کا تھانیدار اور ایک ایک سپاھی میری مرضی سے تعینات ہوا ہے
میں ایک ذہنی مریض اور جنسی بھیڑیا بھی ہوں جس کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ ہو چکا ہے
کہ کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی کرنے سے میری جنسی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے
میں ایک بین الاقوامی نیٹ ورک جو بچوں کا لائیو ریپ .. اور آن ڈیمانڈ زخم لگانے اور
پھر فائنل بولی پر لائیو قتل کرنے والا ڈارک ویب روم بھی چلاتا ہوں تاکہ اپنی جنسی
ضرورت پوری کرنے کے بعد بے انتہا پیسا کمانے کے ساتھ ساتھ استعمال شدہ بچیوں سے
ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر کے محفوظ بھی رہ سکوں
اس کام کے لیے مجھے صرف ایک ایسا ادارہ قابو کرنا ہے جو میرے لیے جنسی حیوانگی
کا دورہ پڑنے پر راز داری سے ایک کمسن شکار مجھے میرے ڈیرے پر مہیا کر سکے اور
یہ کام "علاقہ تھانے دار " سے بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا ... لہذا میں نے اپنا خاص بندہ
یا بندے قریب کے ٣/٤ تھانوں میں تعینات کروا رکھے ہیں اور انہیں یہ ٹاسک پورا کرنے
پر لگا رکھا ہے
تھانے دار نے اس کام کو پورا کرنے کے لیے سپاہیوں اور مخبروں / دلالوں کا چھوٹا نیٹ
ورک علاقے میں بنا رکھا ہے ... مخبر / دلال کمسن بچیوں کی نشان دہی کرنے سے اغوا
کر کے سپاہیوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ... پھر سپاہی سرکاری پولیس موبائل یا سرکاری
نمبر لگی سیاہ شیشوں والی گاڑی میں ایس ایچ او تک پہنچانے کے اور پھر مغویہ کو ڈیرے
تک پہنچانے کے ذمہ داری ایس ایچ او کی ہے
میری جنسی درندگی کے بعد بھی جو کمسن بچی زندہ رہ جاے پھر اس کو ڈارک روم
تک پہچانا بھی اسی ایس ایچ او کی ذمداری میں شامل ہے جہاں موجود درندے زندگی
کی آخری رمق نچوڑنے تک فطری و غیر فطری دونوں طرف سے زیاتاتی کا عمل
لائیو ویب پر بار بار براہ راست دھراتے ہیں ... اس سے ایک تو بے پناہ مال میں کماتا
ہوں دوسری طرف ڈے این اے ٹیسٹ کی صورت میں میرے پکڑے جانے کا امکان بھی
تقریبآ نابود ہو جاتا ہے
بچی کی موت واقع ہو جانے کے بعد بچی کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لئے بچی کو
اس کمرے تک پہنچانے والی چین کا ریورس ہوتا ہے فقط ایک آخری مہرا مائنس ہوتا
ہے یعنی لاش کو وصول کرنے والے سپاہی پولیس موبائل میں گشت کے بہانے سہولت
کے مطابق زیر تعمیر مکان/ پارک / کچرا کونڈی پر ٹھکانے لگاتے ہیں
اب کسی کا باپ بھی مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرے .. تو نہیں پہنچ سکتا