ٹیکسٹائل سیکٹر نے حکومت کو براہ راست ایل این جی درآمد کرنے سمیت اس شعبے میں اصلاحات کے لیے کئی سفارشات پیش کردیں اور حکومت سے 329.5 ارب مالیت کے ری فنڈز مانگ لئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برآمدات میں کمی کو روکنے کے لیے فوری فیصلے کرنے پر زور دیتے ہوئے، ٹیکسٹائل رہنماؤں نے جمعرات کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے 329.5 ارب روپے کے زیر التواء ریفنڈز کی فوری ادائیگی کا حکم دینے کا مطالبہ کیا۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے چیئرمین کامران ارشد کی قیادت میں ایک وفد نے وزیر خزانہ کو ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا اور ان کے جلد از جلد حل پر زور دیا۔کامران ارشد نے وزیر کو زیر التواء ریفنڈز پر بریفنگ دی اور ٹیکس، توانائی اور مالیات سے متعلق ٹیکسٹائل شعبے کی مشکلات کے حل کے لیے پالیسی اقدامات کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایشن کی سفارشات کو آئندہ بجٹ میں شامل کیا جانا چاہیے۔
صنعت سے وابستہ رہنما ریفنڈز کی تاخیر سے ناخوش تھے، جو آٹھ مختلف کیٹیگریز میں زیر التواء تھے اور جس کی وجہ سے شدید مالی بحران پیدا ہوا۔ مجموعی طور پر 329.5 ارب روپے کے بقایا ریفنڈز میں سے ایک بڑی رقم 105 ارب روپے کے مؤخر شدہ سیلز ٹیکس پر مشتمل ہے، اس کے بعد 100 ارب روپے انکم ٹیکس، 55 ارب روپے سیلز ٹیکس، اور باقی دیگر کیٹیگریز میں شامل ہیں۔
انہوں نے ریفنڈ کی ادائیگی میں طویل تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے حکومت پر اعتماد کو نقصان پہنچا اور نئے پروگراموں پر یقین کمزور ہوا، کیونکہ قابل ادا بقایا جات کی بڑی رقم اب تک واجب الادا ہے
ٹیکسٹائل سیکٹر نے 9 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو پر ایل این جی کی سپلائی کی اجازت دینے، ٹیکسٹائل سیکٹر کو نئی دریافت شدہ گیس کا 35 شیئر خریدنے کی اجازت دینے، ٹیکسٹائل سیکٹر کی درآمدی ایل این جی پر ٹیکسز، ڈیوٹیز اور کراس سبسڈی ختم کرنے کی بھی تجاویز دی ہیں۔
سفارشات میں کہا گیا ہے کہ صنعتی صارفین پر 100 ارب روپے کی کراس سبسڈی ختم کی جائے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجلی کا نرخ 9 سینٹ فی یونٹ مقرر کیا جائے، صنعتوں کو بجلی خریداری کے بزنس ٹو بزنس معاہدوں کی اجازت دی جائے، صنعتوں کو بجلی کی خریداری کے لیے 5 سینٹ فی یونٹ ویلنگ چارجز کی اجازت دی جائے۔