محترم صوبائی وزیر جناب سعید غنی صاحب نے آج اپنے بغل میں بیٹھے شمشاد قریشی صاحب، جو کہ پاکستان اسٹیل ملز میں پیپلز لیبر یونین کے صدر ہیں، اور ایک کی جگہہ تین سرکاری مکانوں پر قابض ہیں، کے ہمراہ ایک دھواں دار قسم کی پریس کانفرنس کرڈالی۔ جسکے نمایاں نکات درج ذیل ہیں۔
۔1 حکومت اگر دو سو ارب روپے کے قرض کا کوئی حل نکال کر اسٹیل ملز کسی پرائیوٹ انویسٹر کو دے رہی ہے تو اس کی جگہہ ہم یہ ملز لینے کو تیّار ہیں۔ حکومت دو سو ارب کے قرضے کہ کچھ کر لے، باقی ہم چلا لیں گے اسٹیل ملز کو۔
اب اس سوال کا جواب تو نہایت ہی سیدھا سا ہے کہ جب آپ کے پاس وفاق میں حکومت تھی، تو آپ کیوں یہ اسٹیل ملز نہ چلا سکے؟ آپ کے ہی دور سے کیوں یہاں تباہی کی داستان شروع ہوئی؟ اور آپ جب تب کچھ نہ کر سکے، تو اب آپ نے کونسا جادوگر کی ٹوپی سے کبوتر یا خرگوش نکال کر دکھانے ہیں؟
۔2 حکومت ہمارے ساتھ پلان شئیر کرے کہ اس کے پاس اسٹیل ملز کے لیئے کیا لائحہ عمل ہے؟ اگر ہمیں پسند آیا تو ہم مانیں گے نہیں تو ہم سی سی آئی میں اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
اس سوال کا جواب سیدھا سا ہے اور آپکو معلوم بھی ہے کہ نجکاری کے عمل کے لیئے پہلے ایک فنانشل کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جو کہ اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ کن شرائط اور ضوابط پر نجکاری کرنا حکومت اور عوام کے لیئے سودمند ہے؟ پھر یہ تجاویزنجکاری کمیشن کو جاتی ہیں، جو کہ نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ ان تجاویز کی روشنی میں ٹینڈر طلب کرتی ہے۔ پھر کامیاب پارٹیوں کے ساتھ جو کہ زیادہ پیسے دے رہے ہوں اور شرائط و ضوابط پر بھی مکمل یا زیادہ تر باتوں پر راضی ہوں، ان کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر ایک کنٹریکٹ تشکیل دیا جاتا ہے جس پر دونوں پارٹیاں دستخط کرتی ہیں۔
اب کیا آپکو معلوم نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے فنانشل کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر لی ہیں اور انھوں نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسے میں آپکا سوال ایسے ہی ہےجیسے ابھی شادی ہوئی نہیں اور آپ نے بچوں کا نام پوچھنا شروع کردیا۔
لیکن یہاں ایک سوال حکومت سندھ سے ضرور بنتا ہے، کہ پہلے آپ عوام کو بتائیں کہ آپ کے پاس ایسا کونسا پلان ہے جو کہ حکومت کو ماننا چاہیئے، اور آپ اس بات کو کیسے یقینی بنائیں گے کہ اسٹیل ملز دوبارہ منافع میں چلے اور اس پر لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ مزید ضائع نہ ہو؟ اگر آپ یہ نہیں بتا سکتے تو آپ کی بات ایسے ہی ہے کہ پچھلا نقصان حکومت پھر سے عوام کے پیسے سے بھر دے اور آپکو نئے سرے سے نقصان کرنے کا ایک موقع دوبارہ دیں۔ نہیں تو آپ ان نو ہزار مزدوروں کی نوکری کے لیئے باقی ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی صحت اور تعلیم کا پیسہ ضائع کرواتے رہیں گے کہ یہ مزدور بے روزگار نہ ہوں، چاہے باقی ملک میں لوگ مرتے ہیں تو مر جائیں۔
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ حکومت سندھ اپنے صوبے کو چھوڑ، کراچی میں صرف صفائی کا اور پانی کا ہی مسئلہ حل کر لے تو ان کی استطاعت سے بڑھ کر ہے۔ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی بات تو چھوڑیں، یہ اگلے بیس سال تک بھی ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیئے شائد تیّار نہ ہو سکیں۔ لہٰذا ہم ان سے ان کی استظاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے کے حق میں بلکل نہیں ۔
۔3 اسٹیل ملز کی نجکاری میں اس کی زمین کی خرد برد کی جارہی ہے۔
جناب، دو مرتبہ حماد اظہر اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ صر ف اور صرف اٹھارہ سو ایکڑ کا علاقہ، جس پر اسٹیل ملز کا پلانٹ لگا ہوا ہے، اسکو ’’لیز‘‘ یعنی ٹھیکے پر دیا جائے گا۔ باقی کی ساری زمین اسٹیل ملز کارپوریشن کی ہی ملکیت میں رہیں گے۔ آپکو اور کتنی مرتبہ یہ بات سمجھانی پڑے گی؟ چلیں ایک مرتبہ اور یہاں سن لیں۔
۔4 پاکستان اسٹیل ملز کی زمین سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔
یقین کریں کہ یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے۔ نہ تو حکومت سندھ اور نہ ہی اسٹیل ملز کارپوریشن کی انتظامیہ۔ آپ پتہ نہیں کہاں سے یہ نقطہ اس وقت اٹھا کر لے آئے ہیں؟
اسٹیل ملز ایک ادارہ ہے جس کے تمام تر اثاثہ جات کی مالک، بہ شمول اسکی زمین کے، اسٹیل ملز کارپوریشن ہے۔ اس میں جو بھی اینٹ ، پتھر، کنکر، بجری، مٹیَ، سب کی مالک اسٹیل ملز کارپوریشن ہے۔ اس بات کا ثبوت یہاں سے ملتا ہے کہ یہاں تویرقی اسٹیل ملز کا قیام، پاکستان سوزوکی موٹرز، ہب کو ، اینوی کریٹ وغیرہ جنکو بھی یہاں زمین ملی، اسٹیل ملز کارپوریشن نے ہی دی۔
ہاں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ بحریہ ٹاوٗن کے مالک ، جناب ملک ریاض صاحب کے ساتھ سندھ حکومت کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت سندھ نے غلط طور سے سرکاری زمین ملک ریاض صاحب کو الاٹ کی۔ وہ مقدمہ ہمارے یہاں انصاف کی نظر ایسے ہوا کہ ملک ریاض کو کچھ جرمانہ کر کے اس کی ملکیت انھیں سونپ دی گئی۔ اب سندھ حکومت نے نہیں بتایا کہ اس تناظر میں انھوں نے کبھی ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی اقدامات کیئے جنھوں نے خلاف قانون یہ زمین ملک ریاض صاحب کو بیچی۔
ایسی صورتحال میں آپ کا پاکستان اسٹیل ملز کی زمین کو بار بار سندھ حکومت کی ملکیت کہنے کے نعرے کا کیا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے؟ کیا کل کو کوئی اور حکومت سندھ کا اہلکار کہیں پھر سے بحریہ ٹاوٗن والی غلطی کر کے اس زمین کو بھی ملک ریاض کے حوالے کردے، تو آپ کیا کریں گے؟ عدالت سے پھر سے جرمانہ؟ اور وہ بھی ان عدالتوں سے جہاں جج اور وکیل، سب آپ کے اپنے بیٹھے ہوتے ہیں؟ آپ عوام کو یہ یقین کیسے دلوائیں گے کہ حکومت سندھ اس زمین کی نہ صرف مالک ہے، بلکہ بجا طور اس کی حفاظت کرنے کی اہل بھی ہے؟اور اگر نہیں ہے، تو میرا خیال ہے کہ اس زمین کو آپکی تحویل میں دینا بلکل ایسے ہی ہے جیسے بلّی کو چھچھڑوں کی رکھوالی پر معمور کرنا۔
ْقصّہ مختصر یہ کہ جب یہ ادارہ خسارے کا شکار ہوا، تب آپ کہاں تھے؟ جب نون لیگ کو آپ نے اس ملز کو چلانے کے لیئے تجاویز دیں، اور وہ نہیں سنی گئیں، بہ قول آپ کے تو آپ نے کیا اقدامات کیئے؟ تب آپ کی پریس کانفرنس، احتجاج اور یہ ساری دھمکیاں کہاں تھیں؟ اور اب یہ بتائیں کہ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ عوام کے ٹیکس کے یہ ارپوں روپے جو ان ملازمین کی تنخواہوں میں مفت میں جاتے ہیں، ان سے کتنے لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں؟ کتنے بچے تعلیم حاصل کر سکتے تھے؟ کتنے لوگ فٹ پاتھ زندگی گزارنے سے بچھ سکتے تھے؟ کتنے پڑھے لکھے بیروزگار، جنھوں نے بیروزگاری سے تنگ آکر جرائم کا راستہ اختیار کیا، انکو اس گمراہی سے بچایا جا سکتا تھا؟
پھر یہ بھی بتائیں کہ اسٹیل ملز کی نجکاری سے یہاں نوکریاں ختم نہیں ہوجائیں گی، بلکہ ان لوگوں کو جو اصل محنت کش ہیں، یہاں پر اس ملز کے چلنے کے بعدمحنت کر کے روزگار حاصل ہوگا۔ نہیں ہوگا، تو نا اہل اور سفارشیوں کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ یہ ملز چلنے کے بعد پاکستان کی عوام کے ٹیکس کے پیسے کھا کر ان کی زندگی کی مشکلات نہیں بڑھائے گی، بلکہ خود کما کر اپنے دکھ اور درد سے ستائے لوگوں کے لیئے سہارا بنے گی۔
صاحب اب یہ اسٹیل ملز چلے گی، یہ بوجھ نہیں بنے گی، یہ سہارا بنے گی۔نجکاری کے بعد یہ یہاں کے کرپٹ سیاستدانوں کے ہتھے پھر سے نہیں چڑھے گی۔ یہ چلے گی اور انشاءاللہ چلتی جائے گی۔
۔1 حکومت اگر دو سو ارب روپے کے قرض کا کوئی حل نکال کر اسٹیل ملز کسی پرائیوٹ انویسٹر کو دے رہی ہے تو اس کی جگہہ ہم یہ ملز لینے کو تیّار ہیں۔ حکومت دو سو ارب کے قرضے کہ کچھ کر لے، باقی ہم چلا لیں گے اسٹیل ملز کو۔
اب اس سوال کا جواب تو نہایت ہی سیدھا سا ہے کہ جب آپ کے پاس وفاق میں حکومت تھی، تو آپ کیوں یہ اسٹیل ملز نہ چلا سکے؟ آپ کے ہی دور سے کیوں یہاں تباہی کی داستان شروع ہوئی؟ اور آپ جب تب کچھ نہ کر سکے، تو اب آپ نے کونسا جادوگر کی ٹوپی سے کبوتر یا خرگوش نکال کر دکھانے ہیں؟
۔2 حکومت ہمارے ساتھ پلان شئیر کرے کہ اس کے پاس اسٹیل ملز کے لیئے کیا لائحہ عمل ہے؟ اگر ہمیں پسند آیا تو ہم مانیں گے نہیں تو ہم سی سی آئی میں اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
اس سوال کا جواب سیدھا سا ہے اور آپکو معلوم بھی ہے کہ نجکاری کے عمل کے لیئے پہلے ایک فنانشل کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جو کہ اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ کن شرائط اور ضوابط پر نجکاری کرنا حکومت اور عوام کے لیئے سودمند ہے؟ پھر یہ تجاویزنجکاری کمیشن کو جاتی ہیں، جو کہ نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ ان تجاویز کی روشنی میں ٹینڈر طلب کرتی ہے۔ پھر کامیاب پارٹیوں کے ساتھ جو کہ زیادہ پیسے دے رہے ہوں اور شرائط و ضوابط پر بھی مکمل یا زیادہ تر باتوں پر راضی ہوں، ان کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر ایک کنٹریکٹ تشکیل دیا جاتا ہے جس پر دونوں پارٹیاں دستخط کرتی ہیں۔
اب کیا آپکو معلوم نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے فنانشل کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر لی ہیں اور انھوں نے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسے میں آپکا سوال ایسے ہی ہےجیسے ابھی شادی ہوئی نہیں اور آپ نے بچوں کا نام پوچھنا شروع کردیا۔
لیکن یہاں ایک سوال حکومت سندھ سے ضرور بنتا ہے، کہ پہلے آپ عوام کو بتائیں کہ آپ کے پاس ایسا کونسا پلان ہے جو کہ حکومت کو ماننا چاہیئے، اور آپ اس بات کو کیسے یقینی بنائیں گے کہ اسٹیل ملز دوبارہ منافع میں چلے اور اس پر لوگوں کے ٹیکس کا پیسہ مزید ضائع نہ ہو؟ اگر آپ یہ نہیں بتا سکتے تو آپ کی بات ایسے ہی ہے کہ پچھلا نقصان حکومت پھر سے عوام کے پیسے سے بھر دے اور آپکو نئے سرے سے نقصان کرنے کا ایک موقع دوبارہ دیں۔ نہیں تو آپ ان نو ہزار مزدوروں کی نوکری کے لیئے باقی ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی صحت اور تعلیم کا پیسہ ضائع کرواتے رہیں گے کہ یہ مزدور بے روزگار نہ ہوں، چاہے باقی ملک میں لوگ مرتے ہیں تو مر جائیں۔
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ حکومت سندھ اپنے صوبے کو چھوڑ، کراچی میں صرف صفائی کا اور پانی کا ہی مسئلہ حل کر لے تو ان کی استطاعت سے بڑھ کر ہے۔ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی بات تو چھوڑیں، یہ اگلے بیس سال تک بھی ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیئے شائد تیّار نہ ہو سکیں۔ لہٰذا ہم ان سے ان کی استظاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے کے حق میں بلکل نہیں ۔
۔3 اسٹیل ملز کی نجکاری میں اس کی زمین کی خرد برد کی جارہی ہے۔
جناب، دو مرتبہ حماد اظہر اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ صر ف اور صرف اٹھارہ سو ایکڑ کا علاقہ، جس پر اسٹیل ملز کا پلانٹ لگا ہوا ہے، اسکو ’’لیز‘‘ یعنی ٹھیکے پر دیا جائے گا۔ باقی کی ساری زمین اسٹیل ملز کارپوریشن کی ہی ملکیت میں رہیں گے۔ آپکو اور کتنی مرتبہ یہ بات سمجھانی پڑے گی؟ چلیں ایک مرتبہ اور یہاں سن لیں۔
۔4 پاکستان اسٹیل ملز کی زمین سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔
یقین کریں کہ یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے۔ نہ تو حکومت سندھ اور نہ ہی اسٹیل ملز کارپوریشن کی انتظامیہ۔ آپ پتہ نہیں کہاں سے یہ نقطہ اس وقت اٹھا کر لے آئے ہیں؟
اسٹیل ملز ایک ادارہ ہے جس کے تمام تر اثاثہ جات کی مالک، بہ شمول اسکی زمین کے، اسٹیل ملز کارپوریشن ہے۔ اس میں جو بھی اینٹ ، پتھر، کنکر، بجری، مٹیَ، سب کی مالک اسٹیل ملز کارپوریشن ہے۔ اس بات کا ثبوت یہاں سے ملتا ہے کہ یہاں تویرقی اسٹیل ملز کا قیام، پاکستان سوزوکی موٹرز، ہب کو ، اینوی کریٹ وغیرہ جنکو بھی یہاں زمین ملی، اسٹیل ملز کارپوریشن نے ہی دی۔
ہاں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ بحریہ ٹاوٗن کے مالک ، جناب ملک ریاض صاحب کے ساتھ سندھ حکومت کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت سندھ نے غلط طور سے سرکاری زمین ملک ریاض صاحب کو الاٹ کی۔ وہ مقدمہ ہمارے یہاں انصاف کی نظر ایسے ہوا کہ ملک ریاض کو کچھ جرمانہ کر کے اس کی ملکیت انھیں سونپ دی گئی۔ اب سندھ حکومت نے نہیں بتایا کہ اس تناظر میں انھوں نے کبھی ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی اقدامات کیئے جنھوں نے خلاف قانون یہ زمین ملک ریاض صاحب کو بیچی۔
ایسی صورتحال میں آپ کا پاکستان اسٹیل ملز کی زمین کو بار بار سندھ حکومت کی ملکیت کہنے کے نعرے کا کیا مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے؟ کیا کل کو کوئی اور حکومت سندھ کا اہلکار کہیں پھر سے بحریہ ٹاوٗن والی غلطی کر کے اس زمین کو بھی ملک ریاض کے حوالے کردے، تو آپ کیا کریں گے؟ عدالت سے پھر سے جرمانہ؟ اور وہ بھی ان عدالتوں سے جہاں جج اور وکیل، سب آپ کے اپنے بیٹھے ہوتے ہیں؟ آپ عوام کو یہ یقین کیسے دلوائیں گے کہ حکومت سندھ اس زمین کی نہ صرف مالک ہے، بلکہ بجا طور اس کی حفاظت کرنے کی اہل بھی ہے؟اور اگر نہیں ہے، تو میرا خیال ہے کہ اس زمین کو آپکی تحویل میں دینا بلکل ایسے ہی ہے جیسے بلّی کو چھچھڑوں کی رکھوالی پر معمور کرنا۔
ْقصّہ مختصر یہ کہ جب یہ ادارہ خسارے کا شکار ہوا، تب آپ کہاں تھے؟ جب نون لیگ کو آپ نے اس ملز کو چلانے کے لیئے تجاویز دیں، اور وہ نہیں سنی گئیں، بہ قول آپ کے تو آپ نے کیا اقدامات کیئے؟ تب آپ کی پریس کانفرنس، احتجاج اور یہ ساری دھمکیاں کہاں تھیں؟ اور اب یہ بتائیں کہ کیا آپ کو نہیں معلوم کہ عوام کے ٹیکس کے یہ ارپوں روپے جو ان ملازمین کی تنخواہوں میں مفت میں جاتے ہیں، ان سے کتنے لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں؟ کتنے بچے تعلیم حاصل کر سکتے تھے؟ کتنے لوگ فٹ پاتھ زندگی گزارنے سے بچھ سکتے تھے؟ کتنے پڑھے لکھے بیروزگار، جنھوں نے بیروزگاری سے تنگ آکر جرائم کا راستہ اختیار کیا، انکو اس گمراہی سے بچایا جا سکتا تھا؟
پھر یہ بھی بتائیں کہ اسٹیل ملز کی نجکاری سے یہاں نوکریاں ختم نہیں ہوجائیں گی، بلکہ ان لوگوں کو جو اصل محنت کش ہیں، یہاں پر اس ملز کے چلنے کے بعدمحنت کر کے روزگار حاصل ہوگا۔ نہیں ہوگا، تو نا اہل اور سفارشیوں کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ یہ ملز چلنے کے بعد پاکستان کی عوام کے ٹیکس کے پیسے کھا کر ان کی زندگی کی مشکلات نہیں بڑھائے گی، بلکہ خود کما کر اپنے دکھ اور درد سے ستائے لوگوں کے لیئے سہارا بنے گی۔
صاحب اب یہ اسٹیل ملز چلے گی، یہ بوجھ نہیں بنے گی، یہ سہارا بنے گی۔نجکاری کے بعد یہ یہاں کے کرپٹ سیاستدانوں کے ہتھے پھر سے نہیں چڑھے گی۔ یہ چلے گی اور انشاءاللہ چلتی جائے گی۔
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/IWoh15l.jpg