آئی ایم ایف ہدایات کے باوجود پارلیمانی ترقیاتی اسکیموں کے فنڈز میں اضافہ

MtEb3959nK.jpg


وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات کے باوجود پارلیمانی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز میں تین گنا اضافہ کر دیا۔

وفاقی حکومت نے اس ماہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام (ایس اے پی) کے تحت پارلیمانی اراکین کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز میں تقریباً تین گنا اضافہ کر دیا ہے، حالانکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس زمرے میں اخراجات کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ فنڈز کی کل رقم 48.3 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، جو وزارت خزانہ کی مقرر کردہ حد سے 19 ارب روپے زیادہ ہے۔

خزانہ ڈویژن نے جولائی سے مارچ تک کے لیے سالانہ مختص فنڈز میں سے صرف 60 فیصد فنڈز جاری کرنے کی پابندی عائد کی تھی، لیکن منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے 17 جنوری کو اضافی 18.4 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی، جبکہ اس سے صرف چار دن قبل 12.5 ارب روپے جاری کیے گئے تھے۔ اس طرح کل جاری کردہ فنڈز 48.3 ارب روپے تک پہنچ گئے، جو مالی سال 2023-24 کی پہلی تین سہ ماہی کے لیے مقرر کردہ 29 ارب روپے کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے اضافی فنڈز کی درخواست کی گئی تھی، جبکہ اتحادی سیاسی جماعتوں نے اپنے حلقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ حکام نے بغیر کسی مالی جائزے کے ان مطالبات کو بے دریغ منظور کر لیا۔

اس فنڈنگ کے نتیجے میں بجٹ پر دباؤ بڑھ گیا ہے، جس نے حکومت کی مجموعی مالی ضروریات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مالی سال 2023-24 کے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں بجلی سبسڈیز اور دیگر خساروں کو پورا کرنے کے لیے 300 ارب روپے کی کمی کر کے اسے 1.1 کھرب روپے تک محدود کر دیا گیا تھا۔

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کی جانب سے اخراجات کم کرنے اور مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے دباؤ کا شکار ہے۔ پارلیمانی اراکین کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری مالیاتی نظم و ضبط کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مالیاتی حدود کو نظر انداز کرنے کے اقدامات سے نہ صرف ملکی معیشت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں عوامی فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی اور معاشی استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔

وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت مالیاتی پالیسیوں کو نظر انداز کرنا ملک کے طویل المدتی معاشی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کرتے ہوئے مالیاتی نظم و ضبط کو بحال کرتی ہے یا سیاسی مصلحتوں کو ترجیح دیتی رہتی ہے۔
 

Back
Top