
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے باعث پاکستان میں مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کے قیام کے نتیجے میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت اس کی اصل قدر سے 67 روپے زیادہ ہے۔ ٹیکس ایڈوائزری فرم تولا ایسوسی ایٹس کے ساتھ ساتھ مختلف اقتصادی ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کا دباؤ نہ ہوتا تو اکتوبر کے آخر تک ڈالر کی قدر صرف 211 روپے 50 پیسے ہوتی۔
ٹربیبون کی رپورٹ کے مطابق، ڈالر کی قیمت اس کی حقیقی قدر سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور قرضوں پر واجب الادا سود کی رقم میں اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی بینک نے کہا ہے کہ روپے اور ڈالر کی موجودہ شرح مارکیٹ کی توقعات کے مطابق ہے، لیکن تولا ایسوسی ایٹس نے خبردار کیا ہے کہ پچھلے تین برسوں میں ڈالر کی بلند قیمت نے پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ڈالا ہے۔
فرم کا دعویٰ ہے کہ اگر روپے اور ڈالر کی شرح مبادلہ کو اس کی تخمینہ شدہ اوسط قیمت 211.5 روپے کی سطح پر ایڈجسٹ کیا جائے تو یہ معیشت کے لیے اہم فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر 2022 میں روپیہ 238 روپے ڈالر کے قریب ٹریڈ کر رہا تھا، لیکن اسحاق ڈار کے بطور وزیر خزانہ بننے کے بعد، بغیر کسی بنیادی معاشی تبدیلی کے، ڈالر کی قیمت 218 روپے تک پہنچ گئی۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ بیان دیا تھا کہ اقتصادی بنیادی اصولوں کی بنیاد پر روپے کی قیمت 240 روپے فی ڈالر سے آگے نہیں ہونی چاہیے اور انہوں نے لچکدار شرح مبادلہ کے نظام کی مخالفت کی۔ ان کے مطابق، اس طرح کا نظام معیشت اور عوام دونوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
تولا ایسوسی ایٹس کی جانب سے مزید کہا گیا کہ اگر روپیہ اپنی تخمینی تین سالہ اوسط 211.5 کے ارد گرد ٹریڈ کر رہا ہوتا تو جولائی تا اکتوبر کے عرصے کے دوران افراط زر کی شرح 8.7 فیصد سے کم ہو کر 4.67 فیصد تک آ سکتی تھی۔
یہ صورت حال پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کی عکاسی کرتی ہے اور اس کی مضبوطی کے لیے درست اقتصادی پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.postimg.cc/RZ4MDVnr/Dollar.jpg