Who runs the World!

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

میں اس تاویل سے اچھی طرح واقف ہوں، یہ بیچ کا راستہ ہیں، لیکن میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ سود حرام والے زیادہ لوگ اس تاویل کو مسترد کرتے ہیں، اور سود ٹھیک والے بھی کہتے ہیں کہ اس کے لیے کسی مخصوس قانون سازی کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت زیادہ سود استحصال کے زمرے میں آ جاتا ہے، اور استحصال تو کسی قسم کا ہو غلط ہے، یہ تو نہیں کہ سودی استحصال غلط، اور استحصال کے دوسرے طریقے جائز

لہذا اس تاویل کو بہت کم لوگ گھاس ڈالتے ہیں

اس ویڈیو میں ایک اور بھی مسلہ ہیں، یہ ویڈیو والے بھائی صاحب انٹرسٹ کو ٹھیک اور کمپاؤنڈ انٹرسٹ کو غلط کہہ رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہیں کہ ان کو انٹرسٹ کی الف بے نہیں آتی​
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


لگتا ہے آپ کو لمبے کمنٹ پڑھنے میں کوئی مسلہ ہے،



میں نے آپ کو سود حرام کی رٹ سے بھی بہتر رٹ کا مشورہ دیا ہے، آپ کے مطلب کی ہی بات کی ہے


آپ کو ایک نصیحت ہے کہ اس فورم پر مشورے دینے سے گریز کیا کریں ، بلکے ایسی دلیل دیا کریں جس کا کوئی توڑ نہ کر سکے

میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کی تھی کہ اگر آپ سودی نظام کے اتنے بڑے حمایتی ہیں تو اس نظام کے فوائد پر کچھ ارشاد فرمائیں . . . . مختصر سی بات تھی نا معلوم آپ کو سمجھ میں کیوں نہ آئی

اس کے علاوہ آپ کو میں نے اپنے اولین کمنٹ میں بتا دیا تھا کہ آپ جن باتوں کا ذکر فرما رہے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں


آپ کسی چھوٹے یا پرانے موبائل فون سے سیاست ڈاٹ پی کے استعمال کرتے ہیں؟
?
ہاں آپ کو کیسے پتا چلا . . . .!؟
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

آپ کو ایک نصیحت ہے کہ اس فورم پر مشورے دینے سے گریز کیا کریں ، بلکے ایسی دلیل دیا کریں جس کا کوئی توڑ نہ کر سکے

میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کی تھی کہ اگر آپ سودی نظام کے اتنے بڑے حمایتی ہیں تو اس نظام کے فوائد پر کچھ ارشاد فرمائیں . . . . مختصر سی بات تھی نا معلوم آپ کو سمجھ میں کیوں نہ آئی

اس کے علاوہ آپ کو میں نے اپنے اولین کمنٹ میں بتا دیا تھا کہ آپ جن باتوں کا ذکر فرما رہے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

?
ہاں آپ کو کیسے پتا چلا . . . .!؟

آپ نے یہ نوٹس نہیں کیا کہ میں سود کا حمایتی نہیں ہوں

مجھے سود کی حمایت میں ایک بھی دلیل دینے کی ضرورت نہیں، میں نے تو کوئی مطالبہ نہیں کیا ہر قرضے کے لین دین میں سود کی کوئی شرح لازمی ہونی چاہئیے، جو صفر سے زیادہ ہو

میرا اصل نقطہ کاروباری آزادی کا ہے، اگر زید اور بکر سودی لین دین کرنا چاہیں تو کر لیں، اگر بلا سود کاروبار کرنا چاہیں تو سو بسم الله، جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی

یہ تو آپ کا مطالبہ ہے کہ ہر قرضے کے لین دین میں سود لازمی ممنوعہ قرار دیا جاۓ

کاروباری آزادی سے متعلق میرا دوسرا نقطہ نظریات کے مقابلے کا ہے، اس نظریات کے مقابلے میں دونوں طریقوں کو پھلنے پھولنے دیں، اگر سودی طریقہ موثر ہو گا، معیشت کیلئے بہتر ہوگا تو بلا سود لین دین پر حاوی ہو جاۓ گا، اور اگر بلاسود لین دین اتنا طاقتور نظریہ ہے تو سودی نظام کے خود بخود پرخچے اڑا دے گا، آپ کو کچھ ممنوعہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی​

ہاں آپ کو کیسے پتا چلا . . . .!؟

میں نے صرف اندازہ لگایا ہے، کیونکہ میرے تین تین صفحوں والے کمنٹ کے بعد آپ کا جواب ایک یا دو جملے کا ہوتا ہے، جس میں مزید صفحے بھرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے​
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


آپ نے یہ نوٹس نہیں کیا کہ میں سود کا حمایتی نہیں ہوں



مجھے سود کی حمایت میں ایک بھی دلیل دینے کی ضرورت نہیں، میں نے تو کوئی مطالبہ نہیں کیا ہر قرضے کے لین دین میں سود کی کوئی شرح لازمی ہونی چاہئیے، جو صفر سے زیادہ ہو


پہلی نظر میں آپ کی یہ باتیں ایک دوسرے کے الٹ نظر آتی ہیں کہ آپ سود کے حمایتی نہیں لیکن شرح منافع (سود) کے حمایتی ہیں

لیکن شاید آپ وقت کے ساتھ روپے کی ڈی ویلو کے بارے میں فرما رہے ہیں تو میں اس بارے میں بتاتا چلوں کہ اسلام میں سود فزیکل چیزوں پر ہوتا ہے

یعنی اگر آپ نے ایک ٹولہ سونا لیا ہے تو واپس ایک ٹولہ ہی کرنا ہے زیادہ نہیں


میرا اصل نقطہ کاروباری آزادی کا ہے، اگر زید اور بکر سودی لین دین کرنا چاہیں تو کر لیں، اگر بلا سود کاروبار کرنا چاہیں تو سو بسم الله، جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی

جو قرض لے رہا ہو وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے ، اس لئے اس کا (بظاہر) راضی ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا . . . . . آپ کا یہی اصول لاگو کر دیا جائے تو جسم فروشی اور دیگر کئی استحصالی اعمال جائز ہو جاتے ہیں
یہ تو آپ کا مطالبہ ہے کہ ہر قرضے کے لین دین میں سود لازمی ممنوعہ قرار دیا جاۓ



کاروباری آزادی سے متعلق میرا دوسرا نقطہ نظریات کے مقابلے کا ہے، اس نظریات کے مقابلے میں دونوں طریقوں کو پھلنے پھولنے دیں، اگر سودی طریقہ موثر ہو گا، معیشت کیلئے بہتر ہوگا تو بلا سود لین دین پر حاوی ہو جاۓ گا، اور اگر بلاسود لین دین اتنا طاقتور نظریہ ہے تو سودی نظام کے خود بخود پرخچے اڑا دے گا، آپ کو کچھ ممنوعہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی
کینسر زد جسم کو اس کے حال میں چھوڑ دیں تو وہ مزید بگڑے گا ہی . . . . . خودبخود درست نہیں ہو گا

اور اگر جسم میں کوئی بیماری نہ ہو تو اسے ہر وقت تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے

ایک جسم کو ہم اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے تو اربوں انسانوں کو مجموعی طور پر ان کے حال پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے ؟
میں نے صرف اندازہ لگایا ہے، کیونکہ میرے تین تین صفحوں والے کمنٹ کے بعد آپ کا جواب ایک یا دو جملے کا ہوتا ہے، جس میں مزید صفحے بھرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے​
اوہ اچھا
?
میں تو سستا فون اس لئے استعمال کرتا ہوں کہ پاکستان پر امپورٹ کا بل کم سے کم ہو ??
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

پہلی نظر میں آپ کی یہ باتیں ایک دوسرے کے الٹ نظر آتی ہیں کہ آپ سود کے حمایتی نہیں لیکن شرح منافع (سود) کے حمایتی ہیں


میں صفر شرح سود اور بلا سود قرض کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں

آپ نے سود کی شرح صفر کر دی، تو سود میں رہ کیا جاتا ہے؟مطلب قرض حسنہ بن جاتا ہے، کہ بھائی قرض اتارنا جتنا بھی تاخیر سے کرو، کوئی جرمانہ نہیں جو چڑھتا جاۓ گا

ایک تولہ سونے قرض کی واپسی ایک تولہ ہی ہو یا سوا تولہ، یہ میرے خیال میں معاہدے کا حصّہ ہے، اور بلا سود ہے، اس کا مطلب قرض حسنہ ہی ہے، کہ بھائی ایک سال بعد واپس کرو، دس سال بعد واپس کرو، یا سو سال بعد میرے پوتے کو واپس کرو، واپس تم نے ایک کی بجاۓ سوا تولہ ہی کرنا ہے

لیکن اگر یہ کہا جاۓ کہ سال کی بجاے دو سال تاخیر ہو گئی تو ڈیڑھ تولے، تین سال پر پونے دو تولے، اور یہ کسی شرح کے مطابق ہو، تو یہ سود ہے

بغیر کمپاؤنڈ شرح کے مجھے کوئی تک سمجھ نہیں آتی، فرض کریں قرض 100 روپے ہے، سالانہ کمپاؤنڈ شرح دس فیصد ہے، تو ایک سال بعد 110 روپے، دو سال بعد 120 روپے نہیں بلکہ 121 روپے واپس کرنے ہوں گے، اس کی وجہ کہ دوسرے سال دس فیصد شرح 110 روپے پر لگی نہ کہ 100 روپے پر، لیکن اگر آپ نے سال بعد 10 روپے واپس کر دیے، تو شرح بقایا 100 روپے پر لگے گی، اس کا مطلب آپ کمپاؤنڈ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہر سال 10 روپے واپس کرتے جائیں، اور جب 100 روپے واپس کرنے کی پوزیشن میں آ جایئں تو صرف 100 روپے ہی واپس کرنے ہوں گے کیونکہ سود تو ہر سال واپس کرتے رہے

لیکن اگر ہر سال 10 روپے واپس نہیں کیے اور شرح بھی کمپاؤنڈ نہیں ہے، جس طرح ویڈیو والے بھائی بتا رہے ہے، تو اس شرح کی کوئی تک نہیں بنتی، کیونکہ مقروض اس شرح کو صفر کر سکتا ہے اور وہ اس طرح

قرض 100 روپے، شرح دس فیصد لیکن کمپاؤنڈ نہیں ہے، ایک سال بعد 110 روپے، دو سال بعد 120 روپے، اور کرتے کرتے دس سال بعد 200 روپے، لیکن اب مقروض 100 روپے واپس کر کے کہے کہ یہ اصل 100 روپے ہیں جن پر شرح لگی تھی، باقی 100 روپے پر کوئی شرح نہیں ہے، تو اب وہ باقی 100 روپے بلا سود، بلا شرح قرض حسنہ بن گۓ، جب ہوں گے تو واپس کر دے گا، اور 100 روپے ہی واپس کرے گا چاہے سو سال بعد کرے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
جو قرض لے رہا ہو وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے ، اس لئے اس کا (بظاہر) راضی ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا .


میرے خیال میں سودی نظام ایک کاروبار ہے، اور غربت اور مجبوری کے تحت قرض لینے والے کاروبار کی پوزیشن میں نہیں کہلاۓ جا سکتے، ان کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اور اس لیے میں فلاحی ریاست کا حامی ہوں

غریب کی کفالت اور اسے غربت کی لکیر سے اوپر لانا ریاست کا کام ہے، جب وہ اوپر آجاۓ تو پھر متوسط طبقے کے باشندے کی حیثیت سے چلتی معیشت کا حصّہ بن سکتا ہے، چاہے نوکری کرے یا سودی نظام سے قرض لے کر کوئی کاروبار

میں اس کا قائل نہیں کہ چونکہ نواز شریف اور زرداری جیسے ملک کا خون چوس رہے ہیں اور ہڈیوں سے گوشت نوچ رہے ہیں، تو غریب کا قرض تھوڑا ہلکا کرنے کیلئے سود کو ممنوعہ کر دو، آپ کینسر کا علاج نہیں کررہے، کینسر کے مریض کو ڈسپرین دے کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ہم نے غریب کا بہت بڑا مسلہ حل کر دیا​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

میں نے ابھی یہ سود کی ویڈیو دیکھی ہے اور میں ایک دفعہ پھر سر پکڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہو گیا ہوں،

پیسے پر کرایہ وصول کیا جاۓ تو وہ حرام ہے اور سود ہے، لیکن استعمال کی چیز پر کرایہ وصول کیا جاۓ تو وہ حلال ہے

تو پھر پیش خدمت ہے، سودی کاروبار کو حلال کرنے کا ٹوٹکہ

قرض 100 روپے، کرایہ کی شرح دس فیصد، اسے سود کی شرح نہ کہیں کرایہ کی شرح کہیں، اب، سرمایادار مقروض کو 100 روپے دینے کی بجاۓ 100 روپے کے لوہے کے چمچے خریدے، اور وہ چمچے مقروض کو دے دے، اب مقروض وہ چمچے فوری بیچ دے اور 100 روپے قرض کو استعمال کرنا شروع کر دے، چمچوں کا کرایہ دینے کا وقت آۓ تو دس فیصد کی شرح پر 10 روپے سرمایا دار کو دے دے، لیکن سرمایا دار اس 10 روپے سے مزید چمچے خرید کر مقروض کو اضافی چمچوں کے طور پر دے دے، جس پر بھی دس فیصد ہی کرایہ لگے گا، مقروض وہ اضافی چمچے بھی فوری بیچ دے تو اب مقروض کے پاس 110 روپے قرض ہے، اور دوسرے سال کے آخر میں کرایہ 10 روپے نہیں بلکہ 11 روپے ہو گا، اور اسے بھی اسی طرح چمچے کی خرید و فروخت کر کے مقروض کو واپس کر دیا جاۓ تو اب مقروض کا قرض 121 روپے، جو کہ کمپاؤنڈ شرح سود کے عین مطابق ہے

لیں جی سود حلال ہو گیا، سب کو مبارک
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)



میرے خیال میں سودی نظام ایک کاروبار ہے، اور غربت اور مجبوری کے تحت قرض لینے والے کاروبار کی پوزیشن میں نہیں کہلاۓ جا سکتے، ان کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اور اس لیے میں فلاحی ریاست کا حامی ہوں


غریب کو اگر قرض کی ضرورت پڑ جائے تو کیا کرے ؟ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غریب کو ہی سب سے زیادہ قرض کی ضرورت پڑتی ہے
غریب کی کفالت اور اسے غربت کی لکیر سے اوپر لانا ریاست کا کام ہے، جب وہ اوپر آجاۓ تو پھر متوسط طبقے کے باشندے کی حیثیت سے چلتی معیشت کا حصّہ بن سکتا ہے، چاہے نوکری کرے یا سودی نظام سے قرض لے کر کوئی کاروبار



میں اس کا قائل نہیں کہ چونکہ نواز شریف اور زرداری جیسے ملک کا خون چوس رہے ہیں اور ہڈیوں سے گوشت نوچ رہے ہیں، تو غریب کا قرض تھوڑا ہلکا کرنے کیلئے سود کو ممنوعہ کر دو، آپ کینسر کا علاج نہیں کررہے، کینسر کے مریض کو ڈسپرین دے کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ہم نے غریب کا بہت بڑا مسلہ حل کر دیا
چاہے جتنے بھی امیر کو سود پر قرض دیں ، اس کا اثر باقیوں پر بھی پڑنا ہے کیونکہ اس نے کاروبار کر کے دوسروں سے ہی پیسے کمانے ہیں . اس لئے اس کے لئے سود کی ادائیگی اصل میں صارفین پر بوجھ ہے

اس کے علاوہ اسلام کے مطابق انسان پیسے پر سانپ بن کر نہیں بیٹھ سکتا ، لہٰذا انسان یا تو اپنا پیسا کاروبار میں لگائے یا دوسروں کو قرض وغیرہ دے یا کسی اور استعمال میں لائے لیکن پیسے سے پیسا کمانا حرام ہے

تیسری بات یہ کہ اسلامی معاشرے میں غریبوں اور امیروں کے لئے مختلف نظام نہیں رکھے جا سکتے ، بلکے غریب کے لئے زیادہ موآقوں اور زیادہ آسانی کی تلقین ہے
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
سود حلال کرنے کا ایک اور ٹوٹکہ

زید اور حارث دو سرمایا دار ہیں، اور بکر مقروض، زید بکر کو 100 روپے دیتا ہے اور معاہدہ کرتا ہے کہ اسے ایک سال بعد 110 روپے چاہئیں، ایک سال بعد بکر حارث سے 110 روپے قرض لیتا ہے جس پر حارث معاہدہ کرتا ہے کہ اسے ایک سال بعد 121 روپے چاہئیں، بکر وہ 110 روپے لیکر زید کو دے دیتا ہے اور اپنا معاہدہ پورا کر لیتا ہے، اور دوسرے سال کے آخر میں حارث سے معاہدہ پورا کرنے کیلئے پھر زید کے پاس چلا جاتا ہے اور ایک نیا معاہدہ کر لیتا ہے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

بقول جاوید غامدی کے، گھر کا مورگیج حلال ہے

تیسرا ٹوٹکہ

زید بکر کو 100 روپے دینے کی بجاۓ ان پیسوں سے ایک چھوٹا سا مکان خرید کر بکر کو دیتا ہے اور معاہدہ یہ کرتا ہے کہ اگر سال بعد ایک قسط ہو تو 110 روپے، دو سال بعد ایک قسط ہو تو 121 روپے، دو سال میں دو قسطیں ہوں تو پہلی قسط 10 روپے، اور دوسری قسط 110 روپے، اگر پہلی قسط 60 روپے ہو، تو دوسری قسط 55 روپے، وغیرہ، وغیرہ

اور بکر معاہدہ کرنے کے فوری بعد وہ مکان 100 روپے میں بیچ دیتا ہے اور وہ رقم اپنے استعمال میں لے آتا ہے
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)


بقول مفتی تقی عثمانی سود کی نشاندہی علّت پر ہوتی ہے نہ کہ حکمت پر

اس کا مطلب یہ کہ سود صرف اسی وقت ہوتا ہے جب رقم دے کر شرح سود لگائی جاۓ

مطلب سود کے ٹوٹکے جائز ہیں کیونکہ وہ علّت کے معیار پر پورا نہیں اترتے

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا نمائندہ اگر ایک سود کا ٹوٹکا ہوتا ہوا دیکھے تو حاکم وقت یا شرعی قاضی کو جا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ سود کا لین دین ہو رہا ہے، نہ ہی اسلامی ریاست اس میں دخل اندازی کر سکتی ہے، اور نہ ہی یہ گناہ ہے​
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

تو اس کا مطلب یہ سب سودی نظام کو ممنوعہ کروانے والے علما صرف سود کا نام ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں کہ سود کے استحصالی اثرات معاشرے میں ختم ہوۓ یا نہیں

استحصالی اثرات تو دور کی بات سود کے غیر استحصالی اثرات بھی جوں کے توں رہتے ہیں

اسی لیے جب آپ مرابحہ جیسے ٹوٹکے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو اثر کے لحاظ سے سود ہی ہے، صرف نام کچھ اور ہے​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

خالد ظہیر کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سودی نظام بالکل ٹھیک ہے

ربا اصولی طور پر مقروض کے دیوالیہ ہونے کے انتظامات یا قوانین سے متعلق ہے، اور یہ قوانین تقریبا ہر مغربی ترقی یافتہ ملک میں رائج ہیں

اور اسلامی بینکاری، مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، سب ٹوپی ڈرامہ ہے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
جاویدغامدی کے مطابق بھی جدید بینکاری نظام ٹھیک ہے، کیونکہ یہ انسانیت کا سفر ہے، جس میں مغربی دنیا نے معیشت کی سائنس کو اس جدت تک پہنچا دیا ہے کہ مہاجنی سود جیسی دقیانوسی چولیں اس نظام میں غریب کا استحصال نہیں کر سکتیں، اور جدید بینکاری نظام خیر اور احسان سے بھرپور ہے، اس میں نہ سود ہے نہ قرض، بلکہ یہ سرمایا کاری کا نظام ہے

اصل میں جاوید غامدی اور خالد ظہیر جیسے علما کی سوچ کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کے پاس دو راستے ہیں:

پہلا راستہ، آپ ساتویں صدی عیسوی کے معاشرے کی برائیوں کو دیکھتے ہوۓ نافظ کیے گۓ احکام کو آج کے معاشرے پر لاگو کرتے رہیں، اور انسانیت کے سفر کو مسترد کرتے رہیں، یا تو آپ کے حامیوں کا گروہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جاۓ گا، یا اگر آپ غلبہ پا گۓ تو اکیسویں صدی کی دنیا کو ساتویں صدی بنا دیں گے

دوسرا راستہ، آپ انسانیت کے سفر کو مانتے ہوۓ اسلام میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کریں

میرے خیال میں ایک تیسرا راستہ بھی ہے، جو کسی کو بھی قبول نہیں، وہ میں بتاؤں گا نہیں کیونکہ آپ سب خود سمجھدار ہیں
 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
asal deene islam sirf ye nahin kehta keh doosrun ko takleef na do balkeh ye taqaaza kerta hai keh jo takleef main hen un ki takaleef ko door bhi karo aik doosre ki madad se. ummat ka tasawur asal deene islam main issi liye hai warna aik achhaa insaani maashra ban hi kaise sakta hai jahaan insaan insaan ka shikaari ho?

yahee wajah hai jahaan asal deene islam poori tarah se naafiz ho wahaan na khudaa ke siwaa koi hukamraan ho sakta hai na hi sarmayadaar aur na hi mazhabi peshwaa. insaaanu per insaaanu ki hukamraani aur insaanu ki aapas main sarmayadaari nizaam ki bunyaad per tijaarat ya baaz insaaanu ki baaz ko khudaa ne naam per bewaqoof banaane ke liye mazhabi peshwaiyat ye sab haraami kaam hen aur ye sirf haraami log hi jaan boojh ker kerte hen doosrun ko nuqsaan pohncha ker apne zaati faaidun ke liye.

zaraa socho keh jo log dilo jaan se aapas main bhai bhai hun un ko ye sab kerne ki zaroorat hi kia hai ya kia reh jaati hai?