یہ شتر بے مہار آزادی کب تک چلے گی ؟

Hammad Shah

Councller (250+ posts)

ملک میں آجکل اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بہت شور ہے۔ ایک مخصوص حلقے کی جانب سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے پاکستا ن میں اسٹیبلشمنٹ نے اظہار رائے پر کوئی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی ہے۔ کسی نئی سنسر شپ پالیسی کو نافذ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا کی ا ٓزادی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ بولنے اور لکھنے کی آزادی پر قدغن لگا دی گئی ہے۔ یہ تاثر کس حد تک درست اور غلط ہے اس کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے ۔


1203231-muzammilsoharwardinew-1528741785-160-640x480.jpg


پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔ ہمیں اپنی ا ٓزادی پر فخر ہے۔ یہ آزادی ہمیں کسی خیرات میں نہیں ملی ہے بلکہ پاکستان میں میڈیا کے ذمے داران نے اس آزادی کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ یہاں سنسر شپ کا نفاذ رہا ہے لیکن اس سنسر شپ میں بھی پاکستان کی صحافت نے اپنی بات کہنے کا راستہ نکالا تھا۔ اور بالآ خر سنسر لگانیو الوں کو خود ہی اس بات کا حساس ہو گیا تھا کہ ان کی سنسر پالیسی کا انھیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے سنسر پالیسی صرف فوجی ادوار میں ہی نہیں بلکہ سویلین ادوار میں بھی کسی نہ کسی شکل میں رہی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر ہمیں ضیا الحق دور کی سنسر شپ پالیسی یاد ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ الیکٹرانک میڈیا کی بہار اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی بھی ایک فوجی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہی ملی ہے اور کوئی سیاسی حکومت یہ آزادی دینے کو تیار نہیں تھی۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہی الیکٹرانک میڈیا جسے خود جنرل پرویز مشرف نے بوتل سے باہر نکالا تھا انھیں ہی کھا گیا۔ ایک دفعہ اس جن کو بوتل سے باہر نکالنے کے بعد پرویز مشرف کے پاس بھی اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ بے بس تھے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے کچھ اینکر دوستوں نے اس آزادی کا غلط استعمال کیا ہے۔ اور آزادی کے اس غلط استعمال کو روکنے کا ہمارے پاس کوئی میکنزم نہیں تھا۔ کیا یہ درست نہیں کہ نجی چینلز نے ایسے ایسے ناتجربہ کار وں کو اسکرین دے دی جن کو کچھ پتہ نہیں تھا اور لائیو پروگراموں میں ایسی ایسی بیہودگی ہوئی کہ جس پر خود ہمارا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے۔ ٹاک شوز میں آنیو الے مہما نوں کی بھی ٹریننگ نہیں تھی۔ مرچ مصا لحہ کا ایک ماحول بن گیا ہے۔ بس تیز بات کریں۔ اونچی بات کریں۔ ریٹنگ کی اس دوڑ نے الیکٹرانک میڈیا کو پاگل کر دیا ہے۔

ہماری صحافتی تنظیمیں اپنے اندر احتساب کا کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکی ہیں جس کو ہم مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود بھی اپنے احتساب کا کوئی نظام نہ بنائیں اور پھر ریاست ایسا کوئی نظام بنائے تو ہمیں اس پر بھی اعتراض ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم کیسی شتر بے مہار آزادی کے قائل ہیں جس کی نہ تو کوئی حدود ہوں اور نہ ہی کوئی قواعد و ضوابط ہوں۔ پر یہ کیسے ممکن ہے۔ کہیں تو احتساب کا عمل ہونا چاہیے۔

آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مہذب اور تہذیب یافتہ دنیا میں میڈیا آزاد ہے۔ وہاں میڈیا پر کوئی سنسر شپ نہیں ہے۔ وہاں میڈیا کے لیے کوئی خصوصی قوانین بھی نہیں بنائے جاتے پھر وہاں کی آزادی کو شتر بے مہار آزادی کیوں نہیں کہا جاتا۔ پھر وہاں کا الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا ذمے دار کیسے ہے۔ وہاں میڈیا ریاست کے لیے خطرہ کیوں نہیں ہے۔ اور یہاں ایسا تاثر کیوں پیدا ہو رہا ہے کہ ہمارا سوشل میڈیا بالخصوص ریاست کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ہم ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔ وہاں لوگ خود کو ریڈ لائن سے دور کیسے رکھتے ہیں اور ہم ریڈ لائن کے قریب کیسے پہنچ جاتے ہیں۔

بات سادہ ہے وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ نظام عدل فعال ہے۔ حق دار کو حق ملتا ہے اور گناہ گار کو سزا ملتی ہے۔ وہاں ٹی وی پر اور سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اس طرح پگڑیاں نہیں اچھالی جا سکتیں۔ سب قانون کے تا بع ہیں۔ میڈیا بھی قانون کے تا بع ہے۔ صحافی بھی قانون کے تابع ہیں۔ قانون کا خوف ہے۔ غلط خبر پر کیس ہو جائے تواس کا جلد فیصلہ ہوتا ہے۔

ہتک عزت کے دعوئوں پر فوری کارروائی کی جاتی ہے اور مثالی سزائیں دی جاتی ہیں ۔ وہاں جب کسی صحافی یا ادارے پر قانون توڑنے پر کارروائی ہوتی ہے تو وہاں کی صحافی تنظیمیں اسے بچانے کے لیے کھڑی نہیں ہو جاتیں بلکہ قانون کو اپنا کام کرنے کا بھر پور موقع دیا جاتا ہے۔ نظام عدل اس قدر فعال ہے کہ جب ریاست کو بھی کسی سے شکایت ہوتی ہے تو وہ بھی نظام عدل کا دروازہ ہی کھٹکھٹا تی ہے۔ معاملہ کو قانون سے باہر حل کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی ہے۔

پاکستان میں معاملہ ہی الٹ ہے۔ ہتک عزت کے مقدمات کو تو فضول مقدمات سمجھا جاتا ہے۔ عدالتیں ان مقدمات کو اہمیت ہی نہیں دیتیں۔ ویسے تو سب مقدمات کا ہی یہ حال ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ باقی مقدمات کا جلد فیصلہ ہو رہا ہے اور ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔ لیکن پھر بھی ان کی اہمیت کم سمجھی جاتی ہے۔ باقی جرائم کے مقدمات میں سزائوں کی پھر بھی مثالیں موجود ہیں لیکن ہتک عزت کے کیسوں میں سزائوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اسی لیے ریاست کو بھی جب کسی سے شکایت ہوتی ہے تو اسے یہ اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے ذمے دار کو سزا دلوا سکتی ہے۔

میڈیا کو اپنا حتساب خود بھی کرنا چاہیے۔ یہ شتر بے مہار آزادی ہمیں لے ڈوبے گی۔ صرف فوج کو ہی شکوے نہیںہیں ، سیاسی قیادت بھی تنگ آچکی ہے،۔ ایک تو وہ کمزور ہیں، اس لیے بول نہیں سکتے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ان کے گلے جائز نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا کی حالت تو اس سے بھی بری ہے۔ ہمارے صحافی دوستوں نے ایک نیا راستہ نکال لیا ہے کہ جو بات کسی قاعدے اور ضابطے کی وجہ سے وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نہیں کر سکتے اس کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا میں تو جنگل کی سی صورتحال ہو گئی ہے۔ جہاں کسی کا جان و مال محفوظ نہیں۔کسی بھی وقت کسی کی بھی عزت اچھالی جا سکتی ہے اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا کی آزادی ملک کی آزادی کی طرح مقدم ہے۔ آزاد میڈیا کے بغیر آزاد پاکستان کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا تو ایسے بن گیا ہے جیسے کسی کے ہاتھ میں پستول ہے اور وہ سارے شہر میں فائرنگ کرتا جا رہا ہے۔ کوئی معلوم نہیں کونسی گولی کس کو لگ رہی ہے۔ جعلی ا کائونٹس نے معاملے کو بہت گھمبیر بنا دیا ہے۔ پاکستان کے خلاف بات کرنا، افواج پاکستان کے خلاف بات کرنا فیشن اور ترقی پسند ہونے کی نشانی بنتا جا رہا ہے۔

ہم دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ دشمن نوازی کو ترقی پسندی کہا جاتا ہے۔ ریڈ لائن عبور کرنا بیوقوفی یا جہالت کے بجائے بہادری سمجھا جاتا ہے۔ ریاست کے بنیادی ستون کو چھیڑا جاتا ہے۔ معاشرہ میں نفرت پھیلائی جاتی ہے۔قومی اداروں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی ممکن نہیں۔ کیا سنوڈن امریکا میں رہ سکتا تھا۔ بے شک وہ سچ ہی بو ل رہا تھا۔ لیکن وہ ریاست کے خلاف بول رہا تھا۔ امریکا میں سنوڈن کے حق میں تو آوازیں نہیں اٹھی ہیں۔

ہمارے ملک میں بھارت نوازی کا بھی ایک کلچر شروع ہو گیا ہے۔ میری دوستوں سے گزارش ہے کہ کہ وہ برکھا دت کا ایک ٹوئٹ دیکھ لیں جس میں اس نے کہا ہے کہ اسے بھارتی اسٹبلشمنت نے بتایا ہے کہ جب بھارتی صحافی ریڈ لائن عبور کریں تو ان کے ٹول چیک کیے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت بے وجہ شور مچانے کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا ہے۔ اگر ہم
اپنی خود احتسابی نہیں کریں گے تو کسی اور کو تو یہ کام کرنا پڑے گا اور پھر ہم گلہ بھی نہیں کر سکیں گے۔



https://www.express.pk/story/1203231/268/
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
ضیا کا ذکر کرتے ہوۓ بھٹو صاحب کی بیہودہ اور اکثر ظالمانہ سنسر پالیسی کو بھی مت بھولیں ، یہ تو بد دیانتی ہو گی ـــ
پاکستان میں پہلے چند سال (ترپن کے بلووں تک)، پھر صدر یحی کے چند سال (ستر کےالیکشن تک )اور پھر مشرف کے چند سال صحافت بڑے درجہ آزاد رہی ــاور پھر پچھلے دس برس مادر پدر آزاد صحافت کے ہیں کہ اب بچاری حکومتوں کے بس میں نہیں کہ صحافت پر قدغن لگا سکیں اور نہ ہی اب یہ ممکن ہو گا ـــ