قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ روز قبل ایک ویڈیو منظرعام پرآئی تھی جس میں ایک غیرمتعلقہ لڑکی وزرات خارجہ ایسے حساس مقام پر دھڑلے سے گھوم گھام رہی تھی- ملک کے سنجیدہ طبقات نے حکومت کو خبردار کیا اور انکوائری کا مطالبہ بھی کیا- ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ اس واقعے کے محرکات اور ملوث عناصر کا پتہ چلایا جاتا تاکہ کسی انہونی سے بچا جا سکتا، شغلیہ حکومت کے کان پر مگر جوں تک نہ رینگی
انہی لڑکیوں کی شوخیاں اور مسخرے سیاستدانوں کی خرمستیاں جاری وساری ہیں- روز کوئی نہ کوئی گھل کھلایا جا رہا ہے- دو روز سے خودساختہ محافظ ختم نبوت اور نام نہاد فرزند راولپنڈی کی ایک ویڈیو گردش میں ہے- ویڈیو میں شیخ جی کی عزت کی جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اگر ان میں چھٹانک بھر بھی صداقت ہے تو آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت اسمبلی رکینت سے فراغت بنتی ہے- اعلیٰ عدلیہ میں آرمی چیف کی توسیع پر اگر ایک گم نام شخص عرضی دے سکتا ہے تو یہاں اس اہم معاملے پر کیوں نہیں؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک خاص سوچ کے تحت حکمرانوں کی نجی زندگی کی حرام کاریوں کو معاف کرنے کی روش پر زور دیا جا رہا ہے- اس صورت میں کیا کیا جاۓ اگر وہ اپنی اس روش پر مصر رہیں - امور مملکت کے دوران بھی انہی بدکاریوں میں ملوث رہیں تو کیوں برداشت کیا جاۓ- روز ان سیاست دانوں کے نت نئے اسکینڈلز منظرعام پر آتے ہیں مگر دبیز قالین تلے دبانے کی پالیسی کی وجہ سے ان کی کبھی قانونی گرفت نہیں ہوتی- کیا اب
بھی ایسا ہی ہوگا؟
آخر کب تک حریم شاہیں اور صندل خٹکیں یوں ہی قانون کا کھلواڑ کرتی رہیں گی؟ اور ان ملوث سیاستدانوں کو کب تک چھوٹ ملتی رہی گی؟ کیا ان عناصر پر کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا؟