پاکستان غالبا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں جب کوئی چیز صاف کرنی ہو تو آواز دی جاتی ہے کہ کوئی گندا کپڑا پکڑائیے گا. پنجابی زبان میں نفاست پسندی سے کام لیتے ہوئے اس گندے کپڑے کو ٹاکی کہا جاتا ہے. ٹاکی کثیر الاستعمال ایک ایسی شے ہے جس کے اندر فوائد و فیوض کا ایک جہاں آباد ہے. جس طرح بندر تمام عمر ادرک کے سواد کو نہیں جان پاتا بالکل اسی طرح ٹشو استعمال کرنے والی مخلوق کبھی بھی ٹاکی کی برکات سے کماحقہ آگاہی حاصل نہیں کر سکتی . میرا مصمم ارادہ ہے کہ کرونا کے ثمرات کی وجہ سے اگر اس برس مجھے میٹرک میں پاس کر دیا گیا تو پی ایچ ڈی کے مقالے میں ٹاکی کے اغراض و مقاصد پر ایک تحقیقی مقالہ ضرور تحریر کروں گا. ہمت مرداں مدد خدا
گندگی و غلاظت سے لتھڑا ہوا ایک اجڑا پجڑا گھر. تعفن اور بساند ایسی کہ ناک کے پردے پھٹ جائیں. سچ پوچھئے تو داد دینی پڑتی ہے ان لہراتی, بل کھاتی اور لہلہاتی ٹاکیوں کو جو اس ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی اپنی ننھی جانوں کی پرواہ کیے بغیر میدان کارزار میں میں لپکنے اور جھپکنے کو ہر دم تیار ہیں
گزشتہ کئی دہائیوں سے باریاں بدل بدل کر انتہائی محنت و مشقت سے صفائی ستھرائی میں مصروف لیکن گندگی کے انبار ہیں کہ بجائے گھٹنے کے بڑھے ہی چلے جا رہے ہیں. رسی سے لٹکتی ان ٹاکیوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں
کسی اجرک کے دسویں حصے سے پھاڑی گئی یہ وضع دار ٹاکی
کسی اقامہ زدہ دھوتی سے چرائی گئی یہ طرحدار ٹاکی
کسی پگڑی سے اتاری گئی ڈیزل سے لبریز یہ بے روزگار ٹاکی
کسی شیروانی سے نکالی گئی خون آلود اور دل فگار ٹاکی
کسی سرخ ٹوپی کو کاٹ کر بنائی گئی یہ خدمت گار ٹاکی
وقفے وقفے سے یہی ٹاکیاں نت نئے عزائم اور منصوبوں کے ساتھ کولہے ہلاتی, مٹکاتی چلی آتی ہیں اور ایک داغ صاف کرتے کرتے کئی نئے داغ لگا کر کوچ کر جاتی ہیں. صفائی کے بہانے بہت بار اس گھر کا صفایا کر چکیں لیکن ہم ایسے مستقل مزاج چشم فلک نے کم ہی دیکھے ہوں گے جو بیسیوں تلخ تجربات کے باوجود
انہی ٹاکیوں سے کام چلانے پر مصر ہیں
اب اگر آپ کے ہاتھ ایک صاف کپڑا لگ ہی گیا ہے تو اسے جھاڑ پونچھ کا موقع کیوں نہیں دیتے. ذرا سوچئے یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہم زنگ آلود, بوسیدہ اور غلیظ ٹاکیوں کو بار بار آزماتے رہیں.
آپ یہ سوچئے اور میں ذرا پی ایچ ڈی کے مقالے پر غور و فکر کر لوں
گندگی و غلاظت سے لتھڑا ہوا ایک اجڑا پجڑا گھر. تعفن اور بساند ایسی کہ ناک کے پردے پھٹ جائیں. سچ پوچھئے تو داد دینی پڑتی ہے ان لہراتی, بل کھاتی اور لہلہاتی ٹاکیوں کو جو اس ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی اپنی ننھی جانوں کی پرواہ کیے بغیر میدان کارزار میں میں لپکنے اور جھپکنے کو ہر دم تیار ہیں
گزشتہ کئی دہائیوں سے باریاں بدل بدل کر انتہائی محنت و مشقت سے صفائی ستھرائی میں مصروف لیکن گندگی کے انبار ہیں کہ بجائے گھٹنے کے بڑھے ہی چلے جا رہے ہیں. رسی سے لٹکتی ان ٹاکیوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں
کسی اجرک کے دسویں حصے سے پھاڑی گئی یہ وضع دار ٹاکی
کسی اقامہ زدہ دھوتی سے چرائی گئی یہ طرحدار ٹاکی
کسی پگڑی سے اتاری گئی ڈیزل سے لبریز یہ بے روزگار ٹاکی
کسی شیروانی سے نکالی گئی خون آلود اور دل فگار ٹاکی
کسی سرخ ٹوپی کو کاٹ کر بنائی گئی یہ خدمت گار ٹاکی
وقفے وقفے سے یہی ٹاکیاں نت نئے عزائم اور منصوبوں کے ساتھ کولہے ہلاتی, مٹکاتی چلی آتی ہیں اور ایک داغ صاف کرتے کرتے کئی نئے داغ لگا کر کوچ کر جاتی ہیں. صفائی کے بہانے بہت بار اس گھر کا صفایا کر چکیں لیکن ہم ایسے مستقل مزاج چشم فلک نے کم ہی دیکھے ہوں گے جو بیسیوں تلخ تجربات کے باوجود
انہی ٹاکیوں سے کام چلانے پر مصر ہیں
اب اگر آپ کے ہاتھ ایک صاف کپڑا لگ ہی گیا ہے تو اسے جھاڑ پونچھ کا موقع کیوں نہیں دیتے. ذرا سوچئے یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہم زنگ آلود, بوسیدہ اور غلیظ ٹاکیوں کو بار بار آزماتے رہیں.
آپ یہ سوچئے اور میں ذرا پی ایچ ڈی کے مقالے پر غور و فکر کر لوں