لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ والمنافقین
چھانگا مانگا کا بھیانک خواب یاد ہے ؟ جہاں نواز شریف نے سارے مالشیئے جمع کر رکھے تھے ؟
یہ اکتوبر 2013ءہے۔ پاکستان میں انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمشن کی جانب سے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے مطابق سیاسی جماعتوں کو ملنے والی نشستوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے : پیپلز پارٹی 65، پاکستان مسلم لیگ (ن) 55، پاکستان تحریک انصاف 35، مسلم لیگ قائداعظم 15، ہم خیال 8، ایم کیو ایم 20، اے این پی 15، آزاد و دیگر 80۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور عوامی مینڈیٹ تقسیم شدہ شکل میں سامنے آیا ہے۔
بھیانک خواب --- حصہ دوئم
غیر واضح مینڈیٹ کے بعد ملک میں ووٹوں کی خرید و فروخت عروج پر ہے۔ کسی زمانے میں ووٹ خریدنے کیلئے بوریوں کے منہ کھولے جاتے تھے آج نوٹوں کے گودام کھول دئیے گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی جن کے بکنے پر کبھی یہ پھبتی کسی جاتی تھی کہ ریوڑھ کے پوڑھ بِک گئے آج گدھوں اور بکریوں کے مول بِک رہے ہیں۔ ضمیر فروشی کی داستانیں اپنے عروج پر ہیں ووٹ بینک بڑھانے کے نام پر ضمیر فروشی کی انتہائی شرمناک داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ارکان اسمبلی کو اور خصوصاً آزاد ارکان کو جہاں جتنی زیادہ بولی مل رہی ہے بھاگ رہے ہیں۔ الیکشن کمشن، عدلیہ اور سکیورٹی ادارے صورت حال کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے لب ساکن ہو چکے ہیں اور اگر کوئی چیز ساکت نہیں تو وہ سیاست دانوں کی زبان ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ جمہوریت کی بقا اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کےلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، وہ نواز شریف پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ایک بار پھر چھانگا مانگا کی سیاست شروع کر دی ہے، دوسری جانب نواز شریف فرما رہے ہیں کہ آصف علی زرداری ارکان اسمبلی کے ووٹ خرید کر جمہوریت پر شبِ خون مار رہے ہیں تاہم وہ بھی جمہوریت کی بقا کےلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے منتخب ارکان کے پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے رابطوں پر سخت نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے جمہوریت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے تاہم جمہوریت کی بقا کےلئے ہر جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ دینی سیاسی جماعتیں شور مچا رہی ہیں کہ الیکشن کمشن اور عدلیہ ارکان اسمبلی کی سموسوں کی طرح فروخت پر ایکشن لیں تاہم ان کے خود اپنے بہت سے ارکان اپنی قیمتیں لگوا چکے یا لے چکے ہیں۔
بھیانک خواب کا تیسرا حصہ
ملک میں بدامنی اور بدعملی انتہائی پر پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک عام شہری شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں تخریبی کارروائیاں اور چھوٹی سطح پر جنگی ٹکرا¶ بڑھ چکا ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں مسلسل امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں جذبات عروج پر ہیں۔ بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کا کھیل انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی مداخلت آئے دین بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر پاکستان مخالف سپاہ کو بھیجنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے نام پر بھتہ خوری ایک سائنٹفک شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاہور اور پنجاب میں اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں نے عوام کو اپنے گھروں میں بند رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی بلا عفریت پاکستان کی صنعتوں کو نگلنے کے بعد روشنیوں کا قطرہ قطرہ نچوڑ چکی ہے۔ ہرسُو اندھیرے کا راج ہے غربت کی خون آشام چڑیل نے ملک کے طول و عرض پر اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے کسی سطح پر بھی جانے کو تیار ہیں۔ بھوک ننگ کے سبب امیر اور غریب طبقے میں نفرت کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے جو کسی وقت بھی بھیانک تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اقتصادی شکنجے میں پھنس چکا ہے اور وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق سانس لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان نے اچھے اچھے شرفاءاور سفید پوشوں کے تن سے کپڑے اتار لئے ہیں اور ان کےلئے زندگی ایک امتحان بنتی جا رہی ہے۔
یہ ستمبر 2012ءہے
اس بھیانک خواب نے مجھے بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آنے والا وقت سخت کٹھن اور پُرآزمائش ہے۔ مَیں نے یہ خواب دیکھا آ پ کو بھی دکھا دیا ہے۔ میرا یقین ہے اہل علم، اہل بصیرت اور حساس پاکستانی طبقہ اسی طرح کا خواب ایک مکمل نشست میں نہیں تو ٹکڑیوں میں ضرور دیکھ چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی آنے والے خوفناک وقت کا ادراک رکھتا ہے تو اس ملک کی سیاسی، فکری و عسکری قیادت کیا ان صلاحیتوں سے عاری ہے جس میں آنےوالے وقتوں کا بہت پہلے احساس کرنے کی طاقت موجود ہوتی ہے؟ عوام تڑپ رہے ہیں، لوگوں کو بھتے کے نام پر زندہ جلایا جا رہا ہے، بھوک گلی گلی ناچتی پھر رہی ہے اور یہ سلسلہ ہے کہ تھمتا نظر نہیں آ رہا، کون روکے گا اس سلسلے کو، کیا موجودہ قیادت میں ایسی صلاحیت موجود ہے؟
صلاحیت موجود ہوتی تو ایسے حالات ہی کیوں پیدا ہوتے۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بھارت امریکہ یا اسرائیل کی قیادت نہیں لے کر آئی بلکہ یہ ان جماعتوں کا ہی کیا دھرا ہے جو ملک میں اقتدار کی کئی کئی باریاں لے چکے ہیں اور افسوس ان کی ہوس ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی وہ ہر بار پہلے سے زیادہ حریص، اقتدار کے بھوکے اور دولت کے پُجاری نظر آتے ہیں اور دوسری طرف اندھی، گونگی، بہری عوام ہے جو وعدوں اور نعروں پر ہی اپنی زندگی گزارنے پر یقین رکھتی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے اس قدر عاری ہے کہ وہ رہبر اور رہزن کے فرق کو بھی پہچان نہیں پا رہی ان حالات میں کسی سے کیا شکوہ اور کیا گِلہ شاید ہمارے مقدار میں اپنی موت کو لمحہ لمحہ اپنے قریب ہوتے دیکھتا رہ گیا ہے۔ اس جرم ضعیفی کی سزا مل رہی ہے اور ملتی رہے گی۔
یہ اکتوبر 2013ءہے۔ پاکستان میں انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمشن کی جانب سے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے مطابق سیاسی جماعتوں کو ملنے والی نشستوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے : پیپلز پارٹی 65، پاکستان مسلم لیگ (ن) 55، پاکستان تحریک انصاف 35، مسلم لیگ قائداعظم 15، ہم خیال 8، ایم کیو ایم 20، اے این پی 15، آزاد و دیگر 80۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور عوامی مینڈیٹ تقسیم شدہ شکل میں سامنے آیا ہے۔
بھیانک خواب --- حصہ دوئم
غیر واضح مینڈیٹ کے بعد ملک میں ووٹوں کی خرید و فروخت عروج پر ہے۔ کسی زمانے میں ووٹ خریدنے کیلئے بوریوں کے منہ کھولے جاتے تھے آج نوٹوں کے گودام کھول دئیے گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی جن کے بکنے پر کبھی یہ پھبتی کسی جاتی تھی کہ ریوڑھ کے پوڑھ بِک گئے آج گدھوں اور بکریوں کے مول بِک رہے ہیں۔ ضمیر فروشی کی داستانیں اپنے عروج پر ہیں ووٹ بینک بڑھانے کے نام پر ضمیر فروشی کی انتہائی شرمناک داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ارکان اسمبلی کو اور خصوصاً آزاد ارکان کو جہاں جتنی زیادہ بولی مل رہی ہے بھاگ رہے ہیں۔ الیکشن کمشن، عدلیہ اور سکیورٹی ادارے صورت حال کو دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے لب ساکن ہو چکے ہیں اور اگر کوئی چیز ساکت نہیں تو وہ سیاست دانوں کی زبان ہے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ جمہوریت کی بقا اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کےلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، وہ نواز شریف پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ایک بار پھر چھانگا مانگا کی سیاست شروع کر دی ہے، دوسری جانب نواز شریف فرما رہے ہیں کہ آصف علی زرداری ارکان اسمبلی کے ووٹ خرید کر جمہوریت پر شبِ خون مار رہے ہیں تاہم وہ بھی جمہوریت کی بقا کےلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے منتخب ارکان کے پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے رابطوں پر سخت نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے جمہوریت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے تاہم جمہوریت کی بقا کےلئے ہر جنگ لڑنے کو تیار ہیں۔ دینی سیاسی جماعتیں شور مچا رہی ہیں کہ الیکشن کمشن اور عدلیہ ارکان اسمبلی کی سموسوں کی طرح فروخت پر ایکشن لیں تاہم ان کے خود اپنے بہت سے ارکان اپنی قیمتیں لگوا چکے یا لے چکے ہیں۔
بھیانک خواب کا تیسرا حصہ
ملک میں بدامنی اور بدعملی انتہائی پر پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک عام شہری شدید خوف و ہراس کا شکار ہے۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں تخریبی کارروائیاں اور چھوٹی سطح پر جنگی ٹکرا¶ بڑھ چکا ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور فاٹا میں مسلسل امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان میں جذبات عروج پر ہیں۔ بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کا کھیل انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی مداخلت آئے دین بڑھتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر پاکستان مخالف سپاہ کو بھیجنے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے نام پر بھتہ خوری ایک سائنٹفک شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاہور اور پنجاب میں اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں نے عوام کو اپنے گھروں میں بند رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی بلا عفریت پاکستان کی صنعتوں کو نگلنے کے بعد روشنیوں کا قطرہ قطرہ نچوڑ چکی ہے۔ ہرسُو اندھیرے کا راج ہے غربت کی خون آشام چڑیل نے ملک کے طول و عرض پر اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے کسی سطح پر بھی جانے کو تیار ہیں۔ بھوک ننگ کے سبب امیر اور غریب طبقے میں نفرت کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے جو کسی وقت بھی بھیانک تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اقتصادی شکنجے میں پھنس چکا ہے اور وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق سانس لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے طوفان نے اچھے اچھے شرفاءاور سفید پوشوں کے تن سے کپڑے اتار لئے ہیں اور ان کےلئے زندگی ایک امتحان بنتی جا رہی ہے۔
یہ ستمبر 2012ءہے
اس بھیانک خواب نے مجھے بُری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ آنے والا وقت سخت کٹھن اور پُرآزمائش ہے۔ مَیں نے یہ خواب دیکھا آ پ کو بھی دکھا دیا ہے۔ میرا یقین ہے اہل علم، اہل بصیرت اور حساس پاکستانی طبقہ اسی طرح کا خواب ایک مکمل نشست میں نہیں تو ٹکڑیوں میں ضرور دیکھ چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک آدمی آنے والے خوفناک وقت کا ادراک رکھتا ہے تو اس ملک کی سیاسی، فکری و عسکری قیادت کیا ان صلاحیتوں سے عاری ہے جس میں آنےوالے وقتوں کا بہت پہلے احساس کرنے کی طاقت موجود ہوتی ہے؟ عوام تڑپ رہے ہیں، لوگوں کو بھتے کے نام پر زندہ جلایا جا رہا ہے، بھوک گلی گلی ناچتی پھر رہی ہے اور یہ سلسلہ ہے کہ تھمتا نظر نہیں آ رہا، کون روکے گا اس سلسلے کو، کیا موجودہ قیادت میں ایسی صلاحیت موجود ہے؟
صلاحیت موجود ہوتی تو ایسے حالات ہی کیوں پیدا ہوتے۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بھارت امریکہ یا اسرائیل کی قیادت نہیں لے کر آئی بلکہ یہ ان جماعتوں کا ہی کیا دھرا ہے جو ملک میں اقتدار کی کئی کئی باریاں لے چکے ہیں اور افسوس ان کی ہوس ابھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی وہ ہر بار پہلے سے زیادہ حریص، اقتدار کے بھوکے اور دولت کے پُجاری نظر آتے ہیں اور دوسری طرف اندھی، گونگی، بہری عوام ہے جو وعدوں اور نعروں پر ہی اپنی زندگی گزارنے پر یقین رکھتی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے اس قدر عاری ہے کہ وہ رہبر اور رہزن کے فرق کو بھی پہچان نہیں پا رہی ان حالات میں کسی سے کیا شکوہ اور کیا گِلہ شاید ہمارے مقدار میں اپنی موت کو لمحہ لمحہ اپنے قریب ہوتے دیکھتا رہ گیا ہے۔ اس جرم ضعیفی کی سزا مل رہی ہے اور ملتی رہے گی۔
- Featured Thumbs
- https://m.dw.com/image/44658769_101.jpg
Last edited by a moderator: