پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
-------------------------------------------
یہ واقعہ پہلے بھی بیان کرچکا، احتسابی سرکس میں ایک پھر سے
relevant
ہے
سن 1930 کے اوائل سے جرمنی سیاسی انتشار کا شکار تھا- ہٹلر سیاسی افق پر چھا چکا تھا اور اس کی نازی تحریک حکومت کے لیے دردسر بنی ہوئی تھی- اگلے دو تین سالوں میں چار بار قومی انتخابات ہوۓ مگر پائیدار حکومت نہ بن سکی- روز روز کے ہنگامے، لاک ڈاؤن، دھرنوں نے کاروباری سرگرمیوں کو ماند اور ملکی معشیت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا- سبب ہٹلر کی
agitation
یعنی احتجاجی سیاست تھی-
انہیں حالات میں 25 بڑے جرمن صنعتکار اور کاروباری شخصیات وفد کی شکل میں صدر سے ملے اور مشورہ دیا کہ ہٹلر کو کسی زریعہ سے چانسلر مقرر کیا جاۓ، چاہے اس کے لیے انتخابی دھاندلی ہی کیوں نہ کرنا پڑے- ان سرمایہ داروں کا موقف تھا کہ ہٹلر ایک جذباتی شخص ہے جو آئیڈیلزم پر یقین
رکھتا ہے- اقتدار ملنے پر ہم (سرمایہ دار) اسے سدھا لیں گے اور دوسرا زمینی حقیقتیں اسے کسی ایڈونچر سے باز رکھیں گی
اگلی بار جب انتخابات ہوۓ تو ہٹلر کو پڑنے والے ووٹوں کی شرح کچھ زیادہ تھی اگرچہ حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا مگر دائیں بازو کی کچھ طاقتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی
طاقت پر گرفت پانے کے بعد ہٹلر کا اصل روپ سامنے آیا- چونکہ وہ ایک سرپھیرا شخص تھا جو اپنے نظریے اور بیانیے پر آخری سانس تک کھڑا تھا- لہذا سرمایہ دار گروہ اور اشرافیہ نہ اسے جھکا سکی اور نہ اسے کسی سیاسی مصلحت پر مجبور کرسکی
وزیراعظم عمران خان کی ہٹلر کے ساتھ مماثلت تو نہیں بنتی مگر احتساب اور کرپشن خاتمے پر انہیں حکومت ملی ہے- حکومت بننے کے بعد چار میگا اسکینڈلز منظرعام پر آچکے: ادویات، چینی، آٹا، اور پاورجنریشن کانٹریکٹس- ایک عدد کی رپورٹ پبلک ہوئی اور پھر طویل سناٹا- یہ کیسز ان کے علاؤہ ہیں جن میں ان کی کابینہ کے کئی لوگ پہلے سے ہی مختلف کیسز میں نامزد ہیں- بی آر ٹی، مالم جبہ، ٹریلین ٹری وغیرہ وغیرہ- کسی پر کچھ عملی طور پر ہوتا نظر نہیں آ رہا- نیب ایک باقاعدہ پپٹ بن چکا جس کی ترجمانی شیخ اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ کر رہے ہیں- مہینوں مہینوں پکڑ کر اندر رکھا جاتا ہے اور پیسہ وصولی دو آنے کی نہیں- چئیرمین جاوید اقبال المعروف چُمن شاہ کی حثیت کھیت میں ایستادہ پُتلے سے زیادہ کچھ نہیں- حکومتی اشاروں پر پکڑ دھکڑ نے سارے احتسابی عمل کا ناس کردیا ہے- نیب اپنی جانبداری سے احتساب کو مشکوک اور اپنے پیشرؤں کی ڈگر پر چل رہا ہے- حکومتی بدنامی تو ایک طرف، کرپٹ اشرافیہ ان الزامات کی آڑ میں اپنے آپ کو بچا پانے میں کامیاب بھی رہی ہے
عمران خان یاد رکھیں کہ کرپشن کے ان معاملات کی ایک ایک فائل آبپارہ کے دفتر میں بھی جمع ہو رہی ہے جو وقت ضرورت استعمال میں لائی جاۓ گی- قبل اس کے کہ سروں سے پانی گزر جاۓ وہ ان کیسز کی تحقیقات منطقی انجام تک پہنچائیں- کرپشن خاتمہ اور بلاامتیاز احتساب کے نعروں کو عملی جامہ پہنائیں- وگرنہ اقتدار کے بعد شریفوں اور زرداریوں ایسے انجام کے لیے تیار رہیں
-------------------------------------------
یہ واقعہ پہلے بھی بیان کرچکا، احتسابی سرکس میں ایک پھر سے
relevant
ہے
سن 1930 کے اوائل سے جرمنی سیاسی انتشار کا شکار تھا- ہٹلر سیاسی افق پر چھا چکا تھا اور اس کی نازی تحریک حکومت کے لیے دردسر بنی ہوئی تھی- اگلے دو تین سالوں میں چار بار قومی انتخابات ہوۓ مگر پائیدار حکومت نہ بن سکی- روز روز کے ہنگامے، لاک ڈاؤن، دھرنوں نے کاروباری سرگرمیوں کو ماند اور ملکی معشیت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا- سبب ہٹلر کی
agitation
یعنی احتجاجی سیاست تھی-
انہیں حالات میں 25 بڑے جرمن صنعتکار اور کاروباری شخصیات وفد کی شکل میں صدر سے ملے اور مشورہ دیا کہ ہٹلر کو کسی زریعہ سے چانسلر مقرر کیا جاۓ، چاہے اس کے لیے انتخابی دھاندلی ہی کیوں نہ کرنا پڑے- ان سرمایہ داروں کا موقف تھا کہ ہٹلر ایک جذباتی شخص ہے جو آئیڈیلزم پر یقین
رکھتا ہے- اقتدار ملنے پر ہم (سرمایہ دار) اسے سدھا لیں گے اور دوسرا زمینی حقیقتیں اسے کسی ایڈونچر سے باز رکھیں گی
اگلی بار جب انتخابات ہوۓ تو ہٹلر کو پڑنے والے ووٹوں کی شرح کچھ زیادہ تھی اگرچہ حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا مگر دائیں بازو کی کچھ طاقتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی
طاقت پر گرفت پانے کے بعد ہٹلر کا اصل روپ سامنے آیا- چونکہ وہ ایک سرپھیرا شخص تھا جو اپنے نظریے اور بیانیے پر آخری سانس تک کھڑا تھا- لہذا سرمایہ دار گروہ اور اشرافیہ نہ اسے جھکا سکی اور نہ اسے کسی سیاسی مصلحت پر مجبور کرسکی
وزیراعظم عمران خان کی ہٹلر کے ساتھ مماثلت تو نہیں بنتی مگر احتساب اور کرپشن خاتمے پر انہیں حکومت ملی ہے- حکومت بننے کے بعد چار میگا اسکینڈلز منظرعام پر آچکے: ادویات، چینی، آٹا، اور پاورجنریشن کانٹریکٹس- ایک عدد کی رپورٹ پبلک ہوئی اور پھر طویل سناٹا- یہ کیسز ان کے علاؤہ ہیں جن میں ان کی کابینہ کے کئی لوگ پہلے سے ہی مختلف کیسز میں نامزد ہیں- بی آر ٹی، مالم جبہ، ٹریلین ٹری وغیرہ وغیرہ- کسی پر کچھ عملی طور پر ہوتا نظر نہیں آ رہا- نیب ایک باقاعدہ پپٹ بن چکا جس کی ترجمانی شیخ اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ کر رہے ہیں- مہینوں مہینوں پکڑ کر اندر رکھا جاتا ہے اور پیسہ وصولی دو آنے کی نہیں- چئیرمین جاوید اقبال المعروف چُمن شاہ کی حثیت کھیت میں ایستادہ پُتلے سے زیادہ کچھ نہیں- حکومتی اشاروں پر پکڑ دھکڑ نے سارے احتسابی عمل کا ناس کردیا ہے- نیب اپنی جانبداری سے احتساب کو مشکوک اور اپنے پیشرؤں کی ڈگر پر چل رہا ہے- حکومتی بدنامی تو ایک طرف، کرپٹ اشرافیہ ان الزامات کی آڑ میں اپنے آپ کو بچا پانے میں کامیاب بھی رہی ہے
عمران خان یاد رکھیں کہ کرپشن کے ان معاملات کی ایک ایک فائل آبپارہ کے دفتر میں بھی جمع ہو رہی ہے جو وقت ضرورت استعمال میں لائی جاۓ گی- قبل اس کے کہ سروں سے پانی گزر جاۓ وہ ان کیسز کی تحقیقات منطقی انجام تک پہنچائیں- کرپشن خاتمہ اور بلاامتیاز احتساب کے نعروں کو عملی جامہ پہنائیں- وگرنہ اقتدار کے بعد شریفوں اور زرداریوں ایسے انجام کے لیے تیار رہیں