پہلوان ، شیرو اور فلاسفرہ۔۔۔گنج پور

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

پہلوان، شیرو اور فلاسفرہ۔۔گنج پور۔۔تحریر:جانی

ہماری تاریخ پر مورخین کے آپس میں اختلافات کی کوئی حد ہی نہیں، اب اس معمولی سی بات کو ہی دیکھ لیں، کہ گنج پور کے مشہور زمانہ پہلوان ،جس نے چوہدریوں کو ناک میں نکیل ڈال کے پورے پنڈ میں گھسیٹا ، کے پیارے کتے کےنام پر بھی یہ اکھٹے نہ ہوسکے۔۔
جس کتے کو آجکل کی کتابوں میں شیرو کہا جاتا ہے، قابل اور مستند مورخین کی رائے میں اُس کا نام شریفو تھا، جسے بعد کے تاریخ دانوں نے شیرو بنادیا۔۔خیر۔۔
ہوا یوں کہ ایک دن پہلوان نے پنڈ کے ایک نامی گرامی طبلچی فلاسفرہ کو بُلاوا بھیجا کہ حویلی آو کچھ بات کرنی ہے۔
فلاسفرہ کا اصل نام کچھ اور تھا مگر، پنڈ کے تھڑوں ، ڈیروں و چائے کے کھوکھوں پر وہ جب بھی بیٹھتا تو اپنی فلاسفری جھاڑنے لگتا۔۔چاہے کوئی بھی موضوع ہوتا، ۔۔اور چاہے اسے اس موضوع کے الف ب کا بھی پتہ نہ ہوتا۔۔جیسے پنڈ والے واقعی پینڈو تھے اور اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیتے۔۔
جب اس کی فلاسفریاں حد سے بڑھنے لگیں، اور پینڈو بھی اس پینڈو سے بیزار ہونے لگے تو انہوں نے اس کا نام فلاسفرہ رکھ دیا، اس کے بعد یہ جس ہوٹل یا تھڑے پر بیٹھا پایا جاتا، لوگ دور سے ہی راستہ بدل لیتے کہ فلاسفرہ بیٹھا ہے، ایک بار پکڑ لیا تو کوئی نہیں ہوگا بچ جانے کا آسرہ۔۔
جب فلاسفرہ کو پہلوان کے کارندے نے پیغام پہنچایا، پہلے تو اُسے یقین نہ آیا کہ پہلوان نے اسے اس قابل سمجھا۔۔ مگر پھر جلدی سے خود پر قابو پاتے ہوئے ، خدمت میں حاظر ہونے کی حامی بھرلی۔۔
فلاسفرہ، گھر سے نہا دھوکر، عطر وتر اور سُرما لگا کر نئی سی لنگوٹی پہنے حویلی پہنچا، تو پہلوان کے ملازم نے اسے مہمان خانے میں بٹھایا کہ پہلوان جی ابھی آتے ہیں۔تم ادھر ہی بیٹھو۔
فلاسفرہ بے چینی سے پہلوان کا انتظار کررہا تھا ، اور اسی بے چینی میں وہ کھبی اپنی جگہ سے اُٹھ جاتا، تو کھبی بیٹھ جاتا، وہ کھبی مہمان خانہ ،جو کہ تھوڑی سی اونچھائی پر واقع تھا، کی کھلی کھڑکی سے پنڈ گنج پور کا نظارا کرتا تو کھبی واپس آکر اپنی جگہ بیٹھ جاتا، اُس کی بے چینی کی وجہ یہ تھی کہ، پہلوان اس سے قبل لوگوں سے ملتا تو اپنے اکھاڑے میں، یا ڈیرے پر ملتا، مگر اسے کیوں سیدھا حویلی طلب کیا۔۔
بالآخر اس کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پہلوان دور سے آتا دکھائی دیا۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی کسرت کرکے اور ڈنڈ لگا کے آرہا ہو۔۔اور ساتھ میں اپنے پیارے کتے شریفو کو بھی لگواکے آرہا ہو، کیونکہ وہ بھی پہلوان کے قدم سے قدم ملاتا آرہا تھا، جیسے کوئی محافظ اور ایک اشارے کا منتظر۔
اسلام علیکم فلاسفرہ۔۔ کیسے ہو۔۔
پہلوان نے سلام کرتے ہوئے فلاسفرہ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا، کہ کہیں دبادیا تو ہڈیوں کا چورن ہی بچے گا۔۔مگر پہلوان نے شائستگی سے ہاتھ ملاکر چھوڑ دیا۔۔ جس سے فلاسفرہ کی جان میں جان آئی۔۔ اور وعلیکم سلام بول کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔
اور سُناو۔۔ کیسا جارہا ہے کام۔۔ سُنا ہے آجکل لوگوں میں کافی مقبول ہوتے جارہے ہو۔۔ کوئی نیاسُر بنایا یا اُنہیں پُرانی سُروں پر ڈھولک بجاتے ہو۔۔ پہلوان نے ایک چارپائی پر بیٹھ کر تکیہ بازو کے نیچھے دباتے ہوئے اس کا حال پوچھا۔۔
پہلوان کے قدموں میں ہی اُس کا وفادار ساتھی شریفو فلاسفرہ کی طرف ایسے آنکھ لگائے بیٹھ گیا جیسے اس کا سکین کررہا ہو۔۔ کہ کوئی گڑ بڑ تو نہیں اس بندے میں۔۔
ہاں پہلوان جی۔۔ بس ٹھیک ہے سب۔۔ وہ آپ نے بُلاوا بھیجا تھا تو میں پہلی فرصت میں آپہنچا۔۔ کوئی خدمت۔۔؟
جانے یہ پہلوان کا رعب تھا یا شریفو کے ٹپکتے رال، اور اُس کی آنکھ کا کمال کہ فلاسفرہ جلد از جلد اس ملاقات کو ختم کرکے پتلی گلی سے نکلنا چاہ رہا تھا۔۔اسی لیئے اس نے پہلوان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے،اُلٹا سوال داغ دیا۔۔
ہاں ۔ وہ تمہارے ایک ڈھنڈورچی دوست سے متعلق بات کرنی تھی۔۔ اور کوئی خاص نہیں۔۔
پہلوان جس نے زندگی کی ساٹھ پینسٹھ بہاریں بتالیں تھیں، ۔وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ بندہ کچھ غیر آرام دہ حالت سے گزر رہا ہے، اس لیئے بات ختم کرکے فرار کے چکر میں ہے۔۔اس لیئے اس نے بھی بات مختصرکرنے کی غرض سے اصل بات پر آنا مناسب سمجھا۔۔
جی بتائیں کیا ۔۔۔ارے اس کی کیا ضرورت تھی۔۔ وہ میں ابھی سب کچھ کر کے آیا تھا۔۔
فلاسفرہ کی بات کے دوران ہی پہلوان کے ملازم نے چائے اور کچھ گھریلو دیسی پکوان لاکر میز پر رکھ دیئے۔۔
کچھ نہیں ہوگا یرا۔۔ تھوڑا اور کھا لو گے تو۔۔ملازم کو پیالیوں میں چائے ڈالنے کا اشارہ کرتے ہوئے پہلوان نے مسکراکر فلاسفرہ کو جواب دیا۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے جو فلاسفرہ بے چین اور فرار کے چکروں میں تھا۔۔ اب کچھ حیران سا تھا۔۔ کیونکہ پہلوان سے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ خدائی خدمت میں اور مساکین کی امداد میں تو ڈھیروں لگاتے نہیں تھکتا تھا، مگر فضول میں کسی کو چائے بھی نہیں پلاتا تھا۔۔ آخر اس نے ایسا کیا تیر مار لیا یا مارنے جارہا ہے جو اسے پیار سے حویلی کے اندر ، چائے اور دیسی گھی میں بنے پکوان پیش کیئے جارہے ہیں۔۔
کہانی اس وقت دلچسپ صورت اختیار کرگئی جب، پہلوان تھوڑی دیر کو حاجت کی غرض سے باہر نکلا مگر شریفو کو فلاسفرہ کے ساتھ مہمان خانے میں تنہا چھوڑ کر۔۔ اب حالت یہ تھی کہ۔۔ فلاسفرہ نے چائے کی پیالی تو اٹھا لی، مگر وہ جیسے ہی پکوان کی طرف ہاتھ بڑھاتا، شریفو غرانے لگتا، اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک پہلوان واپس نہیں آیا۔۔
ارے تم نے تو انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا، کچھ تو لو۔۔دیسی گھی کے بنے ہیں۔۔پہلوان نے تھالی ہاتھ میں اٹھا کر فلاسفرہ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔۔
اُسے کیا پتہ تھا کہ شریفو ، فلاسفرہ کو ہاتھ لگانے دیتا تو وہ ہاتھ لگاتا ناں۔۔
جی جی ۔۔ شکریہ پہلوان جی۔۔ وہ میں زیادہ کھانے کا شوقین نہیں۔۔ویسے ، شریفو کو لگتا ہے اس قسم کی غذا سے کافی پیار ہے۔۔فلاسفرہ نے خود پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔
نہیں ، دراصل یہ دیسی گھی میں بنے ہیں، اس لیئے اسے آسانی سے ہضم نہیں ہوتے، ۔پسند تو اسے ہونگے پر ہم خود ہی نہیں دیتے۔۔
پہلوان کی بات سن کر شریفو ایک بار پھر غرایا، شاید وہ اس بات پر احتجاج کر رہا تھا کہ، مجھے ہضم نہیں ہوتے تو اسے کیسے ہوتے ہونگے۔۔
یار فلاسفرہ، تم اپنے ڈھنڈھورچی دوست ارشُو سے کہنا کہ پہلوان سے متعلق اُلٹی سیدھی باتوں کا ڈھنڈورا کرنا بند کرے، سنا ہے وہ تمارا دوست ہے، اور بات سنتا ہے، اسی لیئے اس سے خود بات کرنے کی بجائے میں نے تمہیں بُلایا۔
فلاسفرہ کچھ ہی دیر میں پکوان کی تھال صاف کرنے کے بعد پہلوان کی بات سن کر سوچ رہا تھا کہ آخر اتنی سی بات کے لیئے اسے کیوں زحمت دی ، خود ہی اس سے بات کرلیتا، ۔
مگر بعد میں خود ہی سر جھٹک کر اپنی بات کی نفی کردی، کہ پہلوان میں اور چوہدریوں میں یہی تو فرق تھا، کہ چوہدری خود بے عزت تھے تو لوگوں کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے، جبکہ پہلوان خود عزت دار تھا، اس لیئے کسی ڈھنڈھورچی کو بھی رسوا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
اچھا پہلوان جی۔۔ آپ کی بات میں پہنچا دونگا، آپ بے فکر رہیں۔۔اب مجھے جانے کی اجازت دیں۔۔ فلاسفرہ نے منہ کو کندھے پر رکھے چادر سے صاف کیا، اور اُٹھتے ہوئے بولا۔
ہاں ٹھیک ہے، ۔ اپنا خیال رکھنا۔۔ پہلوان بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور فلاسفرہ سے ہاتھ ملا کر حویلی کی ایک طرف کو چل دیا۔
مگر فلاسفرہ کی مشکل آسان ہونے کے بجائے اس وقت بڑھی جب وہ اپنی جگہ سے باہر کے دروازے کی طرف روانہ ہوا، ۔اور لنگوٹ کے اندر سے کچھ پکوان گرے۔ مطلب یہ کام اس نے اس وقت مہارت اور پہلوان کی نظر سے بچ کر کیا جب بظاہر اس نے تھال صاف کیا، ۔کیونکہ سارے ایک ساتھ منہ میں ڈالنے سے تو رہا۔
شریفو جسے فلاسفرہ پہلے ہی مشکوک سا لگا تھا، نے جب یہ دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا، اور اس نے مہمان خانے کے برامدے سے فلاسفرہ کی طرف دوڑ لگادی، ۔ فلاسفرہ بیچارہ بڑی مشکل سے اپنی دھوتی بچا کے بھاگا، اور تب جا کے رُکا جب پہلوان کی حویلی کافی پیچھے رہ گئی۔۔
اُس کے بعد فلاسفرہ کو کھبی پہلوان کی گلیوں کی طرف بھی جاتے نہیں دیکھا گیا۔

facebook.com/JANI1JANI1


جن کا نام ٹیگ نہ کرسکا ، ان سے معظرت۔۔
 
Last edited by a moderator:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
35195810_2068573440098153_1904389671572471808_n.jpg
 

Realistic Change

MPA (400+ posts)

پہلوان، شیرو اور فلاسفرہ۔۔گنج پور۔۔تحریر:جانی

ہماری تاریخ پر مورخین کے آپس میں اختلافات کی کوئی حد ہی نہیں، اب اس معمولی سی بات کو ہی دیکھ لیں، کہ گنج پور کے مشہور زمانہ پہلوان ،جس نے چوہدریوں کو ناک میں نکیل ڈال کے پورے پنڈ میں گھسیٹا ، کے پیارے کتے کےنام پر بھی یہ اکھٹے نہ ہوسکے۔۔
جس کتے کو آجکل کی کتابوں میں شیرو کہا جاتا ہے، قابل اور مستند مورخین کی رائے میں اُس کا نام شریفو تھا، جسے بعد کے تاریخ دانوں نے شیرو بنادیا۔۔خیر۔۔
ہوا یوں کہ ایک دن پہلوان نے پنڈ کے ایک نامی گرامی طبلچی فلاسفرہ کو بُلاوا بھیجا کہ حویلی آو کچھ بات کرنی ہے۔
فلاسفرہ کا اصل نام کچھ اور تھا مگر، پنڈ کے تھڑوں ، ڈیروں و چائے کے کھوکھوں پر وہ جب بھی بیٹھتا تو اپنی فلاسفری جھاڑنے لگتا۔۔چاہے کوئی بھی موضوع ہوتا، ۔۔اور چاہے اسے اس موضوع کے الف ب کا بھی پتہ نہ ہوتا۔۔جیسے پنڈ والے واقعی پینڈو تھے اور اس کی ہر بات پر آنکھ بند کر کے یقین کرلیتے۔۔
جب اس کی فلاسفریاں حد سے بڑھنے لگیں، اور پینڈو بھی اس پینڈو سے بیزار ہونے لگے تو انہوں نے اس کا نام فلاسفرہ رکھ دیا، اس کے بعد یہ جس ہوٹل یا تھڑے پر بیٹھا پایا جاتا، لوگ دور سے ہی راستہ بدل لیتے کہ فلاسفرہ بیٹھا ہے، ایک بار پکڑ لیا تو کوئی نہیں ہوگا بچ جانے کا آسرہ۔۔
جب فلاسفرہ کو پہلوان کے کارندے نے پیغام پہنچایا، پہلے تو اُسے یقین نہ آیا کہ پہلوان نے اسے اس قابل سمجھا۔۔ مگر پھر جلدی سے خود پر قابو پاتے ہوئے ، خدمت میں حاظر ہونے کی حامی بھرلی۔۔
فلاسفرہ، گھر سے نہا دھوکر، عطر وتر اور سُرما لگا کر نئی سی لنگوٹی پہنے حویلی پہنچا، تو پہلوان کے ملازم نے اسے مہمان خانے میں بٹھایا کہ پہلوان جی ابھی آتے ہیں۔تم ادھر ہی بیٹھو۔
فلاسفرہ بے چینی سے پہلوان کا انتظار کررہا تھا ، اور اسی بے چینی میں وہ کھبی اپنی جگہ سے اُٹھ جاتا، تو کھبی بیٹھ جاتا، وہ کھبی مہمان خانہ ،جو کہ تھوڑی سی اونچھائی پر واقع تھا، کی کھلی کھڑکی سے پنڈ گنج پور کا نظارا کرتا تو کھبی واپس آکر اپنی جگہ بیٹھ جاتا، اُس کی بے چینی کی وجہ یہ تھی کہ، پہلوان اس سے قبل لوگوں سے ملتا تو اپنے اکھاڑے میں، یا ڈیرے پر ملتا، مگر اسے کیوں سیدھا حویلی طلب کیا۔۔
بالآخر اس کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پہلوان دور سے آتا دکھائی دیا۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی کسرت کرکے اور ڈنڈ لگا کے آرہا ہو۔۔اور ساتھ میں اپنے پیارے کتے شریفو کو بھی لگواکے آرہا ہو، کیونکہ وہ بھی پہلوان کے قدم سے قدم ملاتا آرہا تھا، جیسے کوئی محافظ اور ایک اشارے کا منتظر۔
اسلام علیکم فلاسفرہ۔۔ کیسے ہو۔۔
پہلوان نے سلام کرتے ہوئے فلاسفرہ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا، کہ کہیں دبادیا تو ہڈیوں کا چورن ہی بچے گا۔۔مگر پہلوان نے شائستگی سے ہاتھ ملاکر چھوڑ دیا۔۔ جس سے فلاسفرہ کی جان میں جان آئی۔۔ اور وعلیکم سلام بول کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔
اور سُناو۔۔ کیسا جارہا ہے کام۔۔ سُنا ہے آجکل لوگوں میں کافی مقبول ہوتے جارہے ہو۔۔ کوئی نیاسُر بنایا یا اُنہیں پُرانی سُروں پر ڈھولک بجاتے ہو۔۔ پہلوان نے ایک چارپائی پر بیٹھ کر تکیہ بازو کے نیچھے دباتے ہوئے اس کا حال پوچھا۔۔
پہلوان کے قدموں میں ہی اُس کا وفادار ساتھی شریفو فلاسفرہ کی طرف ایسے آنکھ لگائے بیٹھ گیا جیسے اس کا سکین کررہا ہو۔۔ کہ کوئی گڑ بڑ تو نہیں اس بندے میں۔۔
ہاں پہلوان جی۔۔ بس ٹھیک ہے سب۔۔ وہ آپ نے بُلاوا بھیجا تھا تو میں پہلی فرصت میں آپہنچا۔۔ کوئی خدمت۔۔؟
جانے یہ پہلوان کا رعب تھا یا شریفو کے ٹپکتے رال، اور اُس کی آنکھ کا کمال کہ فلاسفرہ جلد از جلد اس ملاقات کو ختم کرکے پتلی گلی سے نکلنا چاہ رہا تھا۔۔اسی لیئے اس نے پہلوان کے سوال کا جواب دینے کے بجائے،اُلٹا سوال داغ دیا۔۔
ہاں ۔ وہ تمہارے ایک ڈھنڈورچی دوست سے متعلق بات کرنی تھی۔۔ اور کوئی خاص نہیں۔۔
پہلوان جس نے زندگی کی ساٹھ پینسٹھ بہاریں بتالیں تھیں، ۔وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ بندہ کچھ غیر آرام دہ حالت سے گزر رہا ہے، اس لیئے بات ختم کرکے فرار کے چکر میں ہے۔۔اس لیئے اس نے بھی بات مختصرکرنے کی غرض سے اصل بات پر آنا مناسب سمجھا۔۔
جی بتائیں کیا ۔۔۔ارے اس کی کیا ضرورت تھی۔۔ وہ میں ابھی سب کچھ کر کے آیا تھا۔۔
فلاسفرہ کی بات کے دوران ہی پہلوان کے ملازم نے چائے اور کچھ گھریلو دیسی پکوان لاکر میز پر رکھ دیئے۔۔
کچھ نہیں ہوگا یرا۔۔ تھوڑا اور کھا لو گے تو۔۔ملازم کو پیالیوں میں چائے ڈالنے کا اشارہ کرتے ہوئے پہلوان نے مسکراکر فلاسفرہ کو جواب دیا۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے جو فلاسفرہ بے چین اور فرار کے چکروں میں تھا۔۔ اب کچھ حیران سا تھا۔۔ کیونکہ پہلوان سے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ خدائی خدمت میں اور مساکین کی امداد میں تو ڈھیروں لگاتے نہیں تھکتا تھا، مگر فضول میں کسی کو چائے بھی نہیں پلاتا تھا۔۔ آخر اس نے ایسا کیا تیر مار لیا یا مارنے جارہا ہے جو اسے پیار سے حویلی کے اندر ، چائے اور دیسی گھی میں بنے پکوان پیش کیئے جارہے ہیں۔۔
کہانی اس وقت دلچسپ صورت اختیار کرگئی جب، پہلوان تھوڑی دیر کو حاجت کی غرض سے باہر نکلا مگر شریفو کو فلاسفرہ کے ساتھ مہمان خانے میں تنہا چھوڑ کر۔۔ اب حالت یہ تھی کہ۔۔ فلاسفرہ نے چائے کی پیالی تو اٹھا لی، مگر وہ جیسے ہی پکوان کی طرف ہاتھ بڑھاتا، شریفو غرانے لگتا، اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک پہلوان واپس نہیں آیا۔۔
ارے تم نے تو انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا، کچھ تو لو۔۔دیسی گھی کے بنے ہیں۔۔پہلوان نے تھالی ہاتھ میں اٹھا کر فلاسفرہ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔۔
اُسے کیا پتہ تھا کہ شریفو ، فلاسفرہ کو ہاتھ لگانے دیتا تو وہ ہاتھ لگاتا ناں۔۔
جی جی ۔۔ شکریہ پہلوان جی۔۔ وہ میں زیادہ کھانے کا شوقین نہیں۔۔ویسے ، شریفو کو لگتا ہے اس قسم کی غذا سے کافی پیار ہے۔۔فلاسفرہ نے خود پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا۔۔
نہیں ، دراصل یہ دیسی گھی میں بنے ہیں، اس لیئے اسے آسانی سے ہضم نہیں ہوتے، ۔پسند تو اسے ہونگے پر ہم خود ہی نہیں دیتے۔۔
پہلوان کی بات سن کر شریفو ایک بار پھر غرایا، شاید وہ اس بات پر احتجاج کر رہا تھا کہ، مجھے ہضم نہیں ہوتے تو اسے کیسے ہوتے ہونگے۔۔
یار فلاسفرہ، تم اپنے ڈھنڈھورچی دوست ارشُو سے کہنا کہ پہلوان سے متعلق اُلٹی سیدھی باتوں کا ڈھنڈورا کرنا بند کرے، سنا ہے وہ تمارا دوست ہے، اور بات سنتا ہے، اسی لیئے اس سے خود بات کرنے کی بجائے میں نے تمہیں بُلایا۔
فلاسفرہ کچھ ہی دیر میں پکوان کی تھال صاف کرنے کے بعد پہلوان کی بات سن کر سوچ رہا تھا کہ آخر اتنی سی بات کے لیئے اسے کیوں زحمت دی ، خود ہی اس سے بات کرلیتا، ۔
مگر بعد میں خود ہی سر جھٹک کر اپنی بات کی نفی کردی، کہ پہلوان میں اور چوہدریوں میں یہی تو فرق تھا، کہ چوہدری خود بے عزت تھے تو لوگوں کی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے، جبکہ پہلوان خود عزت دار تھا، اس لیئے کسی ڈھنڈھورچی کو بھی رسوا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
اچھا پہلوان جی۔۔ آپ کی بات میں پہنچا دونگا، آپ بے فکر رہیں۔۔اب مجھے جانے کی اجازت دیں۔۔ فلاسفرہ نے منہ کو کندھے پر رکھے چادر سے صاف کیا، اور اُٹھتے ہوئے بولا۔
ہاں ٹھیک ہے، ۔ اپنا خیال رکھنا۔۔ پہلوان بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور فلاسفرہ سے ہاتھ ملا کر حویلی کی ایک طرف کو چل دیا۔
مگر فلاسفرہ کی مشکل آسان ہونے کے بجائے اس وقت بڑھی جب وہ اپنی جگہ سے باہر کے دروازے کی طرف روانہ ہوا، ۔اور لنگوٹ کے اندر سے کچھ پکوان گرے۔ مطلب یہ کام اس نے اس وقت مہارت اور پہلوان کی نظر سے بچ کر کیا جب بظاہر اس نے تھال صاف کیا، ۔کیونکہ سارے ایک ساتھ منہ میں ڈالنے سے تو رہا۔
شریفو جسے فلاسفرہ پہلے ہی مشکوک سا لگا تھا، نے جب یہ دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا، اور اس نے مہمان خانے کے برامدے سے فلاسفرہ کی طرف دوڑ لگادی، ۔ فلاسفرہ بیچارہ بڑی مشکل سے اپنی دھوتی بچا کے بھاگا، اور تب جا کے رُکا جب پہلوان کی حویلی کافی پیچھے رہ گئی۔۔
اُس کے بعد فلاسفرہ کو کھبی پہلوان کی گلیوں کی طرف بھی جاتے نہیں دیکھا گیا۔

facebook.com/JANI1JANI1


جن کا نام ٹیگ نہ کرسکا ، ان سے معظرت۔۔

Hahaha - Nailed it. Superb!
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
اتنا غصہ اچھا نہی جانی جناب
ان پڑھ فلاسفرا ہے کچھ تو خیال کر


گنج پور کی تاریخ میں اگر چوہدریوں کے بعد کوئی اچھا نام لگا ہے تو وہ ہے۔۔

فلاسفرہ اور شریفوُ۔۔۔

فلاسفرہ ایک اچھا خاصہ فلاسفر ہے ۔۔اسے انپڑھ کہہ کر انپڑوں کی توہین نہ کریں۔۔:p۔​
 

Nice2MU

President (40k+ posts)

شکریہ جی۔۔۔
اسے کہتے ہیں وقت کی ضرورت۔۔:p;)۔

۔اس نے چھ دے مارے ۔۔ ہم نے بس ایک۔۔:cool:۔

ویسے بنتا تو اسکا بھی ایک ہی کالم ہے لیکن وہ اسے فضول میں ربڑ کی طرح کھینچ رہا ہے
 
Last edited:

1mr4n

Minister (2k+ posts)
لو جی کر لو گل
ہم بات بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ کالم بھی لکھتا ہے تو چرچا نہی ہوتا