پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹ جیسے پل پل بدلتے کھیل کو اسی سو سالہ پرانے روایتی فرسودہ طریق پر کھینچے جا رہا ہے جس کی وجہ سے کرکٹرز پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے
لاکھوں میں تنخواہ اور مراعات لینے والے اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کررہے ہیں اس کا اندازہ پی سی بی کی آفیشل ویب ساییٹ پر جاکر پاکستانی ٹیم کا سالانہ کیلنڈر چیک کرنے سے ہوجاتا ہے
کیلنڈر میں پاکستانی ٹیم کہ نہ تو کسی سیریز کا ذکر ملتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے دورے کا کوی اتا پتا، ان سے بہتر تو افغانستان کرکٹ بورڈ کام کررہا ہے بلکہ زیادہ آفیشل طریق پر کام کررہا ہے
کرکٹ بورڈ کا فرض نہیں کہ ہماری ٹیم کے بیروں ملک دوروں کا شیڈول پہلے سے طے کرلیا کریں، پی سی بی کے آفیشل جب تک اپنے کمروں سے باہر نکل کر کرکٹ کی خدمت نہیں کریں گے اس وقت تک پاکستان کی ٹیم بہتر نہیں ہوگی۔ اپنے پڑوسی ملک سے ہی کچھ سیکھ لیں ان کی ٹیم میں سلیکٹ ہونے کیلئے یو یو ٹیسٹ میں سترہ نمبر لینا لازمی ہے یعنی ان فٹ پلیئر تو خواہ کوہلی ہی کیوں نہ ہو وہ ٹیم سے باہر نکل جاے گا
بیٹنگ میں ہماری پرابلم ہمیشہ رہی ہے اس کو کیسے حل کیا جاے، انڈیا میں انڈر سولہ ٹیم میں بیٹنگ کرنے والے نوجوان سو اور دو سو رنز کی اننگ کھیلتے ہیں تب جاکر ان کو اچھے کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ہمارے ہاں تو نوجوانوں کو ابھی تک کوی یہ بتانے والا نہیں کہ بلا سیدھا کیسے پکڑنا ہے فارورڈ او بیک فٹ پر کیسے کھیلنا ہے اور جب تک یہ قومی ٹیم میں پنہچتا ہے اس کی ٹیکنیکل خامیاں پختہ ہوچکی ہوتی ہیں؟
بابر اعظم جیسے کرکٹر بلے اور پیڈ کے درمیان غیر ضروری گیپ کی وجہ سے کئی دفعہ بولڈ ہونے کے باوجود اس خامی کو امپروو نہیں کر پاتے ، عام کرکٹرز کے پاس تو ٹیکنیک نام کی کوی چیز ہی نہیں۔ دو چار کرکٹرز جو انگلش کاونٹی کھیلتے ہیں ان کے علاوہ تو کسی کی ٹریننگ بھی شاید ہو پاتی ہے کہ نہیں؟
انڈین کرکٹ بورڈ کی ویب پر انڈین ٹیم کا شیڈول اگلے سال تک کا دیا جاچکا ہے مگر پاکستان کا خانہ ورلڈ کپ کے بعد خالی دکھای دے رہا ہے
آخر کرکٹ بورڈ کیا کررہا ہے؟ جب دوسری ٹیمیں پہلے ہی سے بک ہوجاتی ہیں تو آپ کو سیریز کیسے مل سکے گیَ؟
لاکھوں میں تنخواہ اور مراعات لینے والے اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کررہے ہیں اس کا اندازہ پی سی بی کی آفیشل ویب ساییٹ پر جاکر پاکستانی ٹیم کا سالانہ کیلنڈر چیک کرنے سے ہوجاتا ہے
کیلنڈر میں پاکستانی ٹیم کہ نہ تو کسی سیریز کا ذکر ملتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے دورے کا کوی اتا پتا، ان سے بہتر تو افغانستان کرکٹ بورڈ کام کررہا ہے بلکہ زیادہ آفیشل طریق پر کام کررہا ہے
کرکٹ بورڈ کا فرض نہیں کہ ہماری ٹیم کے بیروں ملک دوروں کا شیڈول پہلے سے طے کرلیا کریں، پی سی بی کے آفیشل جب تک اپنے کمروں سے باہر نکل کر کرکٹ کی خدمت نہیں کریں گے اس وقت تک پاکستان کی ٹیم بہتر نہیں ہوگی۔ اپنے پڑوسی ملک سے ہی کچھ سیکھ لیں ان کی ٹیم میں سلیکٹ ہونے کیلئے یو یو ٹیسٹ میں سترہ نمبر لینا لازمی ہے یعنی ان فٹ پلیئر تو خواہ کوہلی ہی کیوں نہ ہو وہ ٹیم سے باہر نکل جاے گا
بیٹنگ میں ہماری پرابلم ہمیشہ رہی ہے اس کو کیسے حل کیا جاے، انڈیا میں انڈر سولہ ٹیم میں بیٹنگ کرنے والے نوجوان سو اور دو سو رنز کی اننگ کھیلتے ہیں تب جاکر ان کو اچھے کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ہمارے ہاں تو نوجوانوں کو ابھی تک کوی یہ بتانے والا نہیں کہ بلا سیدھا کیسے پکڑنا ہے فارورڈ او بیک فٹ پر کیسے کھیلنا ہے اور جب تک یہ قومی ٹیم میں پنہچتا ہے اس کی ٹیکنیکل خامیاں پختہ ہوچکی ہوتی ہیں؟
بابر اعظم جیسے کرکٹر بلے اور پیڈ کے درمیان غیر ضروری گیپ کی وجہ سے کئی دفعہ بولڈ ہونے کے باوجود اس خامی کو امپروو نہیں کر پاتے ، عام کرکٹرز کے پاس تو ٹیکنیک نام کی کوی چیز ہی نہیں۔ دو چار کرکٹرز جو انگلش کاونٹی کھیلتے ہیں ان کے علاوہ تو کسی کی ٹریننگ بھی شاید ہو پاتی ہے کہ نہیں؟
انڈین کرکٹ بورڈ کی ویب پر انڈین ٹیم کا شیڈول اگلے سال تک کا دیا جاچکا ہے مگر پاکستان کا خانہ ورلڈ کپ کے بعد خالی دکھای دے رہا ہے
آخر کرکٹ بورڈ کیا کررہا ہے؟ جب دوسری ٹیمیں پہلے ہی سے بک ہوجاتی ہیں تو آپ کو سیریز کیسے مل سکے گیَ؟