حقیقت نمبر ایک(ترقی کا بلبلہ)۔
ٓآئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے سود خورادارے،عالمی قوتوں کے آلہ کار ہوتے ہیں، جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ملک ان کے سود خور چنگل سے نکل جائے اورترقی کر کے ان کے برابر کھڑا ہو سکے(جس طرح گورکن کا کام مسلسل اموات سے زندہ ہے، اسی طرح ایک ساہو کار کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا کلائنٹ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے اور اس کی مستقل آمدن کا ذریعہ بند ہو جائے)۔لہذا ہمیشہ ایسی پالیسیاں نافذ کروائیں گے کہ ملک میں یا تو ترقی نہ ہو، یااگر ہو بھی تو ایسی دکھاوے کی ہو کہ وہ جب چاہیں اسے ختم کر سکیں۔
حقیقت نمبر دو(حکمرانی آئی ایم ایف کی)
کہنے کو اس وقت ملک پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے، مگر سکہ آئی ایم ایف کا چل رہا ہے۔
فنانس منسٹر کون ہو گا۔ ایف بی آر کا چیئرمین کس کو لگانا ہے۔ سٹیٹ بنک کا گورنرکون ہونا چاہئے۔
بجلی کا ریٹ کیا ہو
گیس کس قیمت پر ملے گی۔
پٹرول کی قیمت کتنی رکھنی ہے۔
کون کون سی ٹیکس اصلاحات کرنی ہے۔ ٹیکس نظام میں کیا تبدیلی کرنی ہے۔
حکومت کون سے اداروں کو بیچے، کن کو گروی رکھے(پی آئی اے اور سٹیل مل جو پچھلی حکومت نہ بیچ سکی، اب نئے پاکستان میں قومی اثاثے کوڑیوں کے دام بیچ دیئے جائیں گے، اور وہ بھی غیر ملکی قوتوں کو)
کس چیز پر سبسڈی دینی ہے، اور کس پر ختم کرنی ہے۔
کرنسی کی ویلیو کہاں تک لے جانی ہے۔
قرض سے ملنے والی رقم کہاں خرچ کرنی ہے، اور کون سے ترقیاتی پروگراموں پر لگانی ہے۔
وغیرہ وغیرہ
یہ اور اس جیسی تمام چیزیں براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں (اور کوئی مائی کا لال انکار کی جرت نہیں کر سکتا کہ خود حکومت اور آئی ایم کے بیانات موجود ہیں)۔ اور یہ تو وہ چیزیں ہیں جو سامنے ہیں اور ان کا تذکرہ اخباروں میں کھلم کھلا آتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ کتنی خفیہ ہدایات ملتی ہوں گی، اس کا کوئی حساب نہیں۔اس سب کو دیکھ کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت حکومت اور رٹ آئی ایم کی ہے۔
حقیقت نمبر تین؛
اگر آپ اوپر والی دونوں حقیقتوں کو مانتے ہیں (اور نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں)، تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ معاشی استحکام، ترقی اور ریٹنگ میں بہتری کے جتنے بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں، وہ یا تو جھوٹے ہیں، یا کھوکھلے اور عارضی ہیں، اور عالمی ساہوکاروں کی مرہوں منت ہیں،ا ور وہ جب چاہیں معاشی ترقی کے اس بت کو توڑ سکتے ہیں۔سامنے کی بات ہے کہ جب الف سے لے کر یے تک ساری باتیں آئی ایم ایف کی مانی جا رہی ہیں، تو پھرکیا آئی ایم ایف کا دماغ خراب ہے کہ وہ صورت حال کو مخدوش بتائے، کیونکہ ایسا کرنے سے سارا ملبہ اسی پر آئے گا کہ پالیسیاں تو اسی کی چل رہی ہیں۔( بلکہ وہ تو صورت حال کو خوشنما بنا کر پیش کریں گے، چاہے صورت حال کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو)۔اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض محال کوئی معاشی بہتری آ بھی رہی ہے، تو اس کا سارا کریڈٹ آئی ایم ایف کو جائے گا، نہ کی پی ٹی آئی حکومت کو۔
گاجر چھڑی کی پالیسی(پھر ان خبرں کی حقیقت کیا ہے؟)۔
پچھلے زمانے میں اپنے غلاموں کو نوازنے کے لئے نائٹ ہوڈ یعنی سر کا خطاب دیا جاتا تھا، جاگیریں عطا کی جاتیں تھی، اور آج کل کے زمانے میں نوبل انعام، ایف اے ٹی ایف، ریٹنگز وغیرہ، گاجر اور چھڑی کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی ملک چوں چاں کرے، یا خود انحصاری کی جرات کرے، تو اس کو پہلے پہل ایف اے ٹی ایف، اور ریٹنگز وغیرہ کے ذریعے قابو کیا جاتا ہے۔اور اگر نہ مانے تو پھر اس پر پابندیاں، اور آخری چارہ کار کے طور پر اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ کہ ہم صرف اسی ترقی کو ترقی مانیں گے، جسے عوام خود محسوس کر سکیں، اور پھر ہمیں کسی ریٹنگ ایجنسی کی ریٹنگ کی پروا نہیں ہو گی، خواہ وہ ریٹنگ کو کتنا ہی گرا دیں۔بصورت دیگر یہ اخباری خبریں، کالم اور ایجنسیاں جتنی مرضی خوشنما تصویر پیش کریں، اگر عوام کی چیخیں نکل رہی ہوں تو ہماری نظر میں یہ سب ڈھکوسلا ہیں۔
ضروری وضاحت؛
ایسا نہیں کہ پچھلی حکومتیں آئی ایم ایف کے اثر سے آزاد تھیں، اور اپنی مرضی کے فیصلے کرتی تھیں،مگر ایک تو یہ کہ موجودہ حکومت انتہائی بلند و بانگ دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی، لہذا موجودہ صورت حال ذیادہ تکلیف دے ہے، اور دوسرا یہ کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ حکومت یا اس کا کچھ حصہ خود بھی وہی چاہتا ہے، جو آئی ایم ایف کی خواہش ہے۔دوسرے لفظوں میں پچھلی حکومتیں بھی کرتی وہیں تھیں، جو اوپر سے حکم آتا تھا، مگر کچھ نہ کچھ مزاحمت کا احساس ہوتا تھا۔ مگر اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کو کہنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، اور حکومت کہے بغیر ہی آئی ایم ایف کے احکامات کو بجا لاتی ہے۔
ٓآئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے سود خورادارے،عالمی قوتوں کے آلہ کار ہوتے ہیں، جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ملک ان کے سود خور چنگل سے نکل جائے اورترقی کر کے ان کے برابر کھڑا ہو سکے(جس طرح گورکن کا کام مسلسل اموات سے زندہ ہے، اسی طرح ایک ساہو کار کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کا کلائنٹ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے اور اس کی مستقل آمدن کا ذریعہ بند ہو جائے)۔لہذا ہمیشہ ایسی پالیسیاں نافذ کروائیں گے کہ ملک میں یا تو ترقی نہ ہو، یااگر ہو بھی تو ایسی دکھاوے کی ہو کہ وہ جب چاہیں اسے ختم کر سکیں۔
حقیقت نمبر دو(حکمرانی آئی ایم ایف کی)
کہنے کو اس وقت ملک پر پی ٹی آئی کی حکومت ہے، مگر سکہ آئی ایم ایف کا چل رہا ہے۔
فنانس منسٹر کون ہو گا۔ ایف بی آر کا چیئرمین کس کو لگانا ہے۔ سٹیٹ بنک کا گورنرکون ہونا چاہئے۔
بجلی کا ریٹ کیا ہو
گیس کس قیمت پر ملے گی۔
پٹرول کی قیمت کتنی رکھنی ہے۔
کون کون سی ٹیکس اصلاحات کرنی ہے۔ ٹیکس نظام میں کیا تبدیلی کرنی ہے۔
حکومت کون سے اداروں کو بیچے، کن کو گروی رکھے(پی آئی اے اور سٹیل مل جو پچھلی حکومت نہ بیچ سکی، اب نئے پاکستان میں قومی اثاثے کوڑیوں کے دام بیچ دیئے جائیں گے، اور وہ بھی غیر ملکی قوتوں کو)
کس چیز پر سبسڈی دینی ہے، اور کس پر ختم کرنی ہے۔
کرنسی کی ویلیو کہاں تک لے جانی ہے۔
قرض سے ملنے والی رقم کہاں خرچ کرنی ہے، اور کون سے ترقیاتی پروگراموں پر لگانی ہے۔
وغیرہ وغیرہ
یہ اور اس جیسی تمام چیزیں براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں (اور کوئی مائی کا لال انکار کی جرت نہیں کر سکتا کہ خود حکومت اور آئی ایم کے بیانات موجود ہیں)۔ اور یہ تو وہ چیزیں ہیں جو سامنے ہیں اور ان کا تذکرہ اخباروں میں کھلم کھلا آتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ کتنی خفیہ ہدایات ملتی ہوں گی، اس کا کوئی حساب نہیں۔اس سب کو دیکھ کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت حکومت اور رٹ آئی ایم کی ہے۔
حقیقت نمبر تین؛
اگر آپ اوپر والی دونوں حقیقتوں کو مانتے ہیں (اور نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں)، تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ معاشی استحکام، ترقی اور ریٹنگ میں بہتری کے جتنے بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں، وہ یا تو جھوٹے ہیں، یا کھوکھلے اور عارضی ہیں، اور عالمی ساہوکاروں کی مرہوں منت ہیں،ا ور وہ جب چاہیں معاشی ترقی کے اس بت کو توڑ سکتے ہیں۔سامنے کی بات ہے کہ جب الف سے لے کر یے تک ساری باتیں آئی ایم ایف کی مانی جا رہی ہیں، تو پھرکیا آئی ایم ایف کا دماغ خراب ہے کہ وہ صورت حال کو مخدوش بتائے، کیونکہ ایسا کرنے سے سارا ملبہ اسی پر آئے گا کہ پالیسیاں تو اسی کی چل رہی ہیں۔( بلکہ وہ تو صورت حال کو خوشنما بنا کر پیش کریں گے، چاہے صورت حال کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو)۔اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض محال کوئی معاشی بہتری آ بھی رہی ہے، تو اس کا سارا کریڈٹ آئی ایم ایف کو جائے گا، نہ کی پی ٹی آئی حکومت کو۔
گاجر چھڑی کی پالیسی(پھر ان خبرں کی حقیقت کیا ہے؟)۔
پچھلے زمانے میں اپنے غلاموں کو نوازنے کے لئے نائٹ ہوڈ یعنی سر کا خطاب دیا جاتا تھا، جاگیریں عطا کی جاتیں تھی، اور آج کل کے زمانے میں نوبل انعام، ایف اے ٹی ایف، ریٹنگز وغیرہ، گاجر اور چھڑی کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی ملک چوں چاں کرے، یا خود انحصاری کی جرات کرے، تو اس کو پہلے پہل ایف اے ٹی ایف، اور ریٹنگز وغیرہ کے ذریعے قابو کیا جاتا ہے۔اور اگر نہ مانے تو پھر اس پر پابندیاں، اور آخری چارہ کار کے طور پر اس پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ کہ ہم صرف اسی ترقی کو ترقی مانیں گے، جسے عوام خود محسوس کر سکیں، اور پھر ہمیں کسی ریٹنگ ایجنسی کی ریٹنگ کی پروا نہیں ہو گی، خواہ وہ ریٹنگ کو کتنا ہی گرا دیں۔بصورت دیگر یہ اخباری خبریں، کالم اور ایجنسیاں جتنی مرضی خوشنما تصویر پیش کریں، اگر عوام کی چیخیں نکل رہی ہوں تو ہماری نظر میں یہ سب ڈھکوسلا ہیں۔
ضروری وضاحت؛
ایسا نہیں کہ پچھلی حکومتیں آئی ایم ایف کے اثر سے آزاد تھیں، اور اپنی مرضی کے فیصلے کرتی تھیں،مگر ایک تو یہ کہ موجودہ حکومت انتہائی بلند و بانگ دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی، لہذا موجودہ صورت حال ذیادہ تکلیف دے ہے، اور دوسرا یہ کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ حکومت یا اس کا کچھ حصہ خود بھی وہی چاہتا ہے، جو آئی ایم ایف کی خواہش ہے۔دوسرے لفظوں میں پچھلی حکومتیں بھی کرتی وہیں تھیں، جو اوپر سے حکم آتا تھا، مگر کچھ نہ کچھ مزاحمت کا احساس ہوتا تھا۔ مگر اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کو کہنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، اور حکومت کہے بغیر ہی آئی ایم ایف کے احکامات کو بجا لاتی ہے۔