مذہب پرست صدیوں سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں اور آج بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام علوم و فنون کا منبع اور مخزن وہ "آسمانی" صحیفے ہیں جو ان کے پاس خدا کی طرف سے نازل ہوئے ہیں اور ان صحیفوں میں خدا نے ہر قسم کے علوم اور اسرار انسانوں کو بتادیئے ہیں۔ مگرزمینی حقیقت تو ان مذہب پرستوں کے اس دعوے کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ آج انسان کے پاس علوم کا جو خزانہ ہے، اس میں ایک بھی علم یا علم کا ایک بھی ذرہ ایسا نہیں ہےجو اس خزانے میں کسی مذہبی صحیفے کی بدولت شامل ہوا ہو۔ انسان نے آج تک جتنا بھی علم دریافت کیا ہے، وہ صرف اور صرف انسانی عقل کی مرہونِ منت ہے اور انسانوں کی اجتماعی عقلی کاوش کا نتیجہ ہے۔ ابھی چند سو سال پہلے کی بات ہے مذہب پرستوں کے پاس وہ تمام مذہبی صحیفے موجود تھے جن کو وہ علوم کا سمندر قرار دیتے ہیں، مگر ان صحیفوں کی بدولت وہ انسان کو یہ تک نہ بتاسکے کہ زمین گول ہے یا فلیٹ اور اس کائنات کی وسعت کیا ہے اور اس میں زمین کی حیثیت کیا ہے، پھر دو دانا آدمیوں گلیلیو اور کوپرنیکس نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے یہ راز کھولا کہ زمین کی اس کائنات میں حیثیت کیا ہے، وہ مذہب پرست جو ہاتھ میں مذہبی صحیفے پکڑے زمانوں سے انسان کو بتاتے آرہے تھے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور یہ سورج ستارے تو محض زمین کی تزئین و آرائش کیلئے بنائے گئے ہیں، ان کو انسانی عقل نے مات دے دی، غلط ثابت کردیا اور انسان کے علم کو ایک نئی جہت عطا کی۔
رفتہ رفتہ کائنات کے بارے میں انسانی علم میں انسانی عقل کی بدولت ہی اضافہ ہوتا گیا، پھر انسانی عقل کی بدولت ہی ہبل ٹیلی سکوپ ایجاد ہوئی، اس کو خلا میں چھوڑا گیا اور اس نے انسان کے سامنے حیرت کا جہان کھول دیا۔ انسان کو پتا چلا کہ زمین کی حیثیت تو اس وسیع و عریض کائنات میں کچھ بھی نہیں اور انسان تواب تک محض نرگسیت کے فریب میں تھا۔ مذہب پرستوں نے اپنے قدیم بوسیدہ صحیفوں کی وجہ سے انسان اور اس سیارے کو جو مرکزی حیثیت دی ہوئی تھی وہ دھڑام سے منہ کے بل زمین پر آگری، انسان کے صدیوں سے تراشے ہوئے بت انسانی علم نے پاش پاش کردیئے۔۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارا کرہ ارض تو اس کائنات میں تیرتے ہوئے اربوں کھربوں ذروں میں سے محض ایک ذرہ ہے ، اور یہ علم ہمیں انسانی عقل نے ہی بخشا ہے، کسی مذہبی صحیفے نے نہیں۔ مذہبی صحیفوں میں تو آج بھی وہی کچھ لکھا ہے جو صدیوں پہلے لکھا تھا، اس میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی، بہتری آئی ہے تو انسانی علم میں آئی ہے جو کہ انسان نے اپنی عقل سے حاصل کیا ہے۔۔آج ہم نے اس سیارہ زمین کو عملی طور پر اپنے لئے ایک چھوٹا سا گاؤں بنا کر رکھ دیا ہے جس میں ایک انسان موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی وقت دنیا کے دوسرے کونے میں موجود انسان کے ساتھ سیکنڈز میں رابطہ کرسکتا ہے۔ ہم نے فضا میں اڑنے والے طیارے بنا لئے جس پر بیٹھ کر مہینوں کا سفر ہم گھنٹوں میں طے کرلیتے ہیں۔ آج اگر انسان مریخ پر جا پہنچا ہے تو یہ بھی انسانی عقل کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے، کسی بھی مذہبی صحیفے کا اس میں رتی برابر حصہ نہیں ہے۔
سینکڑوں سالوں تک مذہب پرست ہاتھ میں فرسودہ صحیفے پکڑےانسانوں کو بتاتے رہے کہ چند ہزار سال پہلے خدا نے مٹی کا پتلا گوندھ کر پہلا انسان بنایا جس کی پسلی توڑ کر اس میں مادہ کو نکالا اور پھر ان دونوں سے پوری نسلِ انسانی چلی، مزید یہ کہ دیگر تمام مخلوقات بھی الگ الگ بنائی گئی تھیں اور ان کا انسان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ متھ یہ اسطورہ بھی بالآخر انسانی عقل نے ہی توڑا اور انسان کو حقیقت سے روشناس کیا کہ یہ انسان، جانور، چرند پرند، درخت سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں،زمین پر پائی جانے والی تمام تر حیات کی اکائی ایک ہی ہے، ڈی این اے کی دریافت نے انسان کو بتایا کہ انسان کے اندر بھی وہی حیاتیاتی اکائی ہے جو کیلے کے چھلکے میں ہے ، ڈی این اے نے انسان کے سامنے علمِ حیاتیات کے نئے روزن کھول دیئے ۔ آج انسان جینٹک انجینئرنگ کرکے جانداروں میں تبدیلی کرنے پر قادر ہوچکا ہے اور مذہب پرستوں کی صدیوں پرانی گھڑی ہوئی کہانیاں آج بھی وہی سبق دہرا رہی ہیں۔ آج ہم سٹیم سیل کے ذریعے بیماریوں کے علاج کا نیا باب کھول رہے ہیں۔یہ انسانی عقل ہی کے باعث ممکن ہوا کہ ایٹم کا سینہ چیر کر طاقت کا ایسا جہان دریافت کرلیا گیا ہے کہ جس سے چاہے تو یہ سیارہ زمین تباہ کرلیا جائے اور چاہے تو اس سے توانائی کا مسئلہ ہی سلجھا لیا جائے۔۔
کئی صدیوں تک مذہب پرستوں نے نام نہاد مذہبی صحیفوں کو انسانی اخلاقیات کا منبع قرار دیئے رکھا اور انسانوں کو یہ باور کرائے رکھا کہ اگر ان مذہبی صحیفوں کو ترک کردیا گیا تو انسان کے پاس اخلاقیات کی کوئی دلیلِ مطلق باقی نہ رہ جائے گی۔۔ آج کے جدید زمانے نے مذہب پرستوں کی یہ متھ بھی توڑ دی ہے اور ثابت کردیا ہے کہ اخلاقیات کیلئے ہرگز مذہب کی ضرورت نہیں ہے، ایمپیریکل لاجک سے دیکھا جائے تو زمینی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ غیر مذہبی معاشرے اگر آسودہ حال ہوں تو پسماندہ مذہبی معاشروں کی نسبت اخلاقی اعتبار سے بہت بہتر ہوتے ہیں اور اگر ریشنل لاجک سے دیکھا جائے تو بھی مذہب پرستوں کی یہ دلیل باطل قرار پاتی ہے کیونکہ انسانی نفسیات کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ عوامل جو انسانی اعمال اور افعال پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ اور ہوتے ہیں جس میں نیچر اور نرچر یعنی انسانی جینز اور ماحول بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔۔ یوں بھی صدیوں پہلے سقراط کا یوتھائفرو ڈائلما مذہب پرستوں کو اس معاملے میں لاجواب کرچکا ہے۔۔ آج کی جدید ریاست اور نظمِ حکومت پر نظر دوڑائیں۔۔ یہ نیشن سٹیٹ، فرد کی آزادی، اظہارِ رائے جیسے تصورات اجتماعی انسانی عقل کی ہی دین ہیں۔ مقننہ، حکومت اور عدلیہ ان تینوں کو الگ الگ کرنے کا سہرا بھی انسانی فکر کو ہی جاتا ہے۔
لکھنے کو اس موضوع پر بے تکان لکھا جاسکتا ہے، مگر وقت کی کمی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آج ہمارے پاس موجود تمام تر علم، تمام تر دریافتیں، تمام ایجادات اور انسانی زندگی کو آسان بنانے والی تمام سہولیات صرف اور صرف انسانی عقل کی بدولت ہیں، تو پھر کس وجہ سے آج بھی مذہب پرست معاشرے اس فریب میں مبتلا ہیں کہ مذہب انسانی علم میں کسی بھی قسم کا اضافہ کرسکتا ہے۔ میرا تمام مذہب پرستوں کو چیلنج ہے کہ وہ اب تک انسانی عقل سے کشید مذہبی خزانے کو ٹٹولیں پھرولیں اور اس میں سے ایک بھی ایسی چیز نکال کر دکھا دیں جو اس انسانی خزانے میں مذہب کی بدولت شامل ہوئی ہو۔ جہاں تک مابعدالطبیعاتی معاملات کا سوال ہے تو جب مذہب آج تک مادی علوم (طبیعات) سے متعلق ہماری رتی بھر رہنمائی نہیں کرسکا اور جس قدر کی وہ بھی غلط کی تو مذہب کی غیر مادی معاملات (مابعد الطبیعات) میں رہنمائی کو کیونکر قابلِ اعتبار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔۔۔
رفتہ رفتہ کائنات کے بارے میں انسانی علم میں انسانی عقل کی بدولت ہی اضافہ ہوتا گیا، پھر انسانی عقل کی بدولت ہی ہبل ٹیلی سکوپ ایجاد ہوئی، اس کو خلا میں چھوڑا گیا اور اس نے انسان کے سامنے حیرت کا جہان کھول دیا۔ انسان کو پتا چلا کہ زمین کی حیثیت تو اس وسیع و عریض کائنات میں کچھ بھی نہیں اور انسان تواب تک محض نرگسیت کے فریب میں تھا۔ مذہب پرستوں نے اپنے قدیم بوسیدہ صحیفوں کی وجہ سے انسان اور اس سیارے کو جو مرکزی حیثیت دی ہوئی تھی وہ دھڑام سے منہ کے بل زمین پر آگری، انسان کے صدیوں سے تراشے ہوئے بت انسانی علم نے پاش پاش کردیئے۔۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارا کرہ ارض تو اس کائنات میں تیرتے ہوئے اربوں کھربوں ذروں میں سے محض ایک ذرہ ہے ، اور یہ علم ہمیں انسانی عقل نے ہی بخشا ہے، کسی مذہبی صحیفے نے نہیں۔ مذہبی صحیفوں میں تو آج بھی وہی کچھ لکھا ہے جو صدیوں پہلے لکھا تھا، اس میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی، بہتری آئی ہے تو انسانی علم میں آئی ہے جو کہ انسان نے اپنی عقل سے حاصل کیا ہے۔۔آج ہم نے اس سیارہ زمین کو عملی طور پر اپنے لئے ایک چھوٹا سا گاؤں بنا کر رکھ دیا ہے جس میں ایک انسان موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی وقت دنیا کے دوسرے کونے میں موجود انسان کے ساتھ سیکنڈز میں رابطہ کرسکتا ہے۔ ہم نے فضا میں اڑنے والے طیارے بنا لئے جس پر بیٹھ کر مہینوں کا سفر ہم گھنٹوں میں طے کرلیتے ہیں۔ آج اگر انسان مریخ پر جا پہنچا ہے تو یہ بھی انسانی عقل کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے، کسی بھی مذہبی صحیفے کا اس میں رتی برابر حصہ نہیں ہے۔
سینکڑوں سالوں تک مذہب پرست ہاتھ میں فرسودہ صحیفے پکڑےانسانوں کو بتاتے رہے کہ چند ہزار سال پہلے خدا نے مٹی کا پتلا گوندھ کر پہلا انسان بنایا جس کی پسلی توڑ کر اس میں مادہ کو نکالا اور پھر ان دونوں سے پوری نسلِ انسانی چلی، مزید یہ کہ دیگر تمام مخلوقات بھی الگ الگ بنائی گئی تھیں اور ان کا انسان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ متھ یہ اسطورہ بھی بالآخر انسانی عقل نے ہی توڑا اور انسان کو حقیقت سے روشناس کیا کہ یہ انسان، جانور، چرند پرند، درخت سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں،زمین پر پائی جانے والی تمام تر حیات کی اکائی ایک ہی ہے، ڈی این اے کی دریافت نے انسان کو بتایا کہ انسان کے اندر بھی وہی حیاتیاتی اکائی ہے جو کیلے کے چھلکے میں ہے ، ڈی این اے نے انسان کے سامنے علمِ حیاتیات کے نئے روزن کھول دیئے ۔ آج انسان جینٹک انجینئرنگ کرکے جانداروں میں تبدیلی کرنے پر قادر ہوچکا ہے اور مذہب پرستوں کی صدیوں پرانی گھڑی ہوئی کہانیاں آج بھی وہی سبق دہرا رہی ہیں۔ آج ہم سٹیم سیل کے ذریعے بیماریوں کے علاج کا نیا باب کھول رہے ہیں۔یہ انسانی عقل ہی کے باعث ممکن ہوا کہ ایٹم کا سینہ چیر کر طاقت کا ایسا جہان دریافت کرلیا گیا ہے کہ جس سے چاہے تو یہ سیارہ زمین تباہ کرلیا جائے اور چاہے تو اس سے توانائی کا مسئلہ ہی سلجھا لیا جائے۔۔
کئی صدیوں تک مذہب پرستوں نے نام نہاد مذہبی صحیفوں کو انسانی اخلاقیات کا منبع قرار دیئے رکھا اور انسانوں کو یہ باور کرائے رکھا کہ اگر ان مذہبی صحیفوں کو ترک کردیا گیا تو انسان کے پاس اخلاقیات کی کوئی دلیلِ مطلق باقی نہ رہ جائے گی۔۔ آج کے جدید زمانے نے مذہب پرستوں کی یہ متھ بھی توڑ دی ہے اور ثابت کردیا ہے کہ اخلاقیات کیلئے ہرگز مذہب کی ضرورت نہیں ہے، ایمپیریکل لاجک سے دیکھا جائے تو زمینی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ غیر مذہبی معاشرے اگر آسودہ حال ہوں تو پسماندہ مذہبی معاشروں کی نسبت اخلاقی اعتبار سے بہت بہتر ہوتے ہیں اور اگر ریشنل لاجک سے دیکھا جائے تو بھی مذہب پرستوں کی یہ دلیل باطل قرار پاتی ہے کیونکہ انسانی نفسیات کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ عوامل جو انسانی اعمال اور افعال پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ اور ہوتے ہیں جس میں نیچر اور نرچر یعنی انسانی جینز اور ماحول بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔۔ یوں بھی صدیوں پہلے سقراط کا یوتھائفرو ڈائلما مذہب پرستوں کو اس معاملے میں لاجواب کرچکا ہے۔۔ آج کی جدید ریاست اور نظمِ حکومت پر نظر دوڑائیں۔۔ یہ نیشن سٹیٹ، فرد کی آزادی، اظہارِ رائے جیسے تصورات اجتماعی انسانی عقل کی ہی دین ہیں۔ مقننہ، حکومت اور عدلیہ ان تینوں کو الگ الگ کرنے کا سہرا بھی انسانی فکر کو ہی جاتا ہے۔
لکھنے کو اس موضوع پر بے تکان لکھا جاسکتا ہے، مگر وقت کی کمی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آج ہمارے پاس موجود تمام تر علم، تمام تر دریافتیں، تمام ایجادات اور انسانی زندگی کو آسان بنانے والی تمام سہولیات صرف اور صرف انسانی عقل کی بدولت ہیں، تو پھر کس وجہ سے آج بھی مذہب پرست معاشرے اس فریب میں مبتلا ہیں کہ مذہب انسانی علم میں کسی بھی قسم کا اضافہ کرسکتا ہے۔ میرا تمام مذہب پرستوں کو چیلنج ہے کہ وہ اب تک انسانی عقل سے کشید مذہبی خزانے کو ٹٹولیں پھرولیں اور اس میں سے ایک بھی ایسی چیز نکال کر دکھا دیں جو اس انسانی خزانے میں مذہب کی بدولت شامل ہوئی ہو۔ جہاں تک مابعدالطبیعاتی معاملات کا سوال ہے تو جب مذہب آج تک مادی علوم (طبیعات) سے متعلق ہماری رتی بھر رہنمائی نہیں کرسکا اور جس قدر کی وہ بھی غلط کی تو مذہب کی غیر مادی معاملات (مابعد الطبیعات) میں رہنمائی کو کیونکر قابلِ اعتبار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔۔۔