There is only 1
Chief Minister (5k+ posts)
اسلام میں مسلمان کے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ، عالم با عمل ہونا ہے . یعنی مسلمان نے علم بھی حاصل کیا ہو اور پھر اس علم پر عمل بھی کرتا ہو.ایسے عالم کا رتبہ عبادت گزاروں سے بھی بڑھ کر ہے . یہ بات ذہن میں رہے کہ عالم سے مراد صرف دینی علوم کا ماہر نہیں بلکے ایسا عالم ہے جو دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی جدید علوم کا بھی ماہر ہو
.
اس ضمن میں پاکستان کو دیکھیں تو حالات انتہائی مایوس کن نظر آتے ہیں
پاکستان میں عالم حضرات یعنی ڈگری ہولڈر تو بہت نظر آتے ہیں لیکن ایسا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے جو ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی متحرک ہوں
.
ریسرچ بھی عملی میدان کا ایک حصہ ہے اور اس میدان میں تو بیڑا ہی غرق ہے
.
پاکستان میں ایم ایس ، ایم فل ، اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لئے اب ریسرچ پیپر کی شرط لگا دی گئی ہے ، وہ ریسرچ پیپر بھی بین الاقوامی اداروں کا منظور شدہ ہونا چاہیے . بظاہر یہ شرائط فائدہ مند لگ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کا پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں
.
ایک طالب علم جو پاکستانی ادارے میں پڑھ رہا ہے اس نے بین الاقوامی معیار کا ریسرچ پیپر لکھنا ہے. اب اس کے لئے وہ بین الاقوامی اداروں کے ریسرچ پپرز کے موضوعات کو دیکھتا ہے کہ وہ کس پر ریسرچ کر سکتا ہے
اسے ریسرچ کرنے کے لئے جو موضوعات ملتے ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک کے دیے گئے ہوتے ہیں
مثلا ناسا کے خلائی مشن میں سے کوئی موضوع ، یا کسی کار بنانے والی کمپنی کی طرف سے کوئی موضوع وغیرہ وغیرہ
ان موضوعات پر ریسرچ کرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے کہ پاکستان میں کوئی سہولت تو میسر نہیں پھر طالب علم ریسرچ کیسے کر سکتا ہے ؟ اور اگر کوئی وہ خیالی گھوڑے دوڑا کر کوئی کام کی چیز سوچ بھی لے تو اس کا فائدہ بھی پاکستان کو نہیں ہوتا ، ان اداروں کو ہوتا ہے جنہوں نے وہ موضوع دیا ہو
.
خلاصہ یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جو بھی ریسرچ ہو رہی ہے اس کا پاکستان کو فائدہ نہیں ہو رہا
. . . . . . . . . . . . .
.
اس ضمن میں پاکستان کو دیکھیں تو حالات انتہائی مایوس کن نظر آتے ہیں
پاکستان میں عالم حضرات یعنی ڈگری ہولڈر تو بہت نظر آتے ہیں لیکن ایسا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے جو ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی متحرک ہوں
.
ریسرچ بھی عملی میدان کا ایک حصہ ہے اور اس میدان میں تو بیڑا ہی غرق ہے
.
پاکستان میں ایم ایس ، ایم فل ، اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لئے اب ریسرچ پیپر کی شرط لگا دی گئی ہے ، وہ ریسرچ پیپر بھی بین الاقوامی اداروں کا منظور شدہ ہونا چاہیے . بظاہر یہ شرائط فائدہ مند لگ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کا پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں
.
ایک طالب علم جو پاکستانی ادارے میں پڑھ رہا ہے اس نے بین الاقوامی معیار کا ریسرچ پیپر لکھنا ہے. اب اس کے لئے وہ بین الاقوامی اداروں کے ریسرچ پپرز کے موضوعات کو دیکھتا ہے کہ وہ کس پر ریسرچ کر سکتا ہے
اسے ریسرچ کرنے کے لئے جو موضوعات ملتے ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک کے دیے گئے ہوتے ہیں
مثلا ناسا کے خلائی مشن میں سے کوئی موضوع ، یا کسی کار بنانے والی کمپنی کی طرف سے کوئی موضوع وغیرہ وغیرہ
ان موضوعات پر ریسرچ کرنے میں بہت مشکل ہوتی ہے کہ پاکستان میں کوئی سہولت تو میسر نہیں پھر طالب علم ریسرچ کیسے کر سکتا ہے ؟ اور اگر کوئی وہ خیالی گھوڑے دوڑا کر کوئی کام کی چیز سوچ بھی لے تو اس کا فائدہ بھی پاکستان کو نہیں ہوتا ، ان اداروں کو ہوتا ہے جنہوں نے وہ موضوع دیا ہو
.
خلاصہ یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جو بھی ریسرچ ہو رہی ہے اس کا پاکستان کو فائدہ نہیں ہو رہا
. . . . . . . . . . . . .
حل کیا ہے
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں دوسرے ممالک سے جدید ترین موضوعات پر ریسرچ میں مقابلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں
تین چار عالم بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں اور ان میں ایک کم علم بندہ آ جائے ، تو وہ اگر خاموشی سے بیٹھ کر سیکھتا رہے تو فائدے میں رہتا ہے لیکن اگر وہ خود کو ان علما کے برابر سمجھ کر گفتگو میں لقمے دینے لگے تو اپنا مذاق ہی بنواتا ہے
.
اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں میں ایسے پرجیکٹ یا موضوعات پر کام کروایں جن کا تعلق براہ راست پاکستان سے ہو اور ان پر عملی طور پر کام بھی کروایا جائے
مثلا ملتان ، تھر ، سبی وغیرہ کے بلند درجہ حرارت کو کام میں لا کر ہم بجلی کیسے بنا سکتے ہیں
اس قسم کی ریسرچ پہلے ہو چکی ہے درحقیقت اسے اب ریسرچ نہیں بلکے عملی پروجیکٹ کہا جا سکتا ہے اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کو نئے موضوعات پر ریسرچ کی ضرورت نہیں بلکے موجودہ علوم کو عملی طور پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے. جب ان علوم کو ہم عملی طور پر لاگو کر دیں گے تو خود ہی ریسرچ کے لئے موضوعات بھی مل جایئں گے . پھر اس ریسرچ کا پاکستان کو فائدہ بھی ہو گا
اس موضوع پر ریسرچ کرنا کسی ایک بندے کا کام نہیں بلکے یہ درجنوں انجینئرز کا کام ہے . لہٰذا اسے کوئی اکیلا بندہ ہاتھ نہیں ڈالتا . لیکن تعلیمی اداروں میں ایک سال میں سینکڑوں انجینئرز نکلتے ہیں اور وہاں ایک پروفیسر اس موضوع کو ایک دو سال میں مکمل کروا سکتا ہے
ا
تین چار عالم بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں اور ان میں ایک کم علم بندہ آ جائے ، تو وہ اگر خاموشی سے بیٹھ کر سیکھتا رہے تو فائدے میں رہتا ہے لیکن اگر وہ خود کو ان علما کے برابر سمجھ کر گفتگو میں لقمے دینے لگے تو اپنا مذاق ہی بنواتا ہے
.
اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں میں ایسے پرجیکٹ یا موضوعات پر کام کروایں جن کا تعلق براہ راست پاکستان سے ہو اور ان پر عملی طور پر کام بھی کروایا جائے
مثلا ملتان ، تھر ، سبی وغیرہ کے بلند درجہ حرارت کو کام میں لا کر ہم بجلی کیسے بنا سکتے ہیں
اس قسم کی ریسرچ پہلے ہو چکی ہے درحقیقت اسے اب ریسرچ نہیں بلکے عملی پروجیکٹ کہا جا سکتا ہے اور جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کو نئے موضوعات پر ریسرچ کی ضرورت نہیں بلکے موجودہ علوم کو عملی طور پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے. جب ان علوم کو ہم عملی طور پر لاگو کر دیں گے تو خود ہی ریسرچ کے لئے موضوعات بھی مل جایئں گے . پھر اس ریسرچ کا پاکستان کو فائدہ بھی ہو گا
اس موضوع پر ریسرچ کرنا کسی ایک بندے کا کام نہیں بلکے یہ درجنوں انجینئرز کا کام ہے . لہٰذا اسے کوئی اکیلا بندہ ہاتھ نہیں ڈالتا . لیکن تعلیمی اداروں میں ایک سال میں سینکڑوں انجینئرز نکلتے ہیں اور وہاں ایک پروفیسر اس موضوع کو ایک دو سال میں مکمل کروا سکتا ہے
ا